0
Tuesday 28 Sep 2021 00:19

رہ جانے والوں کا سفرنامہ(2)

رہ جانے والوں کا سفرنامہ(2)
تحریر: سید زین عباس

زائرین نجف چھوڑ چکے ہیں، وادی السلام سے گزر چکے ہیں، عراق کے شفیق و مہربان میزبانوں کی فیاضی سے لطف اٹھاتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔۔ چشم تصور وا کیجیے، زائرین کے قدموں کے نشانوں کو حسرت سے دیکھیے، ایک کے بعد ایک گزرتے قافلے کی گرد راہ کو فضا میں محسوس کیجیے اور مٹی کی اس سوندھی سوندھی خوشبو سے اپنے مشاموں کو معطر کیجیے۔۔۔ لیکن اس نہ جانے کی قیمت کو سمجھیے، یہ عجیب سفر ہے کہ بقول شاعر (معمولی تحریف کے ساتھ) جانا بھی قیامت ہے، نہ جانا بھی قیامت۔۔۔ کیا ہوا جو نہیں جا سکے، دل تو روانہ کر دیجیے، کیا ہوا جو جہاز سے پرواز نہیں بھر سکے، دل کے سہارے پرواز کیجیے اور زائرین کے قدموں میں دل رکھ دیجیے، آنسو بہائیے، فریاد کیجیے، آہ و زاری کیجیےو یہاں تک کہ آقا حسین (ع) کو ترس آجائے، بدن کا جانا بھی اہم ہے لیکن اگر روح کربلائی ہو جائے تو پھر فراق و وصال کا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے۔

پھر اویس قرنی سے پوچھ لیجیے کہ کیا ہوتا، پھر انسان اپنے زمانے کی کربلا ڈھونڈ کر چپ چاپ قربان ہو جاتا ہے، آخری لمحے جب دنیا تاسف کر رہی ہوتی ہے کہ یہ کربلا سے دور رہ گیا تو اس شہید کے چہرے پر مسکان پھیلی ہوتی ہے کہ ۔۔۔: حسین (ع) جانتے ہیں۔۔۔ اگر دل آمادہ ہوگیا ہو تو چلیں؟ نجف کے شاہ کو دکھڑا سنا چکے ہیں تو چلیں اس سفر پہ چلیںو جو انسانوں کو عظمت انسانی سے متعارف کراتا ہے، اس نفسا نفسی کے دور میں انسانیت کے زندہ ہونے کی دلیل بنتا ہے. چلیں وادی السلام کی طرف، اونچی نیچی قبریں دیکھیں، اولیاع اللہ کی قبور، انبیاع کی قبور، علماء کی قبور، زندہ رہنے والوں کی قبور، گزرتے چلے جائیں اور ان کے لیے فاتحہ پڑھتے چلے جائیں، اس یقین کے ساتھ کہ ان میں سے اکثر اس فاتحہ کے بدلے میں آپ کو دعا دیں گے، سلام کا جواب دیں گے۔ یہاں سے گزریں گے تو رنگ بدلنے لگے گا۔

عراقی گھروں کے باہر خوان سجائے بیٹھے ہوں گے۔ گلیوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کھڑا کر رکھا ہوگا کہ دیکھو کوئی زائر یہاں سے خالی ہاتھ نہ جائے، سب کی منت کرنا کہ چند لمحوں ہی کے لیے صحیح، ہمیں میزبانی کا شرف ضرور دیں۔۔۔ یہاں ضرور رکیے، مگر رک مت جایئے۔۔۔ رکیے کہ ان میزبانوں کا دل نہ ٹوٹ جائے، مگر رک مت جایئے کہ سفر کی لذتیں منزل سے غافل نہ کر دیں، صرف اس قدر جتنی ضرورت ہو، ایسا نہ ہو کہ یہ آرام، یہ لذیذ غذا، یہ عزت و احترام سفر میں رکاوٹ بن جائے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہی چیز جو اس سفر کی خصوصیت ہے، حجاب بن جاتا ہے، انسان ان میزبانوں میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ بھول ہی جاتا ہے کہ اس سڑک کے اختتام پر، جسر العباس (ع) ہے۔ اس سفر کے خاتمے پر کٹے ہاتھوں کو پھیلائے کوئی اور بھی منتظر ہے، انسان اس سفر میں بھی فراموش کر دیتا ہے کہ اسے کربلا میں داخل ہونا ہے، اس سنہری گنبد کے سامنے جانا ہے، جو بندگی کی معراج نظر آتی ہے۔ کیا خوب مشق ہے، نیکی کے راستے میں ملنے والی عزت بھی اس راستے کی رکاوٹ بن سکتی ہے، خود راستہ ہی منزل کا حجاب ہے، دیر مت لگایئے، آسائش مت ڈھونڈیئے، یہ سفر تو سختی اٹھانے والوں کی یاد کا سفر ہے، کیسے بھول سکتے ہیں کہ یہ سفر کس سفر کی یادگار ہے۔۔۔

یہ سفر اس روحانی سفر کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں ایک عاشق اپنے معشوق کی راہ میں بے سر و سامان چل نکلتا ہے، اگر معشوق حقیقی ہو تو اس کے سبھی عاشق ایک دوسرے کے مددگار بن جاتے ہیں، خدمت کرتے ہیں، احترام کرتے ہیں اور ہر ہر قدم پہ ساتھ دیتے جاتے ہیں۔ اس سفر پر خیال کرنا چاہیئے کہ کیا واقعی ہم معشوق کے راستے میں بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔۔۔ ہمارا ہر قدم ہمارے دل کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں؟ ہمارا دل؟؟ وہ دل جس پر معشوق کے علاوہ کسی اور نے قبضہ کر رکھا ہے، یہ کیسا دریا ہے، جو ابو الفضل العباس کے قدموں میں طواف نہیں کر رہا، کیوں اس میں ہر لمحے معشوق کی یاد باقی نہیں رہتی، کیوں مجلس عزاء سے اٹھنے کے بعد یہ عزادار نہیں رہتا، کیوں مولا و آقا کی اطاعت کو فراموش کر دیتا ہے۔۔۔ اس راستے کا حق تو یہ ہے کہ یہاں پاوں زخمی ہوں، بھوک پیاس سہنی پڑے، دھوپ کی اذیت ہو، انسان اس حال میں کربلا پہنچے کہ مظلوم کربلا کے سامنے شرمندہ نہ ہو جائے۔۔۔ یہ کسی کتاب میں نہیں لکھا، کسی عقل نے ایسا مشورہ نہیں دیا، لیکن عشق کا تقاضہ یہی ہے۔۔۔

کربلا کے آداب، عقل جسمانی کی فہم سے باہر ہیں، کربلا کے لیے عقل سرخ کی ضرورت ہے، وہ عقل جو عاشق ہو، وہ عقل جو پرانا صفت ہو، وہ عقل جس میں دل دھڑکتا ہو۔۔۔ ہاں یہ عقل جب صدائے ہل من سن لے گی تو خاموش نہیں بیٹھے گی، گھر بیٹھ کر انتظار نہیں کرے گی، دنیا میں ہونے والے مظالم سے بے خبر نہیں رہے گی، معاشرے میں پھیلتی برائیوں سے بے طرف نہیں رہے گی۔۔۔ میدان میں نکلے گی، خود کو قربانی کے لیے پیش کر دے گی، بقول استاد مطہری سختی ہے، اس جسم کے لیے جو ایک بزرگ روح کا حامل ہو، دنیا کے طعنوں کی زد پر آجائے گی اور بالآخر شہداء سے منسلک ہو جائے گی کہ ایسی عقل کی منزل سید الشہداء کے قدموں کے سوا کہیں نہیں ہے۔۔۔ خدایا۔۔۔ تیری پناہ، تیری پناہ اس عقل سے کربلا کے راستے پر نہ چلا سکے، تیری پناہ اس ہوشیاری سے جو شہادت تک نہ لے جا سکے۔۔۔
سفر جاری رہا تو کربلا پہنچیں گے، ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 955944
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش