1
0
Monday 27 Sep 2021 14:27

مشی کو لاحق خطرات

مشی کو لاحق خطرات
تحریر: سید زین عباس

حضرت امام حسین (ع) کے حرم کی پیدل زیارت کے فضائل کئی احادیث مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں، اسی کے ساتھ چہلم کے موقع پہ کی جانے والی زیارت کی فضیلت بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے، یہ فضائل مل گئے اور اربعین کے موقع پہ لوگ نجف سے کربلا کا پیدل سفر کرنے لگے، ایک طرف اس سفر کی کئی عربی اصطلاحات تمام زبانوں میں رائج ہونے لگیں اور دوسری طرف عراقیوں کی میزبانی اس سفر میں عشق و ولولے کی آمیزش اور عراق میں داعش کے حملوں نے لوگوں کو اس طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ دنیا نے کئی سالوں تک اس قدر بڑے اجتماعات نہیں دیکھے، جو اس مناسبت سے نظر آنے لگے۔ اربعین، پیادہ روی، مشی، موکب، عمود، مسیر اور ایسے بہت سے الفاظ تھے، جو اب صرف الفاظ نہیں رہے بلکہ ایک نئی ثقافت کی بنیاد بن گئے۔ ثقافت کا خاصہ یہ ہے کہ یہ مقید نہیں رہتی، ایک مقام سے دوسرے مقام تک پھیلتی ہے اور ایسی ثقافت جو عشق، انسانیت، محبت اور احترام جیسے پاکیزہ جذبات لیے ہو تو کیوںکر کوئی اسے قید کرسکتا ہے۔ جب ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں اور اپنے اپنے ممالک میں جا کر بتاتے ہیں کہ کیسے عراقی امام حسین کے زائر کا احترام کرتے ہیں، اس نفسا نفسی کے دور میں انسانیت اور اخلاق کی کیا اوج نظر آتی ہے تو سننے والوں کا دل تڑپ کر رہ جاتا ہے۔

نائجیریا شاید وہ پہلا ملک تھا، جہاں اس ثقافت کو دہرایا گیا اور عراق کے بعد دوسری بڑی مشی نائجیریا میں ہونے لگی۔ میری نظر میں اہل نائجیریا کی غربت اور ان کی عقیدت کا وفور انھیں اس کام پر مجبور کر گیا اور اس کے علاوہ ایک اہم عنصر یہ ہوسکتا ہے کہ وہاں ایک بڑی تعداد نو وارد شیعوں کی ہے، اس اعتبار سے ان میں نئی ثقافتوں میں ڈھلنے کی استعداد زیادہ ہے۔ ہزاروں افراد کا یوں بلا جھجک سڑکوں پر نکل آنا، کسی بھی حکومت کے  لے خطرہ ہوسکتا ہے، یہی سبب تھا کہ نائجیریا کی حکومت نے اس سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور بدترین مظالم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ سیکڑوں شہادتوں اور گرفتاریوں کے باوجود بھی اہل نائجیریا کو شکست نہیں دی جا سکی۔ شاید یہ پہلا اعلان تھا کہ کشت و کشتار سے اس ثقافت کو دبانا ممکن نہیں رہے گا۔

اس کے چند سال تک عراق میں مشی کے اجتماعات دنیا کی استعماری قوتوں کو للکارتے رہے۔ غربت، دہشتگردی، حکومتی بدنظمی، احتجاجات کوئی بھی چیز مشی اور زیارت امام حسین (ع) کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکی، یوں احساس ہونے لگا تھا کہ عالمی اور علاقائی سیاست کے تمام مسائل کا حل اسی روضہ اطہر کی چوکھٹ سے ہونے لگا ہے۔ یہاں تک کہ جب داعش نے پورے عراق کو گھیر لیا، تب بھی یہی زیارت کا جنون تھا، جس کے سبب لوگوں نے اپنے بچوں کو شہید کروایا اور یہی سبب ہے کہ آج عراق کے ہر گھر میں شہداء اور جذبہ شہادت دونوں موجود ہیں۔ کورونا وبا کے پھیلنے کے بعد جہاں بہت سی مشکلات ہوئیں، وہاں دنیا میں میدان سیاست کے بازی گروں کو یہ خوشی ضرور ہوئی کہ اس وباء کے سبب زیارات اور اجتماعات کا یہ زور ٹوٹ جائے گا اور اب ان کے لیے ہر طرح کے گھناونے کھیل کھیلنا آسان ہو جائے گا۔

عراقی حکومت مجبور ہوئی کہ کورونا کی پابندیوں کو نافذ کرے اور لوگ سفر زیارت سے مایوس ہونے لگے، لیکن اس زیارت کی لذت کو بھلا دینا آسان نہیں تھا، لوگ خاموش نہیں بیٹھ سکتے تھے، نتیجتاً لوگوں نے سمجھنا شروع کیا کہ ہر شہر میں جو جلوس ہے، وہ کربلا ہی کی یاد میں ہے، دنیا کے استعماروں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ جب عراقی حکومت نے لوگوں کو روکا تو ہر شہر اور ہر ملک میں لوگوں نے اپنے اپنے علاقوں سے مشی شروع کر دی۔ لوگ جوق در جوق سڑکوں پہ نکل آئے اور یہ ثقافت جو عراق سے نائجیریا تک پھیلی تھی، اب عالمگیر ثقافت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ شاید آخری امتحان تھا، جو اس جذبہ عشق کو دینا تھا، دنیا کی کوئی طاقت اس جذبے کے سامنے کامیاب نہیں ہوسکی، جو بھی قوت اس کے مقابلے میں آئی ناکام ہوئی۔ پاکستان میں پہلے سال تو حکومت اور حکومتی چیلوں نے بہت مخالفت کرنے کی کوشش کی۔ کچھ شیعہ تنظیموں نے بھی حکومتی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے مخالفت کرنے کی کوشش کی، لیکن اس دوران ایک بہت بڑی غلطی انجام پا گئی اور وہ یہ کہ اس مخالفت نے اس بات کو یقینی بنا دیا کہ تمام تنظیمی اور گروہی شناختیں اس سے مٹ جائیں اور یہ خالصتاً ایک عوامی عمل بن جائے۔

اس سال بھی ہر شہر کے لوگ مشی کے لیے آمادہ ہیں، کچھ شہروں مشی ہوچکی ہے، دنیا کی تمام مشکلات اس مضبوط جذبے سے ٹکرا کر پاش پاش ہوچکی ہیں، صرف ایک خطرہ ہے، جو مسلسل اس عظیم سعادت کو لاحق ہے اور وہ خودنمائی اور دکھلاوہ ہے، اب تک یہ مشی کسی تنظیم کی، کسی ادارے کی اور کسی گروہ کی مشی نہیں ہے، یہ تشیع کی، حسینیوں کی اور امام حسین کے عاشقوں کی مشی ہے، اس لیے اسے کوئی نہیں روک سکتا، عوام کے سامنے کوئی حکم نامہ، کوئی قانون کام نہیں کرسکتا۔ صرف اور صرف عوامی طاقت باقی رہتی ہے۔ جس دن اس پاکیزہ فعل کو بھی تنظیمی شکل دے دی گئی، مقصر، غالی، ماتمی، نمازی کے جھگڑے میں الجھا دیا گیا تو خدانخواستہ ہم اس عظیم سعادت سے محروم نہ ہو جائیں۔ خلوص، گمنامی اور پاکیزگی عشق حسین (ع) کا لازمہ ہے، یہی ہماری حفاظت کرسکتا ہے۔ نہ خلوص کے بغیر عشق امام حسین باقی رہ سکتا ہے اور نہ عشق امام حسین (ع) کے بغیر ہم باقی رہ سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 955946
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اسد اللّٰہ
Pakistan
بیشک ایسا ہی ہے، اس شدید گرمی میں، حکومتی دباؤ کے باوجود یہ عشق حسینیٔ ہی ہے کہ جو اس مشی کے پیچھے اصل محرک ہے۔ یقیناً یہ مشی، جلوس و عزاداری انقلاب امام زمانہ (ع) کی عالمی تحریک کا حصہ ہیں۔
ہماری پیشکش