0
Friday 1 Oct 2021 17:06
عزاداری سید الشہداء ہماری ریڈ لائن ہے

لاقانونیت کا راستہ قانون سے روکیں گے

تکفیریت اور ریاستی کالی بھیڑیں ایک پیج پر ہیں
لاقانونیت کا راستہ قانون سے روکیں گے
خصوصی رپورٹ: توقیر کھرل

گذشتہ چار سال کے منظرنامہ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو مکتب تشیع پاکستان اور عزاداری سید الشہداء کو کمزور کرنے کیلئے پہلے سے زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کالعدم گروہ کے کہنے پر ایک عالم دین کا خطاب روک دیا جاتا ہے۔ اذان میں علی ولی اللہ کہنے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ جناب سیدہؑ کی توہین کی گئی۔ عاشورا و اربعین کے خلاف ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئیں۔ نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا، واپس آنے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات درج کئے گئے۔ پاکستان میں مکتب تشیع کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے بنیادی عقائد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گذشتہ دنوں لاہور میں اربعین واک میں شرکت کرنے پر 38 مقدمات اور مجموعی طور پر 150 مقدمات ہوئے۔ ایف آئی آرز کا متن پڑھا جائے تو مقدمات بنانے والوں پر شدید حیرت ہوتی ہے اور جانبدارانہ اور متعصبانہ سازش کا گمان ہوتا ہے۔

گذشتہ روز ہی کمالیہ میں مجلس عزاء پڑھنے پر خطیب کے خلاف مقدمہ ہوا، جس میں خطیب نے وہی عقائد بیان کیے، جو مکتب تشیع کے بنیادی عقائد ہیں۔ ان تمام محرکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تکفیری اور ریاست میں چھُپی کالی بھیڑیں ان کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ عزاداری پر پابندی اور بے بنیاد مقدمات کے تناظر میں اسلام ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے امت واحدہ کے سربراہ علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ایک پاکستانی شہری کی حیثیت سے آئین اور قانون مجھے اور آپ کو یہ حق دیتا ہے کہ اپنے دینی و مذہبی فرائض کو آزادی کے ساتھ اس سرزمین پہ انجام دیں، اپنے عقائد کے اظہار میں بھی آزاد رہیں، لیکن گذشتہ چار دہائیوں سے کچھ عناصر مکتب اہلبیتؑ کی تعلیمات کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں، مسلسل مکتب اہلبیتؑ کی شناخت عزاداری کو محدود کرنے کی انتہائی کوشش اور باقاعدہ منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ہر دور کے عناصر نے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں کے ذریعے سے مکتب تشیع کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی ایسے عناصر کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی۔ اب چالیس سال گزرنے کے بعد ہمیں یہ امید تھی کہ کم از کم اس دور میں ایک جمہوری ملک کے اندر اس طرح کی کوئی زیادتی نہ ہو، لیکن ایک عرصہ سے مسلسل سیاسی ہتھکنڈوں سے ریاستی مشینری اور اداروں کو استعمال کرکے تکفیری عناصر اور ریاست میں موجود ان کے ہمنوا بھی اپنے اس مذموم، منحوس، نجس پروپیگنڈے اور کوششوں کو بروئے کار لا رہے ہیں اور عزاداری کو محدود کرنے کیلئے کبھی گھروں میں عزاداری کے خلاف، کبھی گلی میں نکلنے کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے۔

علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ کبھی عزاداری کا وقت زیادہ ہو جائے تو اس پر پریشر ڈالا جاتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ سلسلہ تکفیریوں، خوارج اور ناصبیوں کی طرف سے ہے اور جو ہمارے معاشرے میں چھپے بیٹھے ہیں۔ لیکن ان کی سرپرستی ہمارے اداروں میں چھُپے ہوئے تکفیری عناصر کر رہے ہیں، یہ کسی صورت بھی قبول نہیں ہے۔ اربعین کو محدود کرنے کے لئے جو چالیں اور سازشیں کی گئیں، اس کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ لوگ اپنے گھروں سے نکلیں اور پیدل چلتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچیں، جسے ہم پیدل چلنا یا مشی کہتے ہیں۔ اگر ریاست اب پیدل چلنے والوں کے خلاف ایف آئی آریں کاٹنا شروع کر دیتی ہے تو ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ ریاست بھی مکمل طور پہ تکفیریوں کے ساتھ ایک پیج پر ہے اور یہ کسی صورت بھی ایک آزاد شہری کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔

مکتب تشیع کے عمائدین اور قائدین، جماعتیں، تنظیمیں، اکابر اور تمام طبقات مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ ان ایف آئی آرز کا مقابلہ کریں گے، اپنی مذہبی اقدار پر کسی بھی صورت میں کوئی کمپرو مائز نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ یہ تمام جعلی مقدمات واپس لے اور ان تکفیریوں اور دہشت گردوں کے خلاف اور پرامن عزاداروں کی حمایت میں کھڑی ہو، اربعین کے روز پیدل چلنے والوں نے کسی بھی مقام پر کسی بھی بلڈنگ کو نقصان نہیں پہنچایا، نہ کسی اجتماعی نظم میں خلل پیدا کیا، ٹریفک کو بھی رواں دواں رکھا، سڑکوں کی صفائی کرتے رہے۔ اس کے باجود ریاست، پولیس اور انتظامیہ کا یہ منفی رویہ سامنے آیا ہے تو قوم میں مایوسی کے ساتھ نفرت پھیلے گی اور یہ نفرت نہ حکومت کیلئے مناسب ہے نہ اداروں کے حق میں ہے۔

اکابر علمائے کرام سے گزارش کروں گا کہ پولیس کی اس لاقانونیت، غیر قانونی اور آئین کے خلاف کارروائی پر پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہوں۔ کورٹ میں جائیں، وکلا اور ججز کا سہارا لیں، اس لاقانونیت کا راستہ قانون سے روکیں۔ مکتب تشیع کے جوان پہلے بھی اور اب بھی ایسے ہتھکنڈوں سے گھبرانے والے نہیں ہیں۔ یہ ساری ایف آئی آرز غیر قانونی ہیں۔ یہ ایک شہری کے بنیادی حق کو چھینے کے مترادف ہے، آئین کے خلاف ہے، اس کا مقابلہ قانونی طور پہ کریں گے۔ تکفیریوں اور ان کے حامیوں کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری مذہبی آزادیوں میں خلل ڈال سکیں۔ مکتب تشیع زندہ مکتب ہے۔ زندہ فکر کے حامل لوگ معاشروں میں سربلندی کے ساتھ آزادی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، ہم اس ہتھکنڈے کا قانونی اور آئینی مقابلہ کریں گے۔

مجلس وحدت مسلمین کے رہنما ایڈووکیٹ ناصر عباس شیرازی نے اسلام ٹائمز سے عزاداری پہ قدغن کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وطن عزیز میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ لوگ اگر مجلس عزا میں شرکت کیلئے جا رہے ہوں تو ان کو روکا جائے یا قانونی کارروائی کی جائے، نہ ملک میں ایسے کوئی حالات ہیں، نہ یا کوئی فرقہ وارانہ حالات ہیں، نہ کوئی شکایت درج ہے۔ ایف آئی آرز انتظامیہ کی طرف سے آئی ہیں۔ انتظامیہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پُرامن شہریوں کے حق میں دخل اندازی کرے، یہ پاکستان کے آئین اور قانون کے خلاف ہے۔ یہ مقدمات ٹیکنکلی طور پر بھی درست نہیں ہیں۔ 144 کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سرکاری طور پر کوئی واضح ڈیکلریشن جاری نہیں تھا۔ یہ پولیس کی طرف سے ہیں، جانبدارانہ ہیں۔ جن پہ مقدمات ہوئے ہیں، ان کی قانونی حمایت کریں گے۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

مکتب اہلبیت پر جو مسلسل حملے ہو رہے ہیں، حملے کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو رہی، انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ اربعین کے روز عزاداروں نے بتایا کہ ہماری ریڈ لائن عزاداری سید الشداء ہے، مکتب کے اصول پر حملہ ہوگا تو ہم باہر نکلیں گے اور لوگوں نے دیکھا کہ کروڑوں افراد باہر نکلے۔ ملک کے طول و عرض میں اجتماعی و عوامی قوت نظر آئی ہے، پاکستان کی سرزمین پر مکتب اہلبیت کے ماننے والوں کا اسٹریکچرل رسپانس ہے۔ اسلام، ملک اور وحدت دشمن کیلئے بہترین کاوش تھی۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ذلیل ہوگی وہ قوم جس کا دشمن اس کے گھر تک پہنچ گیا۔ مکتب اہلبیت کی پیروکار یہ قوم ذلت و رسوائی کو اپنے لئے کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی اور سید الشہداء کے عصرِ عاشور کے پیغام "ذلت ہم سے دور ہے" کو اپنا شعار بنا کر عزاداری کے خلاف ہر سازش کو کچلنے کیلئے ایستادہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 956682
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش