0
Wednesday 29 Sep 2021 11:30

رہ جانے والوں کا سفر نامہ(3)

رہ جانے والوں کا سفر نامہ(3)
تحریر: سید زین عباس

تمام عالم حلقہ دام خیال بنا ہوا ہے، جو لوگ سفر پر ہیں، جا چکے ہیں یا پہنچ چکے ہیں، مسلسل تصاویر اور ویڈیوز بھیج رہے ہیں، ہر ہر تصویر دل میں اترتی ہے، آنکھ اس کشمکش میں رہتی ہے کہ آنسو بہائے یا دیکھتی رہے۔ لے دے کر یہی آنسو اس اربعین کی سوغات بن چکے ہیں، آنسو جو امام حسین (ع) کے فراق میں بہتے ہیں، آنسو، کربلا کا وہ تبرک جو ہر مجلس میں بٹتا ہے، آنسو جو دلوں کا زنگ صاف کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، آنسو جو پتھر دلوں کو پگھلا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو زمین پہ گرنے کی بجائے عرش کی طرف پرواز کر جاتے ہیں۔ اگر ہم چلے جاتے تو یہی آنسو ہدیہ کرنے جاتے اور رک گئے ہیں تو یہی آنسو نذر کر رہے ہیں، یہ آنسو جانے والوں اور رکنے والوں میں مشترک ہیں، تو آنسو بہائیں کہ امام حسین (ع) کی نظر لطف ہم پر بھی پڑ جائے، یہ آنسو اس آفتاب کے جلوہ روشن سے دمک اٹھے تو زندگی نور سے بھر جائے گی، آنسو بہائیں کہ یہی آنسو آئندہ زیارت کی سند پر مہر لے سکتے ہیں۔

مشی کے آخری لمحات کے کیف کا موازنہ دنیا کی کسی بھی اور کیفیت سے نہیں کیا جا سکتا، اگر دل میں کچھ نمی محسوس ہو رہی ہو تو تصور کی زخمی مشک سے چند قطرے ٹپکنے دیں۔ تین دن پیادہ روی کے بعد، تھکے قدموں کے ساتھ، شکستہ بدن، ٹوٹے ہوئے حوصلوں کے ساتھ، اچانک سے ایک موڑ آتا ہے کہ جہاں یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ اب کیا کہنا ہے، قدم اٹھائیں گے تو حضرت ابو الفضل العباس کا گنبد نظر آئے گا۔ وہ ماہتاب جو اپنے سورج کے بالکل سامنے ہے اور اس کی روشنی سے یوں دمک رہا ہے کہ فرق کرنا بھی مشکل ہے۔۔۔ ایسا وجود جو بندگی کی معراج ہے، ایسا غلام جو غلاموں کا سردار ہے، ایسا شہید جو غازی ہے، وہ پیاسا جو سقا ہے، وہ جس کے ہاتھ کٹے ہیں اور سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ میں میرا وجود، میری نبضیں، میرا دل۔۔۔۔ سب کچھ کٹے ہاتھوں میں گروی رکھا ہے، بچپن سے جس وجود نے ٹوٹنے نہیں دیا، جس نے اطاعت، وفا، فرمانبرداری، جانفشانی اور بندگی جیسے الفاظ کو معانی عطا کیے ہیں۔ اگر عباس نہ ہوتے تو کون بتاتا کہ وفاداری کیا ہوتی ہے؟

لیکن سنو۔۔۔ تم کیا کرو گے؟ قدم اٹھاو گے؟ نافرمانی کرنے والے وجود کے ساتھ؟؟؟ بے وفا روح کے ساتھ؟؟؟ جلدی منہ موڑ لینے والے نفس کے ساتھ؟؟؟ کیا چاہو گے؟ کیا سوال کرو گے؟ دعا مانگو گے؟ دنیا میں کیا چاہیئے؟ کیا دعا مانگنی چاہیئے؟ مٹی اور پتھر سے بنی کوئی چیز مانگو گے؟ یا محبت کا سوال کرو گے؟۔۔۔ خوب سوچ کے قدم بڑھاو۔ کاش بندگی کے سمندر کا ایک قطرہ ہوتے کہ اس سورج کے سامنے جاتے ہی اس کی نورانیت میں جذب ہو جاتے، کاش اپنے وجود پر کچھ محنت کی ہوتی کہ یہ نور ہمارے دل میں منعکس ہوسکتا، کاش۔۔۔ لیکن اب حسرت سے کیا حاصل، چلو قدموں کو تیز کرو اور جا کر خود کو بندھے ہاتھوں اور جھکی ہوئی گردن کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کر دو، تاکہ تمہیں قبول کر لیا جائے۔۔۔ بتانا کہ میں نہیں جانتا وفا کیا ہے، بندگی و اطاعت کیا ہوتی ہے نہیں معلوم، صرف گناہ کیے ہیں، صرف خیانتیں کی ہیں، تھک جاتا ہوں، بیزار ہو جاتا ہوں، شکست کھا جاتا ہوں۔۔۔ میرا دشمن بہت قوی ہے، میں اس کے مقابلے میں کمزور ہوں، وہ مجھے اکساتا ہے اور میں پھر گناہ کر بیٹھتا ہوں۔۔۔

کہنا کہ اگر آپ نے میرے دل کو نہ سنبھالا تو آپ کے مولا کے سامنے شرمندہ ہو جاوں گا۔ آپ تو نہیں چاہتے کہ آقا حسین کو اذیت پہنچے۔؟؟؟ پس میری سفارش کر دیں، آقا حسین (ع) کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیں، ان گناہوں کے ساتھ کیسے آگے بڑھوں گا۔۔۔ سنو کہیں مایوس نہ ہو جانا، وہاں گناہگاروں کو بھی بلایا جاتا ہے، انھیں عزت بھی دی جاتی ہے، اگر پہنچ گئے ہو تو اب گناہ و ثواب کے حساب کتاب سب دھل گئے ہیں، تم کتنے ہی گنارہگار کیوں نہ ہو، جب حضرت ابو الفضل کے پرچم کے نیچے سے گزر آئے ہو تو شک نہ کرو کہ گناہ باقی رہ گئے ہیں اور تم کتنے ہی نیک کیوں نہ ہو، علمدار کربلا کی نگری میں اپنے وجود کو ایک تنکے سے زیادہ  محسوس نہیں کرو گے، جو کروڑوں انسانوں کے سیلاب میں بہے جا رہا ہے، جو قدم اٹھانے کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔۔ بس کرو، اگر اب بھی نیکیوں کا گھمنڈ ختم نہیں ہوسکا تو یا تم کربلا پہنچے ہی نہیں ہو، یا تم نے خود کو اس آئینے کے سامنے نہیں رکھا اور افسوس ہے، اگر تم کربلا میں ہو اور تم اس آئینے میں خود کو دیکھ نہیں سکے۔۔۔

افسوس ہے اگر تم کربلا میں ہو اور خود کو گناہوں کے بوجھ اور نیکیوں کے غرور سے پاک نہیں کرسکے۔ افسوس ہے اگر تم کربلا میں ہو اور چاہتے ہو کہ دنیا کے سامنے تمہاری شہرت ہوسکے، تم کس کو بتانا چاہتے ہو کہ تم کتنے عظیم ہو، جو زیارت کر رہے ہو؟؟؟ مگر اس میں تمہارا کمال ہی کیا تھا، تمہیں بلایا گیا ہے کہ کمال حاصل کرسکو، لیکن تم تو شہرت کے پیچھے پڑ گئے، تمہیں بلایا گیا کہ فرشتے تمہارے میزبان بنیں، لیکن تم فرشتوں سے جان بچا کر دنیا کی شہرت کے خواہش مند ہونے لگے۔ احتیاط کرو، ایسا نہ ہو کہ یہ سرزمین تمہیں قبول نہ کرے اور تم اس سرزمین میں اجنبی بن کر رہ جاو۔۔۔ یہ سرزمین بندگان خدا کی سرزمین ہے، اگر بندے نہ بن سکے تو حملہ آور شمار ہوگے، قابض شمار ہوگے، ابھی بھی وقت ہے، بندگی سیکھ کے پلٹنا۔۔۔ پلٹنا بھی تو ایک مرحلہ ہے۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 956343
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش