1
Tuesday 5 Oct 2021 22:28

عراقی کردستان میں صہیونی اجلاس، اغراض و مقاصد

عراقی کردستان میں صہیونی اجلاس، اغراض و مقاصد
تحریر: سید رضا صدرالحسینی
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم ابتدا سے ہی تشخص کے بحران کا شکار ہے۔ لہذا صہیونی حکمران خطے کے دیگر ممالک کو بھی توڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یوں خطے کے وہ ممالک جہاں کسی طرح بھی کوئی علیحدگی پسند گروہ سرگرم عمل ہے، صہیونی حکمران ان کی مدد کر کے ان ممالک کو توڑنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے صہیونی رژیم نے خطے کے تمام ممالک کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اپنے شیطانی اہداف کے حصول کی خاطر صہیونی رژیم بے تحاشہ مالی اخراجات سے بھی گریز نہیں کرتی۔ اس قسم کی صہیونی سازشوں کی تازہ ترین مثال اسلامی ملک سوڈان کا ٹوٹ کر شمالی سوڈان اور جنوبی سوڈان دو حصوں میں بٹ جانا ہے۔ عراق میں کرد نشین علاقے کردستان کی بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔
 
سوڈان کی تقسیم میں صہیونی سازش کارفرما ہونے کی سب سے واضح دلیل مادر ریاست سے ٹوٹ کر علیحدہ ریاست بننے والے سوڈان کے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ دراصل غاصب صہیونی رژیم اپنی سازش کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آنے والی نئی ریاستوں کی حمایت کر کے انہیں اپنے سیاسی اہداف کیلئے استعمال کرتی ہے۔ البتہ صہیونی رژیم اس مقصد کیلئے اقتصادی شعبے میں سرمایہ کاری بھی انجام دیتی ہے۔ آج عراق ان صہیونی سازشوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ عراق کی مرکزی حکومت اور عوام ہر گز نہیں چاہتے کہ ملک تقسیم ہو۔ البتہ کرد اکثریتی علاقے کردستان میں بعض علیحدگی پسند عناصر موجود ہیں جنہیں غاصب صہیونی رژیم نے اپنی چھتری تلے جمع کر رکھا ہے۔
 
عراقی کردستان میں علیحدگی پسند عناصر کا سرغنہ مسعود بارزانی ہے۔ یہ علیحدگی پسند عناصر اس سے پہلے بھی کئی بار علیحدہ خومختار ریاست کے قیام کیلئے کوششیں انجام دے چکے ہیں جو غاصب صہیونی رژیم، امریکہ اور برطانیہ کے بھاری اخراجات کے باوجود ناکامی کا شکار ہوئیں ہیں۔ اس وقت عراقی کردستان میں ایک بار پھر علیحدگی پسندانہ سرگرمیاں شدت اختیار کر چکی ہیں۔ حال ہی میں کردستان کے شہر اربیل میں بعض صہیونی عناصر اور مقامی کرد افراد کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں کردستان کی خودمختاری کی بات کی گئی ہے۔ عراق کی مرکزی حکومت اور حتی کرد نشین صوبوں نے بھی اس علیحدگی پسندی کی مذمت کی ہے۔ عراقی حکومت نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں اس اجلاس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
 
عراق کے آئین میں واضح طور پر ملکی سالمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراقی عوام کی اکثریت، مذہبی رہنما، مراجع تقلید، مسلح افواج، حشد الشعبی اور سیاسی جماعتیں ملک کی تقسیم کے حق میں نہیں اور اس کے شدید مخالف ہیں۔ اربیل میں منعقد ہونے والے صہیونی اجلاس کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں شریک کرد عناصر نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر زور دیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم گذشتہ کچھ عرصے سے اسلامی دنیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی پالیسی پر کارفرما ہے اور اس مقصد کیلئے اس نے مختلف اسلامی ممالک سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔ لہذا اسلامی دنیا میں جہاں بھی صہیونی رژیم کو اپنے لئے نرم گوشہ دکھائی دیتا ہے وہاں بھرپور سرمایہ کاری انجام دیتی ہے۔
 
دوسرا اہم نکتہ خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی روز افزوں کامیابیوں اور بڑھتے اثرورسوخ سے مربوط ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس وقت اسلامی مزاحمتی بلاک نے لبنان، فلسطین اور شام میں شاندار کامیابیاں حاصل کر کے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف گھیرا مزید تنگ کر دیا ہے۔ لہذا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے اس گھیرے اور گوشہ نشینی سے چھٹکارے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے رکھا ہے۔ صہیونی حکمران، اسلامی مزاحمتی بلاک کے علمبردار ہونے کے ناطے اسلامی جمہوریہ ایران کی سرحدوں کے قریب آنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اہم رکن کے طور پر عراق میں اثرورسوخ بڑھانا بھی غاصب صہیونی رژیم کی ترجیحات میں شامل ہے۔ یوں صہیونی حکمران ایران اور عراق کی سرحدوں کے قریب آ کر مداخلت آمیز پالیسیوں پر گامزن ہونے کے درپے ہیں۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اربیل میں منعقد ہونے والا صہیونی اجلاس مکمل طور پر غیر قانونی اجلاس تھا۔ بدقسمتی سے اس اجلاس میں عراق کے کرد نشین صوبوں کی بعض سرکاری اور غیر سرکاری شخصیات بھی شریک ہوئی ہیں۔ اس اجلاس کا ایک بنیادی مقصد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو اسلامی مزاحمتی بلاک کے شدید محاصرے سے نکلنے کیلئے مناسب راستہ فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح اس اجلاس کا ایک اور مقصد اس تعطل کو توڑنا ہے جو اسلامی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں پیدا ہو گیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم نے گذشتہ برس متحدہ عرب امارات اور بحرین سے دوستانہ تعلقات کا معاہدہ کیا تھا جبکہ ایک سال سے اس کی یہ مہم انہی دو عرب ممالک تک محدود ہے۔ لہذا صہیونی حکمران اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 957336
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش