1
Monday 27 Sep 2021 07:53

میں حاضر ہوں، میرے سید و سردار

میں حاضر ہوں، میرے سید و سردار
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اے ابا عبداللہ الحسین ؑمجھے اذن دیجئے کہ میں بارگاہ ملکوتی میں شرفیاب ہو سکوں، میں حاضر ہوں، آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ نیت، ارادہ، لوازمات کی فراہمی، ویزہ ٹکٹ کا بروقت انتظام و انصرام، وسائل کی دستیابی، توفیق کے حصول، لطف و کرم کی بارش، صحت و سلامتی کیساتھ سرزمین عشق و معرفت پر قدم رکھنے کی سعادت اور پھر آپ کے بابا جان کے پر نور روضہ پر حاضری کیساتھ تین دن کی پیدل مسافت طے کرتے ہوئے آپ کے عشاق کے قافلوں کیساتھ اہل عراق کی میزبانی کے روحانی و معنوی مناظر سے مستفید ہوتے ہوئے پاؤں میں پڑنے والے چھالوں اور رستے ہوئے خون کیساتھ، آنسوؤں کے سیلاب میں ابھی جب آپ اور آپ کے باوفا علمدار ؑ بھائی کے روضہ اطہر کے سنہری گنبدوں پر پہلی نگاہ پڑی تو سال بھر میں پیش آنے والے اپنے مصائب و مشکلات، پریشانیاں، سفر کی صعوبتیں اور اس راہ میں آنے والی مایوس کن رکاوٹیں بھول گئیں۔

اگر کچھ آنکھوں کے سامنے تھا تو اکسٹھ ہجری عاشور کے دن میدان کربلا میں آپؑ کے رنج و غم، درد و الم، مصائب، صبح عاشور سے عصر عاشور تک پیش آنے والے واقعات، ششماہے علی اصغر ؑ کے گلو پر چلنے والے حرملہ کے شہ بالا تیر اور شبیہ پیغمبر علی اکبرؑ کے سینے میں لگنے والے نیزے کے دل دہلا دینے والے مناظر تھے۔ عصر عاشور یزیدیوں کے ہاتھوں آپ کی دل دہلا دینے والی آسمان کو ہلا دینے والی شہادت عظمیٰ کے بعد خیام حسینی میں پاک و مطاہر بیبیوں کی پکار، بچوں کے بلکنے، بھٹکنے اور خوف زدہ ہو کر در بدر بھاگنے کے مناظر آنکھوں میں امڈ آئے ہیں۔ میں حاضر ہوں اے ابا عبد اللہ الحسینؑ، آپ کے کم سن مجاہدوں کا پرسہ دینے، میں حاضر ہوں، آپ کے دل کے سکون سیدہ سکینہ سلاما اللہ کے چھینے گئے گوشواروں کا پرسہ دینے، میں حاضر ہوں، آپ کے ماں جائے کے لاڈلے قاسم ابن الحسن ؑ کی جوانی کے لٹنے کا پرسہ دینے۔

میں حاضر ہوں اے مولا آپ کے خواہر زادوں عون و محمد کے زخمی بدنوں کا پرسہ دینے کو، میں حاضر ہوں اے میرے آقا آپ کے اسی سال کے بچپن کے دوست کی جدائی کا پرسہ دینے کو، میں حاضر ہوں اے میرے مولا و آقا، تاکہ آپ کو گھوڑوں سے پائمال کی گئی لاشوں کا پرسہ دے سکوں۔ میں حاضر ہوں اے میرے آقا آپ کو خاک و خون میں غلطان کئے گئے مقدس چہروں کا پرسہ دے سکوں۔ میں حاضر ہوں اے میرے آقا آپ کو تین دن کے پیاسے عاشقان خدا کی ٹکڑے ٹکڑے لاشوں کا پرسہ دے سکوں۔ میں حاضر ہوں اے میرے آقا آپ کو خون میں تر بہ تر زخم ہائے بے شمار سہنے والے بدنوں کا پرسہ دے سکوں۔ میں حاضر ہوں اے میرے آقا آپ کو شبیہ پیغمبر علی اکبر ؑ کی جدائی کے لمحات کے درد کا پرسہ دے سکوں۔ میں حاضر ہوں، میرے مولا و آقا کہ خیام میں پیاسے بلکتے بچوں کی آس جناب عباس ؑ کے فرات سے مشکیزہ بھر کر لانے کی کوشش میں اپنے بازوؤں کے کٹانے اور مشکیزے کے پانی کے بہہ جانے کے لمحات میں بچوں کی ٹوٹ جانے والی آس کا پرسہ دے سکوں۔

میں حاضر ہوں اے میرے آقا و مولا کہ ان لمحات کا پرسہ دے سکوں، جب آپ اکیلے رہ گئے اور خیام میں کم سن باقرؑ اور بیمار سید سجادؑ کے سوا کوئی مرد نہ بچا۔ پھر بھی آپ خدا سے عشق اور ملاقات با خدا کیلئے میدان میں چلے در حالینکہ ظالموں کا سامنا کرنے کیلئے فقط مخدرات عصمت و طہارت موجود تھیں۔ ایسے میں ان مخدرات عصمت و طہارت سے جدائی کے لمحات بہت بھاری اور کٹھن تھے، اس کٹھن منزل، اس دردناک حالت اور ناقابل برداشت درد کا پرسہ قبول فرمائیں۔ اے میرے آقا، اے میرے سید و سردار میں حاضر ہوں کہ آپ کو خیام کو جلائے جانے، چادروں کے چھین لئے جانے، بے مقنعہ و چادر، پس گردن ہاتھ باندھے جانے کا پرسہ دے سکوں۔ میں حاضر ہوں، اے سید و سردار کہ آپ کو پرسہ پیش کروں، آپ کو عریاں کرنے، بے لباس کرنے، پتھروں کی بارش کرنے اور آپ کے سر اقدس کے تن سے جدا کرنے کا پرسہ پیش کروں۔

میں حاضر ہوں اے میرے آقا و مولا کہ آپ کو پرسہ پیش کروں کہ آپ کے بعد آپ کی خواہر، بیٹیاں، بھابھیاں اور با وفا اصحاب کی خواتین کو کربلا سے کوفہ، کوفہ سے شام کے بازاروں اور درباروں میں پھرایا گیا، اس حال میں کہ آپ کے سر نیزوں پر تھے اور بازاروں میں جشن کا سماں تھا، کوئی پتھر مارتا تھا تو کوئی اینٹ، کوئی صدقہ پھینکتا تھا تو کوئی طعن و تشنیع۔۔۔! مولا ؑمیں حاضر ہوں، میرا پرسہ قبول فرما لیں، میری حاضری کو قبولیت سے نوازیں، میں نے بہت سے سلام دینے ہیں، اپنے جاننے والوں کے، گھر والوں کے، دوستوں کے، آپ کے چاہنے والوں کے، آپ کے جاں نثاروں کے، کربلا کے عشاق کے، مشی کی آرزو دل میں لئے ہزاروں میل دور تڑپنے والوں کے، آپ کے روضہ اقدس کی جالی کو چومنے کی خواہش رکھنے والوں کے، اپنے مرحومین کے، اپنے والدین مرحومین کے، مجھے تو نام بھی یاد نہیں کس کس نے کیا دعا ذمہ لگائی تھی۔

مولا ؑ آپ سب کی مرادیں پوری کر دیں، ہر عاشق کو بلا لیجئے، ہر محب کو نواز دیجئے، ہر عقیدت مند کو عنایت کر دیجئے، جو جس کی تڑپ ہے، جو جس کی خواہش ہے، اسے نواز دیجئے، مجھے تو بس اتنا کہنا ہے کہ میری اگلی حاضری کو جلد ممکن بنا دیجئے گا، مجھے دوبارہ جلد بلا لیجئے گا کہ یہ جدائی اب برداشت نہیں ہوتی، یہ محرومی نا قابل برداشت ہے مولاؑ۔ یہ وہ کلام ہے، جو امام ؑ ابا عبد اللہ الحسین ؑ کے حضور حاضری کے وقت کیا جاتا ہے۔ اس برس ہم تو رہ گئے، اس برس ہماری حاضری نہیں ہوسکی، ہم جسمانی طور پہ رہ گئے، مگر ہماری روح کربلا میں ہے، ہماری نظر کربلا میں ہے، ہم کربلا سے دور بیٹھے بھی کربلا کے سماں میں ہیں، ہم کربلا سے دور رہ کر بھی نجف و کربلا سے پیادہ روی کرتے بین الحرمین پہنچے ہیں، زیارت اربعین کی تلاوت جاری ہے، سلام پیش کئے جا رہے ہیں، حاضری قبول فرما لیجئے مولا کہ ہم حاضر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 955841
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش