QR CodeQR Code

رویت ہلال، پاکستان اور تین عید (تحقیقی مقالہ)

30 Aug 2011 16:20

اسلام ٹائمز:پاکستان میں ہمیشہ چاند سب سے پہلے خیبر پختونخوا کے علاقوں مردان اور چارسدہ میں نظر آتا ہے۔ جبکہ چارسدہ اور مردان کی نسبت فاٹا کے علاقوں میں شام تقریبا 8 منٹ بعد جبکہ کراچی اورکوئٹہ میں تقریبا 15 تا 25 منٹ بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ اگر چارسدہ یا مردان میں کہیں تندرست آنکھوں والے ایک جوان کو چاند نظر آجائے تو فاٹا، کوئٹہ اور کراچی میں یہ چاند قریب نظری کے شکار آنکھوں کے مریض یا 80 سال کے بوڑھوں کو بھی نظر آنی چاھئے


تحریر: ایس این حسینی 

امت مسلمہ ویسے تو شروع ہی سے چھوٹے بڑے فروعی یا بعض اصولی مسائل میں اختلافات کا شکار تھی، قتل مقاتلہ، شتم و دشنام طرازی کا سلسلہ اسی پہلے زمانے ہی سے رائج تھا۔ محققین سے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سلاطین نے اپنی اقتدار کی بقا کے لئے درباری مولویوں کا سہارا لے کر اپنی مرضی کے فتوے دلا کر اپنے سیاسی مخالفین کا قتل عام کرایا۔ اس تاریخ سے ہماری غرض نہیں۔ ہمارا مقصد یہ بتانا ہے کہ چاند کی پہلی تاریخ کیسے ثابت ہوتی ہے۔ 

دنیا میں ہر سال دو یا تین عیدیں کیوں منائی جاتی ہیں:
آج کے نہایت ترقی یافتہ سائنسی اور فلکیاتی دور میں قمری (اسلامی) تاریخ میں اختلاف ایک بڑا اور اسلامی دنیا کے لئے ایک رسوا کن مسئلہ ہے۔ جسے لوگ خود مشاھدہ کررہے ہیں کہ ہر سال اسلامی دنیا میں کم از کم دو جبکہ بعض اوقات تین عیدیں منائی جاتی ہیں۔ عید منانے میں سبقت ہمیشہ سعودی عرب اور اسکی اقتدا میں بعض عرب ممالک بشمول افغانستان اور پاکستان کے بعض پختونوں کو حاصل ہے۔ (بعرض معذرت پختون برادران برا نہ مانیں کہ بندہ خود بھی اسی علاقے کا پختون ہوں۔) جبکہ دوسری عید بھی پاکستان میں خیبر پختونخوا اور بعض دوسرے عرب ممالک میں منائی جاتی ہے۔ جبکہ آخری اور تیسری عید مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر پاکستان کے تقریبا 85 فیصد مسلمان مناتے ہیں۔ ہر سال علماء کی بھرپور کوششوں کے باوجود پاکستان میں تین یا کم ازکم دو عیدوں کی یہ روایت ختم نہیں ہوسکی۔ ہم اس سلسلے میں قارئین کو ایک ایسے انداز میں حقیقت سے روشناس کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی پر انحصار کئے بغیر آئندہ خود ہی فیصلہ کرسکیں کہ تینوں عیدوں میں سے اصل عید کونسی ہے۔ یعنی کیا پہلا گروپ وقت سے پہلے روزہ توڑ کر کفارے کا مرتکب ہوکر عید مناتے ہیں یا بصورت دیگر دوسرے 2 گروہ رمضان المبارک کی شروع میں روزہ نہ رکھ کر کفارے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اور عوام تو کالانعام، ان لاکھوں کروڑوں افراد کا بے وقت افطار کرانے والے مولوی صاحبان کا تعلق کس کیمپ سے ہے۔ 

دنیا میں دستیاب کلینڈر:

قارئین کرام دنیا میں دو طرح کے کلینڈر دستیاب ہیں۔ مغرب میں تو صرف شمسی کلینڈر چلتا ہے۔ اور وہ بھی عیسوی سال کا، جسکا پہلا مینہ جنوری اور اس وقت اسکا 2011 واں سال چل رہا ہے۔ جبکہ دنیا میں شمسی سال کے اور بھی کلینڈر ہیں مگر ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے ہاں یعنی اسلامی دنیا میں تین قسم کے کلینڈر چلتے ہیں۔ ایک وہی عیسوی شمسی کلینڈر، دوسرا کلینڈر ہجری شمسی کلینڈر، جو وسطی ایشیا، افغانستان اور ایران میں رائج ہے۔ جسکی پہلی تاریخ 21 مارچ سے شروع ہوتی ہے اور اس وقت اسکا 1390واں سال چل رہا ہے۔ جبکہ تیسرا کلینڈر ہجری قمری ہے جس کا 1432واں سال ہے۔ اور اسکا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے اور یہ کلینڈر عموما دینی فرائض و مستحبات اور ایام حج اور عیدین کے لئے پوری اسلامی دنیا میں رائج ہے۔ جبکہ بعض عرب ممالک میں تو اسے سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ 

شمسی تاریخ کس ملک سے شروع ہوتا ہے:
شمسی تاریخ کے لئے ایک خاص طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ کہ ہر نئی تاریخ انتہائی مشرق میں واقع ملک "جزائر فجی" سے شروع ہوتی ہے۔ اور تاریخ رات 12 بجے خود بخود تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور پھر یہ تاریخ مابعد آنے والے تمام ممالک میں رات کو 12 بج جانے اور اپنی باری آنے پر تبدیل ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح ہو کہ فجی کے ساتھ ہی مشرق میں واقع امریکہ اور کینیڈا کے علاقوں کی تاریخ ہمیشہ فجی سے ایک دن پیچھے رہتی ہے۔ یعنی فجی میں آج منگل 30 اگست ہے۔ جبکہ فجی سے صرف تین یا چار گھنٹے کے فرق کے ساتھ امریکہ اور کنیڈا میں اس وقت پیر 29 اگست ہے۔ اور چند گھنٹے بعد رات کے 12 بج جانے پر وہاں منگل 30 اگست ہوجائے گی۔ مگر پھر بھی امریکہ کے آخری مغربی علاقوں سے صرف ڈیڑھ دو گھنٹے فرق کے ساتھ فجی میں دو گھنٹے بعد بدھ کا دن ہوگا۔ شمسی سال 365 دن اور لگ بھگ 6 گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر چار سال بعد 6 کو جمع کرکے ایک دن بناکر لیف سال اور فروری میں ایک دن کا اضافہ کرکے 366 کردیا جاتا ہے۔ یہ شمسی تاریخ اور شمسی کلینڈر (عیسوی اور اسلامی دونوں) کا طریقہ کار ہے۔ جس سے تقریبا ہر خاص وعام واقف ہیں اور ہر شخص کو اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کا پہلے ہی سے علم ہوتا ہے۔ 

قمری ماہ ثابت ہونا حدیث کی روشنی میں:

شمسی سال کے مقابلے میں قمری سال کا معاملہ کچھ مختلف ہے ، احادیث نبوی ص کے مطابق ماہ کی پہلی تاریخ تین طریقوں سے ثابت ہوجاتی ہے۔
۱: ۲۹ ویں کو مغرب کے بعد کوئی شخص ہلال (چاند) خود دیکھے، تو دوسروں پر انحصارکئے بغیراس شخص کے لئے آنے والےماہ کی پہلی تاریخ ثابت ہوجاتی ہے۔
۲: دو عادل مومن چاند دیکھنے کی اس طرح گواہی دیں کہ انکے درمیان چاند کے فزیکل خاصیتوں، رخ اور مکان کے متعلق کوئی اختلاف نہ ہو یعنی انسان کو ان کی گواہی سے یقین حاصل ہوجائے۔
۳:پچھلے ماہ کے تیس دن پورے ہوجائیں تو بغیر کسی تردد و شک وشبہ کے آنے والا دن اگلے ماہ کا پہلا دن متصور ہوگا۔
ان تین طریقوں سے چاند کی پہلی تاریخ ثابت ہوتی ہے۔ اگر حاکم شرع موجود ہے تو وہ پورے ملک میں اعلان کرے گا۔ اور اسی کے مطابق تمام اسلامی اعمال مثلا عیدین، رمضان اورحج وغیرہ کے اعمال بجا لائے جائیں گے۔ تاہم بعض فقہاء کاموقف ہے کہ اگر انسان کو علم نجوم و فلکیات سے اطمینان ہو تو اس پر عمل کرسکتا ہے۔ چنانچہ اسے چوتھا طریقہ قرار دیں۔ 

قمری سال کے مہینوں اور سال کا دورانیہ:
اب آتے ہیں اس مسئلے کی طرف، کہ کیا یہ ممکن ہے کہ بیک وقت دنیا میں دو اسلامی تاریخیں ہوں۔ تو عرض یہ کہ اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ جیسے شمسی سال کے معاملے میں فجی اور امریکہ میں ایک دن کا فرق ہوتا ہے اسی طرح قمری سال میں بھی کسی بھی دو ہم سرحد یعنی ملے ہوئے ممالک میں بیک وقت دو اسلامی تاریخوں کا امکان موجود ہے۔ لیکن اس کے لئے ذرا قمری سال کا تجزیہ وتحلیل ضروری ہے۔
قمری سال 354.37 دنوں پر مشتمل ہے یعنی پورے 355 دن نہیں بلکہ 354 دن اور تقریبا 9 گھنٹے، یوں ہر قمری سال، شمسی سال سے تقریبا 11 دن چھوٹا ہونے کے باعث ہمیشہ تقریبا 11 دن پہلے آتا ہے۔ جبکہ ہر قمری مہینہ 29.5306دن یعنی 29 دن، 12 گھنٹے اور تقریبا 44 منٹ کا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر ماہ کی نئی تاریخ تقریبا اسی وقفے کے بعد ہوسکے گی۔ یعنی بالفرض اگر اس سال ماہ مبارک رمضان سب سے پہلے پاکستان میں نظر آیا ہو۔ تو پاکستان میں 29 دن بعد اس کی عمر پوری نہیں ہوسکے گی اور اسکی باقی عمر 12 گھنٹے اور 44 منٹ کہیں یورپ یا امریکہ میں پوری ہوکر اگلے ماہ کی پہلی تاریخ شاید وہاں سے شروع ہو۔ اگرچہ اس سلسلے میں موسموں اور فلکیاتی تبدیلیوں کا بھی اثر اور رول ہوتا ہے۔ تاہم کہنے کا مطلب یہ کہ یہ نہیں کہ شمسی تاریخ کی طرح قمری دن، ماہ اور سال بھی ہمیشہ ایک ہی ملک مثلا پاکستان یا سعودی عرب سے شروع کیا جائے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اگر کسی ایک ملک میں چاند نظر آجائے تو پوری دنیا میں عید یا دوسری تقریبات منائی جائیں کیونکہ دنیا چونکہ گول ہے اور اگر ہم مثلا پاکستان کو بنیاد بناکر اسکے مشرق اور مغرب دونوں جانب یہی دن حساب کریں تو اس میں تسلسل واقع ہوتا ہے اور تسلسل منطق اور فلسفے کے لحاظ سے باطل ہوتا ہے۔
یہاں تھوڑی سی دقت کی ضرورت ہے، یعنی اگر ہم پاکستان میں چاند دیکھنے پر انڈیا میں اور پھر آگے تمام مشرقی ممالک میں یعنی بنگلہ دیش، برما، انڈونیشیا، آسٹریلیا، اسی طرح آگے جاکر جزائر فجی اور مزید آگے جاکر شمالی اور جنوبی امریکہ اور پھر مزید آگے جاکر گرین لینڈ اسی طرح گھوم کر یورپ، افریقہ، عرب ممالک کے بعد دوبارہ پاکستان کی باری آجائے گی یعنی پاکستان میں پھر کل والی تاریخ منانے پڑی گی۔ یہ مسئلہ کچھ دقیق ہے۔ دوسری بات یہ کہ دنیا کی فزیکل شکل بھی مانع ہے، جو کہ آجکل سب پر واضح ہے کہ دنیا میں ہر جگہ ایک ساتھ، دن یا رات تو نہیں ہوا کرتا جو ہم ایک ہی دن کو عید قرار دے سکیں۔ کہیں دن ہوتا ہے تو کہیں رات، چنانچہ یہ سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ 

علماء اور فقہاء کا موقف:

اس سلسلے میں آج کے فقہاء کا یہ موقف ہے کہ اگر کسی ایک مقام "الف" پر چاند کی پہلی ثابت ہوجائے تو اسکے ہم افق علاقے یعنی جن علاقوں کا اذان مغرب "الف" کے ساتھ ہو یا اسکے بعد (مغرب کی جانب) واقع ہوں تو ان میں چونکہ چاند دیکھنے کا امکان اس سے زیادہ ہوتا ہے چنانچہ ان علاقوں کی پہلی تاریخ بھی ان کے ساتھ ثابت ہوگی۔ مگر اس نکتہ "الف" سے مشرق کی جانب واقع تمام نکات میں پہلی تاریخ اگلے دن شمار ہوگی۔ بنا برایں اگر پاکستان میں چاند نظر آجائے تو افغانستان، ایران اور عرب ممالک میں بھی اسی کے مطابق پہلی تاریخ شمار ہوگی۔ مگر برعکس اگر مغرب میں واقع کسی بھی ملک مثلا افغانستان، ایران یا عرب ملک میں چاند نظر آجائے تو انکے ساتھ پاکستان عید نہیں مناسکتا۔ بلکہ پاکستان میں نئی تاریخ اگلے دن متصور ہوگی۔ 

چاند کی زمین کے گرد چکر:

چاند روزانہ سورج سے تقریبا 49 منٹ پیچھے رہ جاتا ہے۔ بالفرض اگر کسی خاص دن سورج اور چاند کسی ملک میں 7 بجے ایک ساتھ ڈوبے تو اگلے دن چاند تقریبا 7 بج کر 49 منٹ پر غروب کرجائے گا اور 29 دن مسلسل 49 منٹ سورج سے پیچھے رہ جانے کے عمل ہی سے چاند چھوٹے سے بڑا اور پھر بڑے سے چھوٹا ہوکر اسی حالت پر آجاتا ہے اور یوں ہی یہ قمری تقویم وجود میں آتی ہے۔ اگرچہ موسم اور علاقوں کی مناسبت سے اس دورانیے (49 منٹ) میں فرق ہوسکتا ہے۔ ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ جب چاند کی عمر 20 گھنٹے یا اس سے زیادہ ہو تو دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہاں تھوڑی سی دقت کی ضرورت ہے۔ جب سورج اور چاند دنیا سے گویا ایک خط میں ہوں جسے اصطلاح فقہ میں اجتماع یا احتراق کہا جاتا ہے جبکہ چاند کے سورج کے ساتھ ایک خاص عرصہ تک (ایک خاص زاویے میں ) اکٹھے رہ کر تحت شعاع ہونے کی حالت کو "محاق ماہ " کہتے ہیں۔ جس دوران چاند سورج کی شعاعوں کی زد میں رہنے کے باعث دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ تو کسی خاص ملک میں بوقت مغرب اگر یہ دونوں ایک ساتھ ڈوب جائیں۔ تو اس نقطہ سے اسکی عمر شروع ہوجائے گی۔ اور پھر اسکے 20 گھنٹے بعد جس ملک میں شام کا وقت ہوگا وہاں سورج سے کافی حد تک پیچھے رہ جانے کی وجہ سے چاند کے نظر آنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے چاند تحت شعاع ہونے (سورج کی روشنی)، نیز انتہائی اسکا سائز انتہائی کم اورباریک ہونے کی وجہ سے دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اور ساتھ یہ بھی واضح ہوکہ جو ممالک جتنے مغرب کی جانب یعنی ٹائم میں پیچھے ہوں، وہاں چاند کی عمر اتنی ہی بڑھتی جائے گی، سورج سے مزید پیچھے رہ جانے اور اس سے اسکا زاویہ بڑھ جانے اور سورج کی روشنی (تحت الشعاع) سے محفوظ ہونے کی وجہ سے اتنا ہی واضح، روشن اور موٹا ہوتا جائے گا۔ چنانچہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر کبھی انڈیا میں چاند نظر آجانے کی سچی گواہی ملی اور آسمان بھی صاف ہو تو پاکستان میں نظر آجانے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں۔ بصورت دیگر یعنی اگر ہمیں نظر نہیں آیا تو انڈیا میں جھوٹی گواہی دی گئی ہے۔ 

چاند سب سے پہلے چارسدہ اور مردان میں کیوں؟

آئیں ہمارے ملک میں عید کے متعلق اور رویت ہلال کے متعلق علماء اور عوام کے اختلاف کی طرف۔ پاکستان میں ہمیشہ چاند سب سے پہلے خیبر پختونخوا کے علاقوں مردان اور چارسدہ میں نظر آجاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں خود چاند نظر آنا تو درکنار،کبھی چاند دیکھنے کی یہ لوگ زحمت تک گوارا نہیں کرتے، بلکہ یہ علاقے سعودی عرب کی تقلید میں ایسا کرتے ہیں۔ تاہم اگر انکو خود ہی نظر آتا ہے تو چارسدہ اور مردان کی نسبت فاٹا کے علاقوں میں شام تقریبا 8 منٹ بعد جبکہ کراچی اورکوئٹہ میں تقریبا 15 تا 25 منٹ بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ اگر چارسدہ یا مردان میں کہیں تندرست آنکھوں والے ایک جوان کو چاند نظر آجائے تو فاٹا، کوئٹہ اور کراچی میں یہ چاند قریب نظری کے شکار آنکھوں کے مریض یا 80 سال کے بوڑھوں کو بھی نظر آنا چاھئے۔ مگر ابھی تک جو ہمارے مشاہدے میں آیا ہے وہ یہ کہ پاکستان تو کیا ایران، عراق، مصر اور انتہائے مغرب تک کسی کو اس دن چاند نظر نہیں آتا، بلکہ انکے دیکھنے کے پورے 24 گھنٹے بعد بھی پاکستان کے تقریبا 16 کروڑ عوام کو خالی آنکھوں جبکہ ہلال کمیٹی کے مسئولین کو مسلح آنکھوں (ٹیلی سکوپ ) سے بھی چاند نظر نہیں آتا۔ یا پھر بڑی مشکل سے نظر آتا ہے۔ چنانچہ ایسی شہادت قاعدے اور اصول کے بالکل خلاف ہے۔ مزید یہ بھی واضح ہو کہ کل پیر کو پاکستان میں چاند سورج سے پہلے غروب فرما چکا ہے جبکہ یہ واضح سی بات ہے کہ چاند اس وقت دیکھی جاسکتی ہے جب وہ سورج کے غروب ہونے کے بعد بھی تقریبا 40 منٹ تا ڈیڑھ گھنٹہ کھڑا رہے۔ مگر بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ ہمارے محترم چارسدوالوں کو چاند ہمیشہ غروب سے قبل نظر آجاتا ہے۔ اوپر نکات میں ہم واضح کرچکے کہ ہمیشہ ایک ہی علاقے میں چاند قابل مشاہدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ مختلف اوقات میں مختلف علاقوں اور ممالک میں قابل مشاہدہ ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ چاند ہمیشہ ہر ماہ اور ہر سال سب سے پہلے سعودی عرب اور اسکی تقلید میں افغانستان اور پاکستان کے پشتو نشین علاقوں خصوصا چارسدہ اور مردان کے کرمفرماؤں کو ہی نظر آجاتا ہے۔ 

خود تجربہ کریں:

آج سعودی عرب میں عید کا دن ہے۔ یعنی کل شام کو چاند نظر آگیا ہے۔ جبکہ کل اسکے مغرب میں واقع ممالک میں لوگ چاند دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ وہ تو کیا 22 گھنٹے بعد آج پاکستان میں بھی شاید چاند نظر نہ آجائے اگرچہ آج چاند نظر آنے کی پیشینگوئی ہوگئی ہے اور یہ کہ 29ویں پر چاند نظر آجانے کا امکان بہر حال ہوتا ہے، بہر صورت اگر نظر آ بھی گیا تو وہ نہایت ہی پتلا ہوگا۔ نیز یہ کہ پاکستان بھر میں ہر عام و خاص بھی اسے دیکھ نہیں سکے گا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ آج نظر نہ آجائے اور یوں کل رمضان المبارک کی 30 ویں تاریخ ہو۔
اس سلسلے میں ایک خاص اور قابل فہم سلیس نکتہ پیش خدمت ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے، ہم ایک آسان قاعدہ بتاتے ہیں، آج کے دن آپ خود اس قاعدے کو آزمائیں، اگر اس ماہ کسی کو یہ موقع میسر نہ ہو تو آئندہ ماہ سے شروع کریں۔ یوں کہ ایک خاص دن چاند کے غروب کا وقت نوٹ کریں، اگلے دن دوبارہ نوٹ کریں، اسی طرح کرتے جائیں، شروع سے حوصلہ نہیں تو کم از کم 20 تاریخ کے بعد سے شروع کرکے27 تک نوٹ کرتے جائیں،آپ کو ماہرین فلکیات سے بے نیاز ہوکر خود ہی یہ اندازہ ہوجائے گا کہ فلاں دن فلاں ٹائم پر فلاں علاقے میں سورج اور چاند بالکل ایک سیدھ میں ہوچکے ہیں۔ اور پھر یہ دیکھیں کہ اسی وقت یا اس سے بھی پہلے سعودی عرب اور چارسدہ میں روِیت ہلال کی گواہی دی گئی ہے۔ پھر آپ خود فیصلہ کرسکیں گے کہ اس گواہی کی شرعی حیثیت کیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک گذارش یہ بھی کرنی ہے کہ آج تو انٹر نیٹ کا زمانہ ہے۔ تعلیم یافتہ دور ہے لوگ خصوصا سٹوڈنٹس خود بھی اس مسئلے کی تحقیق کرسکتے ہیں۔ پوری دنیا میں چاند کے مشاہدے کی خبریں دیکھ سکتے ہیں۔ اور اسلامی کلینڈر کے متعلق ویکی پیڈیا اور دوسرے سائٹس پر تو بعض بڑے دلچسپ معلومات دستیاب ہیں۔ جنکے مطابق سعودی عرب کے قمری تاریخ کے حوالے سے تاریخی اور اہم غلطیوں کا انکشاف کیا جاچکا ہے۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں در اصل چاند دیکھنے کا رواج نہیں بلکہ یہاں تاریخ پہلے ہی سے معین ہے۔ اور یہاں ہر ایک کو پہلے ہی سے پتہ ہوتا ہے کہ منگل 29 اگست کو عید ہوگی، اسی طرح مثلا عید قربان فلاں تاریخ کو ہوگی۔ جبکہ یہ بھی واضح ہو کہ سعودی عرب کے لئے موجودہ اسلامی کلینڈر ایک امریکی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ اور اسی کے مطابق سال کے 12 مہینوں کی یکم اور آخر ماہ کا تعین پہلے ہی سے آمادہ ہے۔
اب مسئلہ سعودی عرب کا نہیں، سوا ارب مسلمانوں کی عبادات اور دینی فریضوں کی انجام دہی کا ہے، خصوصا حج کے اعمال کا جو سعودی عرب کے اندر انہی کی معین کردہ تاریخ کے مطابق ہر سال دو یا کم از کم ایک دن قبل ادا کئے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے کرام، اسکالرز خصوصا جدید علوم سے آراستہ اور تعلیم یافتہ روشن فکر علماء سے خصوصی توجہ کی اپیل ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی جدید طریقہ دیگر خود اور عوام میں خود ہی روشناس کراکر انہیں منا بھی لیں۔ اور حکومت پاکستان اور یہاں ہمارے علمائے سرحد خصوصا مسجد قاسم علی خان کے عملے کے ساتھ علمی مذاکرے کریں اور یہ پروگرامات باقاعدہ لائیو ٹی وی پر چند دن مسلسل دکھائے جائیں تاکہ دھشتگردی کے حوالے سے بدنام،وطن عزیز پاکستان کم از کم تین عیدیں منانے کی بدنامی سے تو بچ سکے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر بعض سائنسی اور فلکیاتی تحقیقات اور اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں موجود رہنمائی کو حذف کیا گیا ہے۔ تاہم اگر کسی کو تحقیق کی شوق ہو تو مندرجہ ذیل ایڈریسز پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ آپ کے معلومات میں اضافے کی خاطر ایک سائٹ کی ایک عبارت یہاں کوٹ کرکے پیش کی جارہی ہے۔ 

ماہ شعبان المعظم سنہ 1432 ہجری قمری کی رؤیت ہلال کی رپورٹ
الف: بروز سنیچر یکم جولائی 2011/مطابق (29 رجب المرجب 1432 ہجری قمری) کی شام میں فلکی و نجومی مشخصات و خصوصیات:
1۔ چاند و سورج کے اقتران کا وقت: 13:23 منٹ، بروز جمعہ، یکم جولائی 2011ء
2۔ سورج غروب ہونے کا وقت : 20 بجکر 24 منٹ
3: چاند غروب ہونے کا وقت: 21 بجکر 6 منٹ
4: چاندکا ارتفاع : 50۔7 درجہ
5: سورج غروب ہونےکے بعد چاند کے باقی رہنے کی مدت: 40 منٹ
6: چاند کی عمر: 29 گھنٹے 57 منٹ
7: سورج اور چاند کے زاویہ کا فاصلہ: 28۔16درجہ
http://www.leader.ir/tree/index.php?catid=66
http://paknetjapan.net/?p=7457
مقالہ نگار سے براہ راست راہنمائی کے لئے مندرجہ ذیل اڈریس پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
fatanews313@yahoo.com
jown5@yahoo.com


خبر کا کوڈ: 95608

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/95608/رویت-ہلال-پاکستان-اور-تین-عید-تحقیقی-مقالہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org