QR CodeQR Code

اربعین و پیادہ روی کی ثقافت کا ارتقاء

25 Sep 2021 11:38

اسلام ٹائمز: دشمن کو پاکستان میں مشی کے کاروانوں میں عراق و شام کے منظر دکھتے ہیں اور ایثار گری کے یہ نمونے ہماری وحدت و بھائی چارگی اور قربانی کے اعلیٰ نمونے ہیں، جو دشمن کیلئے موت کے مترادف ہیں، ہم نے یہ پیغام دینا ہے کہ امام حسین ؑ نے ہمیں جمع کیا ہے، امام حسین ؑ پر ہم مجتمع ہیں، امام حسینؑ ہم سب کے مشترک ہیں، کوئی ہم سے یہ سعادت چھین نہیں سکتا۔ رہا سوال مشکلات و پریشانیوں اور پیش آنیوالے بعض مسائل کا تو جس قوم نے مقصد حسینؑ کیلئے گولیاں، بم دھماکے، خودکش حملے برداشت کر لئے، اسے معمولی ایف آئی آرز کیسے ڈرا سکتی ہیں، یہ کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے، اسے ممکن بنانا ناممکن ہے۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر

عجیب کیفیت ہے، شاید بیان سے باہر۔۔۔ بے چینی، بے قراری، اضطراب، انتظار، یاس، سوچ، فکر، بس کچھ نہ پوچھیں کہ بیان سے باہر ہے کیفیت۔۔۔۔ کبھی یہی وہ دن ہوتے تھے کہ سرزمین عشق و عقیدت، مرکز قلوب و نگاہ پر پہنچ جاتے تھے اور روحانی و معنوی ماحول سے معطر ہو کر خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوتے تھے، وہ خوش نصیب جنہیں بلایا جاتا ہے، جو تمام رکاوٹیں عبور کرکے پہنچ جاتے ہیں، جو ہر سال اپنی حاضری لگوانے کی سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں، ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوتے تھے، مگر برا ہو اس کرونا کا، جس نے دو سال سے محروم رکھا ہوا ہے اور اب جب دنیا بھر سے عشاق جوق در جوق پہنچ رہے ہیں تو بے قراری اور بے چینی و اضطراب نے نیند اڑا دی ہے۔ کئی دنوں سے مسلسل پہنچنے والے عشاق کے قافلوں کی تصاویر دیکھتے ہیں، اہل عراق کی بے مثال مہمان نوازی کے مناظر دیکھتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں۔

گریہ ہوتا ہے، کبھی چھپ کر اور کبھی زور و شور سے گریہ۔ کسی کی پروا کئے بنا کہ کوئی دیکھے سنے گا تو کیا کہے گا کہ کیوں گریہ کناں ہو۔ ہم ویسے ہی ایام عزا میں گریہ کناں ہی رہتے ہیں کسی کی پروا کئے بنا۔ اب ایسے ہی دن گزر رہے ہیں، ہاں مگر میرے سمیت کوئی بھی کبھی بھی ان مناظر اور محسوسات کو فراموش نہیں کرسکتا، جو جو پچھلے چند برس سے مسلسل اس مقدس اور ارفع و اعلیٰ مقامات پہ حاضری کے دوران دیکھے اور شب و روز گزارے، جو محسوسات اور الطاف کی بارش تھی، بھلا انہیں کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ فرشتوں کا نزول، رحمت ِخداوند کریم و مہربان کا سرور، نعمات کا حصول، محبت کے گلدستے و پھول، عقیدت سے بھرپور ہر لمحہ و ساعت میں چشم کشا، دل و دماغ اور روح کو تازگی بخشنے والے مناظر بھلا کون بھلا سکتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم جب نجف یا بغداد ایئر پورٹ پہ اترتے ہیں تو پہلی منزل نجف ہی ہوتی ہے، سب سے پہلی حاضری مولائے متقیان علی ابن ابی طالب ؑ کے روضہ اقدس پہ ہوتی ہے، ان کا شکر ادا کیا جاتا ہے، ان سے راز و نیاز ہوتی ہے، ان سے عقیدت و محبت اور قلبی کیفیات کا اظہار ہوتا ہے، مانگنے والے تو بہت کچھ مانگتے ہیں کہ یہ مانگنے کی جا ہے، مولائے کائنات ؑ سے مانگنے میں شرم کیسی، حیا کیسا، ہچکچاہٹ کیسی۔ لہذا ہر ایک اپنی آرزوؤں، تمناؤں، خواہشوں کا اظہار کرتا ہے، جس کو جو چاہیئے مانگ لیتا ہے، ہم نے تو جب بھی مانگا توبہ مانگی، استغفار مانگا، محبت میں اخلاص مانگا، عقیدت میں شفافیت مانگی، سب سے اہم آنسوؤں سے تر، ہچکیوں میں بارِ دیگر حاضری کی دعا مانگی۔ یہی مانگا کہ سب اہل ولا آپ کے در پہ آنے کیلئے تڑپتے ہوؤں کو بلا لیجئے۔

شاہ نجف کے پاس حاضری کیساتھ ہی وادی السلام اور اطراف نجف کی زیارات سے شرفیاب ہونے کے بعد اس سفر کا آغاز کیا جاتا ہے، جس نے دنیا میں حسینیت کے پرچم کو مزید سربلند کر دیا ہے، یعنی نجف سے کربلا پا پیادہ تن کے کپڑوں کیساتھ روانگی اور بھشت بریں کے مناظر اور اس جنت میں اپنے وجود کیساتھ چہل پہل۔ اس کا احساس بے شک اسے ہی حاصل ہوسکتا ہے، جو اس عمل سے گذر رہا ہو، اب اس کی تڑپ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اگر اسے دو سال سے یہ سعادت نہ مل سکی ہو۔ نجف سے کربلا تقریباً پچاسی کلومیٹر کا سفر ہے، جس پر دنیا بھر سے آئے زائرین پیادہ سفر کرتے ہیں، اس عمل کو عربی میں "مشی" کہا جاتا ہے، مشی کے اس روٹ پہ ہر انچ جگہ پہ زائرین کی خدمت کیلئے موکب بنائے جاتے ہیں، جہاں آرام کرنے سے لیکر نماز و طعام، سستانے، تھکے ہوؤں کی مالش، مساج، شب بسری، سردیوں میں گرم بستر اور لوازمات اور گرمیوں میں ٹھنڈے کولر و دیگر لوازمات کا مکمل انتظام کیا جاتا ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ ذاتی حیثیت کے علاوہ انجمنیں، ہیئتیں، دستے، تنظیمیں، ادارے، مدارس حتی ممالک کی طرف سے یہ موکب لگائے جاتے ہیں، چونکہ دنیا کے ہر ملک کے زائرین ہوتے ہیں، اس لئے ہر ملک کی غذا، ہر ملک کا کھانا ان ممالک کے موکب کے لوگ بناتے ہیں، اگر دنیا کی مثالیں سامنے رکھیں تو ایسے اجتماعات کے موقع پہ مہنگائی کا ایک طوفان سامنے آجاتا ہے، مگر قربان جاؤں عشاقان امام حسین ؑ و خدامان شہدائے کربلا پر کہ ایک تو ہر چیز مفت اور یہ بات بھی لازم کہ اعلیٰ سے اعلیٰ معیار، جو چیز بھی زائرین کو پیش کی جاتی ہے، وہ خالص ترین اور معیاری ترین ہوتی ہے، ملاوٹ کا نام و نشاں تک نہیں ہوتا۔ پاکستانی موکب میں پاکستانی مخصوص خوراک اور غذا بالخصوص پاکستانی دودھ والی چائے، جس کی بہت طلب محسوس کی جاتی ہے، کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس "مشی" میں لوگ اپنے ممالک کے پرچم بھی اٹھا کر چلتے ہیں اور اپنے اپنے انداز سے ماتم و نوحہ، پرسہ داری نیز عزاداری کی جاتی ہے۔

عجیب ہے کہ لاکھوں لوگوں کے درمیان بندہ چل رہا ہوتا ہے، مگر کسی کو کسی سے کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوتا، نہ چوری کا ڈر نہ کچھ چھن جانے کا ڈر، نہ کسی کے لٹ جانے کا ڈر اور تو اور چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ بھی آپ کو بھوک لگے تو مفت کھانا میسر، پیاس لگے تو مشروبات اور ڈرنکس و صاف منرل واٹر میسر، خواتین ہوں یا بچے، کم سن ہوں یا بزرگ، جوان ہوں یا بوڑھے، ہر ایک کی اہمیت، ہر ایک کی عزت و توقیر یہاں نہ کوئی دشمن ہے، نہ کوئی دوست، کوئی اتحادی ہے نہ مخالف ملک کا باشندہ، یہاں کوئی نام ہے کوئی پہچان ہے تو بس زائر امام، سب زائر امام ہیں۔ اس مقام پر ایک اہم پہلو پر کچھ عرائض پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس سفر عشق میں انسان کیلئے سیکھنے کے اتنے مواقع ہوتے ہیں کہ ہر لمحہ ساعت، ہر گھڑی اور جس طرف بھی نظر دوڑائیں کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ میرے خیال میں اس سارے اہتمام، انتظام، بہترین تواضع، بے مثال مہمان نوازی، منظم و مربوط ماحول، خدمت کے جذبات۔

اہل عراق کا خود کو اتنا گرانا کہ بندہ شرم محسوس کرنے لگے، سب کچھ اپنی جگہ اہم ہے، سب کچھ دید کے قابل ہے، سب کچھ قابل تقلید ہے، سب کچھ توصیف کے قابل ہے، سب کچھ  بیان و نشر کے قابل ہے، مگر سب سے اہم وہ جذبہ ایثار ہے، جذبہ قربانی ہے، جذبہ تواضع ہے، جو اہل عراق میں خلوص کی انتہاؤں کو چھوتا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں، اس کا کوئی متبادل نہیں، یہ ہر ایک پر بھاری ہے، یہ ہر ایک خدمت سے بالا ترین ہے، یہ ہر ایک کام سے بلند ترین ہے، یہ وہ جذبہ ایثار ہے، جو زائرین امام پر سب کچھ قربان کرنے پر تیار کرتا ہے، یہ جذبہ کس نے دیا ہے، محبت امام حسین ؑ نے دیا ہے شاید، ابا عبد اللہ الحسین ؑ سے عشق کا نتیجہ ہے شاید، اگر اس مشی اور اربعین میں شرکت کرنے والے غیر ملکی زائرین یہ جذبہ سیکھ کر جاتے ہیں تو اپنے علاقوں، اپنے ممالک، اپنے معاشروں میں انقلاب حسین ؑ پیدا کرسکتے ہیں۔

دو سال پہلے جب دنیا میں کووڈ 19 نے زور پکڑا اور سفر کی پابندیاں لگیں تو جہاں دنیا کے دیگر ممالک کے زائرین ان پابندیوں کی زد میں آئے اور سفر کربلا، سفر عشق، سفر بھشت سے محروم ہوئے، اہل پاکستان بھی ان میں بڑی تعداد میں تھے، مگر اس دوران یہ ایک بہترین کام ہوا ہے کہ اہل عراق کا جذبہ ایثا ر، جذبہ قربانی دنیا بھر میں عمومی اور پاکستان میں بالاخص منتقل ہو کر عملی طور پہ دیکھا گیا ہے، نجف سے کربلا پیادہ روی سے محروم ہونے والوں نے پاکستان کے گوش و کنار میں اربعین کے مرکزی جلوسوں میں پیادہ روی یعنی "مشی" کا سلسلہ شروع کیا تو مشی کے راستوں میں شیعہ و سنی حسینی برادران نے دل کھول کے عزاداران کی خدمت کا ویسے ہی اہتمام کیا، جیسے اہل عراق کرتے ہیں، یہ ہے اس مشی کا حاصل، جس سے دشمن خوفزدہ ہے۔

دشمن کو پاکستان میں مشی کے کاروانوں میں عراق و شام کے منظر دکھتے ہیں اور ایثار گری کے یہ نمونے ہماری وحدت و بھائی چارگی اور قربانی کے اعلیٰ نمونے ہیں، جو دشمن کیلئے موت کے مترادف ہیں، ہم نے یہ پیغام دینا ہے کہ امام حسین ؑ نے ہمیں جمع کیا ہے، امام حسین ؑ پر ہم مجتمع ہیں، امام حسینؑ ہم سب کے مشترک ہیں، کوئی ہم سے یہ سعادت چھین نہیں سکتا۔ رہا سوال مشکلات و پریشانیوں اور پیش آنے والے بعض مسائل کا تو جس قوم نے مقصد حسینؑ کیلئے گولیاں، بم دھماکے، خودکش حملے برداشت کر لئے، اسے معمولی ایف آئی آرز کیسے ڈرا سکتی ہیں، یہ کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے، اسے ممکن بنانا ناممکن ہے۔


خبر کا کوڈ: 955640

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/955640/اربعین-پیادہ-روی-کی-ثقافت-کا-ارتقاء

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org