0
Saturday 25 Sep 2021 18:18

مذہب بدلا ہے باپ نہیں

مذہب بدلا ہے باپ نہیں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

مذہب کے متعلق ہمارے معاشرے میں عام افراد کی کیا بات کرنی، سالوں دینی علم  حاصل کرنے والے بھی اسلام کے دیگر مذاہب سے تعلقات اور دیگر مذاہب کے مقدسات کے حوالے سے بہت سطحی نظریات رکھتے ہیں۔ اسی طرح ماضی کی تاریخ کو صرف اس لیے ننگ و عار قرار دینا اور اس کے ذکر سے پہلو تہی کرنا کہ ہمارے آباء و اجداد تو غیر مسلم تھے، انتہائی نامناسب رویہ ہے۔ ہمارے سلیبس میں اس خطے سے تعلق رکھنے والی بڑی شخصیات کا تذکرہ تک نہیں ہے، ہمارے تاریخ اور آرکیالوجی کے محکمے ان کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں۔ ہمارا خطہ ماضی میں تہذیبوں کا مرکز رہا ہے، اشوکا اور چندرگپت موریا موجودہ پنجاب اور کے پی کے سے  اٹھنے والے عظیم حکمران تھے۔ موریا نے موریا سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اسی خطے میں پتھروں پر قوانین تحریر کرائے، جو آج بھی لکھے ہوئے موجود ہیں۔ اس کے دور حکومت میں کوئی ان قوانین کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا۔

وہ پہلا حکمران تھا، جس نے ہندوستان کو متحد کیا اور ایک مستحکم حکومت کی بنیاد رکھی۔ یہی ٹیکسلا میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی اور یہ شہر یونیورسٹیز کا مرکز بنا، باڑیاں کے کھنڈرات آج بھی تہذیب یافتہ عصر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس علاقے سے کئی مذاہب نے جنم لیا اور کئی کی پرورش یہیں پر ہوئی۔  ہمارا سوات ریجن بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے مقدس مقام کا درجہ رکھتا ہے اور ان کی مذہبی کتابیں اس کے تذکرے سے بھری پڑی ہیں۔ بابا گرونانک نے ہماری ہی سرزمین سے توحید کا پیغام پہنچایا، جس پر اقبال نے کہا تھا:
بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نورِ ابراہیمؑ سے آزر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے


جن کو اپنی موجودہ شناخت پر بھروسہ نہیں ہوتا، وہ ماضی کی خوبصورت اور طاقتور شناخت سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ کچھ کج فکروں کے مطابق ماضی کی شناخت موجودہ شناخت سے عقیدے میں مختلف ہو تو اسے بتانے سے قوم کنفوز ہوتی ہے اور شناخت کا بحران جنم لے سکتا ہے۔ یہ انتہائی بچگانہ سوچ ہے، آج کا مذہب طاقتور ہے، اس لیے تو علاقے میں ایک حکمران قوت و طاقت کے طور پر موجود ہے اور دوسرا اسلام کے بارے میں تو ایسا سوچا ہی نہیں جا سکتا۔ اس وقت دنیا میں تہذیب جدید کی سیاہ کاریوں کے خلاف جو مذہب سب سے زیادہ جدوجہد کر رہا ہے اور جسے تہذیب جدید کے پرستار اپنے لیے رکاوٹ سمجھتے ہیں، وہ اسلام ہی ہے۔ اپنے شاندار ماضی سے جڑے رہ کر بھی موجودہ شناخت کا بہتر تحفظ کیا جا سکتا ہے بلکہ ماضی کی طاقتور شناخت سے موجودہ شناخت کے لیے قوت و طاقت حاصل کی جا سکتی ہے۔

چند سال پہلے شریعہ اکیڈمی نے مفتیان کرام کا ایک کورس کرایا تھا، جس میں وہ تعلیمی دورہ پر ٹیکسلا میوزیم لے کر گئے، جہاں گائیڈ، میوزیم میں پڑی اشیاء کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کس کی کیا اہمیت ہے؟ مہاتما بدھ کے بڑے مجسمے کی اہمیت بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے اسے سری لنکا بھیجا گیا تھا، اسے لینے کے لیے سری لنکا کا جہاز آیا تھا اور وزیراعظم کا بیٹا اس کے پروٹوکول کے لیے ساتھ تھا۔ وہاں سری لنکا کے وزیراعظم نے اس کا استقبال کیا تھا اور اس کی قیمت اربوں روپے ہے۔ اس پر ہمارے ساتھ موجود ایک مفتی صاحب نے کہا کہ اسے بیچ دیں اور پیسے لے لیں، ہمیں پیسے بھی مل جائیں گے اور اس بت سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اس پر غور کریں تو یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ سوچ ہے اور ستم یہ ہے کہ اسے مذہبی لبادے میں پیش کیا جاتا ہے، قومیں اپنی تاریخ بیچا نہیں کرتیں۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ طالبان نے پہلے دور حکومت میں مہاتما بدھ کے مجسموں کو  غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے گرایا تھا۔ آج بھی خطرہ ہے کہ ان کے قبضہ میں اگر کوئی تاریخی عبادگاہ یا مجسمہ موجود ہے تو وہ اسے گرا دیں گے۔ سوال یہ ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ علاقے حضرت عمر کے عہد میں فتح ہوئے، اس وقت ان بتوں کو کیوں نہیں توڑا گیا تھا؟ اس وقت یہ اسلام کے لیے خطرہ نہ تھے، بنو امیہ اور بنو عباس کی حکومتوں میں بھی اسلام ان سے محفوظ تھا، محمود غزنوی جسے سومنات کے بت دور سے خزانوں سمیت نظر آجاتے تھے، اسے بھی بامیان کے بت نظر نہیں آئے۔  جیسے ہی طالبان آئے تو انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا، جس کی وجہ سے انہوں نے یہ گرا دیا۔

نبی اکرمﷺ نے ریاست مدینہ میں کلیساوں میں کسی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا، یہ حقیقت ہے کہ ہر کلیسا میں حضرت مریم ؑ اور حضرت مسیحؑ کے مجسمے ہوتے ہیں۔ نجران کے مسیحیوں کے ساتھ آپﷺ نے جو معاہدہ کیا، اس میں بھی ان کو مکمل مذہبی آزادی دی تھی۔ اسی طرح عرب آج بھی ماقبل اسلام کی تاریخ کو بڑی دقت سے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ سعودی عرب میں جگہ جگہ بت پرستی کے عہد کی عمارات موجود ہیں، جنہوں پہاڑ کھود کر بنایا گیا ہے۔ انہیں نہ تو نبی اکرمﷺ کے بعد دور خلافت میں گرایا گیا اور نہ ہی  بعد کے ادوار میں ان کے ساتھ چھیڑ خوانی کی گئی ہے۔ یہ بات اپنے مقام پر درست ہے کہ اسلامی تعلیمات میں بت پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے اور بطور مسلمان ہم اس بات کے پابند ہیں کہ خدائے واحد و یکتا کی عبادت کریں اور اس کا شریک کسی کو قرار نہ دیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ اسلام دوسرے مذاہب کو  مکمل آزادی دیتا ہے اور ان کی عبادتگاہوں اور ان کے مقدس مقامات کی توہین کو درست نہیں سمجھتا۔

اسلام کی پالیسی یہ ہے کہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا نہ کہو کہ کہیں وہ تمہارے سچے خدا کو برا نہ کہہ دے۔ کسی جگہ یہ تحریر دیکھی، انڈونیشیاء کے کرنسی نوٹ پر ان کے آباو اجداد کے بتوں کی تصویر بنی ہوئی تھی، کسی نے کہا تم مسلمان ہو، پھر بھی یہ تصویر لگائی ہے۔؟ اس پر اس انڈونیشی مسلمان نے خوبصورت جواب دیا کہ ہم نے مذہب تبدیل کیا تھا، باپ تبدیل نہیں کیا کہ ان کی یاد  ابھی نہیں منا سکتے۔ ہمارے لیے بھی اس میں یہی پیغام ہے کہ ہم بھی اپنی مٹی پر فخر کرسکتے ہیں اور یہاں ہزاروں سالوں سے موجود تہذیب و تمدن کو خود جان سکتے ہیں اور دنیا کو اس کی پہچان کروا سکتے ہیں۔ اس سے ہماری موجودہ شناخت کو بھی تقویت ملے گی اور ہم فخر سے دنیا کی اقوام کے کندھوں سے کندھا ملا کر آگے بڑھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 955719
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش