QR CodeQR Code

لبنان کی نئی کابینہ اور درپیش اہم چیلنج

26 Sep 2021 19:31

اسلام ٹائمز: امریکہ، فرانس اور سعودی عرب جیسی غیر ملکی طاقتوں نے حزب اللہ کے بغیر سعد الحریری کی قیادت میں حکومت بنانے کیلئے جو سازش تیار کی تھی، اس میں انہیں ناکامی نصیب ہوئی۔ حریری کی حکومت بنانے میں ناکامی کی ایک اہم وجہ حزب اللہ کو نظر انداز کرنا تھا۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ میکاتی دور میں بھی غیر ملکی طاقتیں حزب اللہ کیخلاف اپنے مزموم مقاصد کے حصول کی کوشش کریں گی اور اس حوالے سے میکاتی پر دباؤ ڈال کر حزب اللہ کو سیاسی تنہائی میں دھکیلنے کی کوشش کریں گی۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

لبنان میں حکومت کی تشکیل ہمیشہ ایک گھمبیر مسئلہ رہا ہے۔ انتخابات کے بعد کابینہ کی تشکیل میں ایک اہم رکاوٹ جہاں داخلی گروہ بندیاں ہیں، وہاں اس کی بنیادی وجہ لبنان کا وہ نظام ہے، جس کی وجہ سے لبنان میں صدر کو ہمیشہ عیسائی ،وزیراعظم کو سنی اور اسپیکر کو شیعہ مسلمان ہونا چاہیئے۔ اس بار بھی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کی بنیادی وجہ یہ فرسودہ انتظامی ڈھانچہ بنا ہے۔ دوسری طرف غاصب اسرائیل کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ لبنان میں سیاسی بحران باقی رہے، تاکہ حزب اللہ کو اس بحران کا باعث قرار دیکر اپنا الو سیدھا کرسکے۔ سعودی عرب بھی اپنے اتحادی کو اقتدار مین لانے کس لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ سعد الحریری نے لبنان کو تقریباً نو ماہ تک غیر یقینی کی حالت میں رکھنے کے بعد بالآخر 15 جولائی کے دن باضابطہ طور پر اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا۔ الحریری کے استعفیٰ کے تقریباً 10 دن بعد صدر مشیل عون نے لبنان کے سابق وزیراعظم نجیب میکاتی کو باضابطہ طور پر نئی حکومت بنانے کے لیے مقرر کیا۔

نجیب میقاتی لبنانی صدر کے جانب سے کابینہ کی تشکیل پر مامور کئے گئے تھے۔ لبنان گذشتہ برس اگست کے مہینے سے باضابطہ حکومت کے بغیر تھا اور حسان دیاب سرکاری امور کی نگرانی کر رہے تھے۔ لبنان میں نئی کابینہ کی تشکیل ایسے حالات میں انجام پائی ہے، جب بیروت کو امریکہ کی سخت اور ظالمانہ پابندیوں کا سامنا ہے اور گذشتہ ڈیڑھ برس سے لبنان اقتصادی و معاشی بحران کا شکار ہے۔ وزیراعظم نجیب میقاتی کی کابینہ نے پچاسی ووٹوں کے ذریعے پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل کر لیا ہے۔ پیر کی شام لبنان کے پارلیمانی اجلاس میں 100 اراکین موجود تھے، تاہم پندرہ اراکین پارلیمنٹ نے لبنان کی نئی حکومت کو ووٹ دینے سے گریز کیا۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے لبنان میں نئی کابینہ کی تشکیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے لبنان کو ایندھن کی فراہمی اور کشتیاں ارسال کرنے کے بارے میں امریکہ کے تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے۔ سید حسن نصر اللہ نے لبنان کی کابینہ کی تشکیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کام میں تعاون فراہم کرنے والے تمام افراد کا شکریہ ادا کیا۔

نجیب میکاتی اپریل 2005ء میں لبنان کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور کم عرصے کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ میکاتی دوسری بار جون 2011ء سے فروری 2014ء تک لبنانی وزیراعظم رہے۔ اس کے علاوہ نجیب میکاتی 2009ء میں لبنانی پارلیمنٹ کے لیے طرابلس کے علاقے کے نمائندے کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔ اس سے قبل میکاتی 1998ء سے 2004ء تک ٹرانسپورٹ اور پبلک ایمپلائمنٹ کے وزیر بھی رہے ہیں۔
لبنان کے سیاسی میدان میں اپنی طویل تاریخ کی وجہ سے نجیب میکاتی ان مسائل اور چیلنجوں سے اجنبی نہیں ہیں، جن سے ملک آج لڑ رہا ہے۔ اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے لبنانی پارلیمنٹ نے 79 ویں لبنانی کابینہ کے حق میں ووٹ دیا، جس کی سربراہی نجیب میکاتی نے کی۔ میکاتی گذشتہ 16 سالوں میں تیسری بار لبنانی وزیراعظم بنے۔ فی الحال یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی کابینہ کتنے عرصے تک چلتی ہے۔ اس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ میکاتی لبنان کو درپیش بہت سے چیلنجوں کا سامنا کیسے کرتے ہیں، جن میں سے سب سے اہم خوفناک معاشی صورتحال، مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات، بدعنوانی کے خلاف جنگ، کورونا وبا کا سامنا، پارلیمانی انتخابات کا انعقاد اور غیر ملکی مداخلت کی تباہ کاریاں ہیں۔

لبنان کو حالیہ برسوں میں شدید معاشی بحران کا سامنا ہے، عالمی بینک نے اعلان کیا ہے کہ لبنان 100 سالوں میں بدترین معاشی صورتحال سے دوچار ہے۔ لبنان کو پچھلے 13 مہینوں میں قومی کرنسی کی تیزی سے قدر میں کمی، سبسڈی کا خاتمہ، بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی اور ایندھن کی قلت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ لبنان حکومت کے وزیراعظم حسن دیاب نے کچھ عرصہ پہلے لبنان کی موجودہ معاشی صورتحال کے نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر ہے۔ نجیب میکاتی نے اقتصادی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے لبنان کی پارلیمنٹ کو بتایا، "نہ ایندھن ہے، نہ دوا ہے اور نہ ہی مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ تباہی کا عمل رک جائے گا اور لبنان خوشحالی کی طرف لوٹ آئے گا۔"

تاہم میکاتی کی کابینہ کے بارے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ نئی کابینہ نے اپنی سرگرمیاں ایسے عالم میں شروع کیں، جب لبنان میں ایرانی ایندھن کے جہازوں کی آمد نے ملک میں ایندھن کے بحران کو بہت کم کر دیا اور یہاں تک کہ لبنانی لیرا کی قدر میں بہتری آئی ہے اور لیرا کسی حد تک مضبوط لگتا ہے۔ نجیب میکاتی معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں، اگر وہ گروہی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کی معیشت کو یرغمال بنانے کے راستے پر نہ چلیں یا وہ ان لوگوں کے جال میں نہ پھنسیں، جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کی معاشی صورتحال کو یرغمال بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لبنان کو معاشی بحران سے نکالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے میکاتی نے لبنان کے مالی ڈھانچے میں اصلاحات کو اپنی حکومت کے اہداف میں سے ایک قرار دیا، جو بہرصورت ایک سنجیدہ چیلنج بھی ہے۔

اس وقت لبنانی مالیاتی ادارے ان لوگوں کے اختیار میں ہیں، جو اس ملک کے پاور اسٹرکچر میں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور مالی اصلاحات کو اپنے مفادات کے مطابق نہیں سمجھتے اور دوسری طرف بین الاقوامی ادارے بشمول بین الاقوامی مانیٹری فنڈ آئی ایم ایف، لبنان کے معاشی ڈھانچے میں اصلاحات کا شور مچا رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی پابندیاں، جن کا لبنان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال پر نمایاں اثر پڑا ہے۔ کچھ لبنانی باغی بھی میکاتی اور اس کی کابینہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنے مخصوص حربے استعمال کرسکتے ہیں۔ مکاتی کی کابینہ کے سامنے ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ لبنان میں بڑھتی ہوئی کورونا وباء سے کیسے نمٹا جائے۔ لبنان میں ڈیلٹا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد جولائی کے وسط تک ڈیلی 100 کے قریب تھی، لیکن ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ لبنان میں کورونا ڈیلٹا کے وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کی وجہ سے نئے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی اور ادویات کی کمی کے ساتھ ساتھ بجلی کی بندش نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ بے شک یہ لبنان کی ںئی کابینہ کے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

لبنان کی نئی کابینہ کے سامنے ایک بڑا چیلنج  پارلیمانی انتخابات کرانا ہے۔ لبنان کے آخری پارلیمانی انتخابات مئی 2018ء میں ہوئے تھے اور اگلے انتخابات مئی 2022ء میں ہونے چاہئیں، جن مین تقریباً 8 ماہ باقی ہیں۔ لہٰذا وزیراعظم نجیب میکاتی اور ان کی کابینہ گویا نگران لبنانی کابینہ ہیں۔ 2018ء کے پارلیمانی انتخابات 5 سال کی تاخیر کے بعد منعقد ہوئے تھے۔ اس تاخیر کی وجہ لبنانی گروہوں اور مختلف الخیال کمیونٹی کے درمیان سیاسی اختلافات تھے اور یہ صورت حال آج بھی لبنان میں موجود ہے۔ لہذا نجیب میکاتی کے پاس اگلے پارلیمانی انتخابات کرانا آسان کام نہیں ہوگا اور اگر وہ انتخابات کرانے میں ناکام رہے تو اس سے اس کی حکومت کی سرگرمیاں متاثر ہوں گی، کیونکہ انتخابات کے ممکنہ التواء سے سیاسی اختلافات بڑھ سکتے ہیں، جس سے حکومتی معاملات پر بہت برا اثر پڑے گا۔

غیر ملکی مداخلت بھی لبنانی کابینہ کے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ لبنان مغربی ایشیائی خطے کا ایک چھوٹا لیکن بااثر ملک ہے اور ملک کے اندرونی معاملات میں علاقائی اور عالمی کھلاڑیوں کی مداخلت بہت زیادہ اور واضح ہے۔ خاص طور پر حزب اللہ کے وجود اور مقبوضہ علاقوں کے ساتھ اس کی مشترکہ سرحد کی وجہ سے اس مداخلت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ امریکہ نے حزب اللہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے پابندیاں لگائیں اور شام کے خلاف سیزر ایکٹ نے لبنانی معیشت کو بھی بری طرح  متاثر کیا۔ لبنانی ماہر اور تجزیہ کار جانی منیر کا کہنا ہے، "لبنانی کابینہ کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں ایک اہم  عنصر لبنانی وفد کا شام جانا تھا، جو سیزر قانون کی شکست کا باعث بنا۔ جس کی وجہ سے خود امریکیوں کو لامحالہ بیروت اور دمشق کے درمیان تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کرنا پڑا۔"

امریکہ، فرانس اور سعودی عرب جیسی غیر ملکی طاقتوں نے حزب اللہ کے بغیر سعد الحریری کی قیادت میں حکومت بنانے کے لیے جو سازش تیار کی تھی، اس میں انہیں ناکامی نصیب ہوئی۔ حریری کی حکومت بنانے میں ناکامی کی ایک اہم وجہ حزب اللہ کو نظر انداز کرنا تھا۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ میکاتی دور میں بھی غیر ملکی طاقتیں حزب اللہ کے خلاف اپنے مزموم مقاصد کے حصول کی کوشش کریں گی اور اس حوالے سے میکاتی پر دباؤ ڈال کر حزب اللہ کو سیاسی تنہائی میں دھکیلنے کی کوشش کریں گی۔ ایک اور چیلنج جس کی طرف سب کی توجہ ہے، وہ لبنان میں عوامی احتجاج کی لہر ہے۔ لبنان مین انتظامی نظام کی ناکامی اور اس پر ہونے والا  وسیع پیمانے پر احتجاج نیز عوام میں عدم اطمینان کا احساس نجیب میکاتی کی کابینہ کے سامنے ایک پہاڑ جیسا چیلنج ہے۔

مذکورہ بالا چیلنجز لبنان میں عوامی احتجاج میں مزید اضافے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں اور اگر میکاتی مذکورہ چیلنجوں اور ملک کی بد انتظامی کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو عوامی احتجاج کے دوبارہ زور پکڑنے سے صورت حال مزید پیچیدہ ہوجائیگی، جس سے نہ صرف ان کی کارکردگی متاثر ہوگی بلکہ کابینہ کے زوال کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ہم نے ماضی میں حسن دیاب اور ان کی کابینہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ نئی کابینہ کو مذکورہ چیلنجوں کے علاوہ بھی کئی چیلنجوں کا سامنا ہے، اب دیکھتے ہیں کہ نئی کابینہ ان چیلنجوں سے کیسے نمٹتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے اس اہم ملک پر دوستوں اور دشمنوں دونوں کی نظریں ہیں، دیکھیں نتیحہ کیا برآمد ہوتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 955882

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/955882/لبنان-کی-نئی-کابینہ-اور-درپیش-اہم-چیلنج

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org