0
Wednesday 6 Oct 2021 22:39

عراق کے انتخابات۔۔۔۔ خدشات اور تحفظات

عراق کے انتخابات۔۔۔۔ خدشات اور تحفظات
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اتوار 10 اکتوبر کو عراق میں پانچویں پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ 2018ء کے عراقی انتخابات کے قوانین کے مقابلے میں 2021ء کے انتخابات میں کچھ  تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ سب سے اہم فرق انتخابی حلقوں میں تبدیلی ہے۔ نومبر 2020ء میں منظور ہونے والے نئے انتخابی قانون کے تحت اب عراق میں انتخابات صوبائی نہیں ہوں گے، بلکہ اب نئے عراقی قانون کے تحت عراق کو 18 کی بجائے 83 حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حلقوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے تقسیم کی گئی ہے۔ بغداد چونکہ عراق کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ اور اس مین عراق کی 21 فیصد سے زیادہ آبادی موجود ہے، لہذا اسے 17 انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انتخابی قانون میں تبدیلی کے بعد ایک اور اہم تبدیلی امیدواروں کی نامزدگی اور لوگوں کے ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار ہے۔ پچھلے الیکشن میں امیدوار انتخابی فہرست کے مطابق پارلیمنٹ کے ممبر منتخب کرتے تھے، لیکن 10 اکتوبر کے انتخابات میں ووٹرز انتخابی فہرست کی بجائے براہ راست امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ اسی لئے 2021ء کے انتخابات میں آزاد امیدواروں کی تعداد 2018ء کے انتخابات سے کہیں زیادہ ہے اور اس بار 789 امیدوار آزادانہ طور پر انتخابات میں شرکت کر رہے ہیں۔

2021ء اور 2018ء کے عراقی انتخابات کے درمیان ایک اور اہم فرق امیدواروں، اتحادوں اور انتخابی فہرستوں کی تعداد میں کمی کا بھی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں 7367 لوگوں کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ 2021ء کے انتخابات میں یہ تعداد گھٹ کر 3249 رہ گئی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ 2014ء کے انتخابات میں 9 ہزار سے زائد افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں عراقی پارلیمانی انتخابات میں امیدواروں کی تعداد میں پچھلے آٹھ سالوں میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ 2014ء کے انتخابات میں 27 انتخابی اتحاد، 88 انتخابی فہرستیں، 205 سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں تھیں، لیکن 2021ء کے انتخابات میں یہ تعداد بھی کم ہوئی۔ 10 اکتوبر کے انتخابات میں 21 اتحاد، 58 انتخابی فہرستیں اور 167 پارٹیاں ہیں۔۔ ایک اور تبدیلی عراقی خواتین سے متعلق ہے۔ پچھلے قانون کے تحت عراق کی تمام پارلیمانی نشستوں میں خواتین کے لیے کم از کم 25 فیصد مخصوص نہیں تھیں۔ 10 اکتوبر کے انتخابات میں 951 خواتین حصہ لے رہی ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عراق میں 2021ء کے انتخابات بین الاقوامی نگرانی میں ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے جینن پلسچارٹ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے 800 مبصر عراقی انتخابات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ عراقی انتخابات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے وفد کا مشن پچھلے وفود سے مختلف ہوگا، پلاشکارت نے کہا ہے کہ "2018ء کے انتخابی عمل میں حصہ لینے والے وفد نے صرف سکیورٹی کے مسائل کو دیکھا تھا، لیکن اب یہ وفد انتخابات کے انعقاد میں تمام  ٹکنیکی مسائل پر بھی نظر رکھے گا۔ موجودہ عراقی انتخابات نہ صرف ملکی لابیوں کے لیے بلکہ غیر ملکی لابیوں کے لیے بھی اہم ہیں۔ یہ اہمیت تین عوامل کی وجہ سے ہے۔ نمبر ایک، اسلامی جمہوریہ ایران، شام اور سعودی عرب سے متصل عراق کی جغرافیائی پوزیشن اسٹریٹیجک اہمیت کی حامل ہے، لہذا عراقی انتخابات پر سب کی نظریں ہیں۔

دوسرا، اس ملک کی آبادی کی اکثریت شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، عراق ان ممالک میں سے ہے، جہاں حکومت ایک شیعہ وزیراعظم کی طرف سے تشکیل پاتی ہے اور شیعہ مرجعیت بھی اس ملک میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تیسری اہم بات اس ملک میں مقبول، متحرک اور حشد الشعبی جیسے مزاحمتی گروہوں کی موجودگی ہے، جو غیر ملکی مداخلت کے ساتھ ساتھ صہیونی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کے فکری اور نظریاتی مخالف ہیں۔ اس وقت چار گروہ عراق کے اندرونی مسائل خاص طور پر انتخابات کے مسئلے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ پہلی قسم عرب ممالک کی ہے، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر شامل ہیں۔ عرب ممالک نے 2005ء میں عراق کے پہلے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا  اور اسی پارلیمنٹ نے 2009ء میں امریکہ کو عراق سے نکالنے کے لیے ووٹ دیا۔ 2010ء اور 2014ء میں عرب ممالک نے منفی کردار ادا کیا، لیکن اس بار ان کا کردار نمایاں ہوگا۔

2018ء کے عراقی انتخابات میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ یہ تھی کہ اس نے وزیراعظم حیدر العبادی کے دور میں عراق کے ساتھ 25 سال بعد تعلقات بحال کیے اور سعودی اور عراقی حکام کے درمیان سفارتی ملاقاتوں میں اضافہ ہوا۔ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب بھی 2021ءکے انتخابات میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ عراقی انتخابات کے لیے عرب ممالک کا نقطہ نظر سنی سیاسی گروہوں کی حمایت کرنا ہے، نیز فتح کے لسٹ سمیت مزاحمتی بلاک کے قریب شیعہ سیاسی گروہوں کی مخالفت کرنا ہے۔ محمد الحلبوسی، خمیس خنجر اور اسامہ النجفی تین عراقی سنی شخصیات ہیں، جن میں سے ہر ایک کو بعض عرب ممالک کسی نہ کسی طریقے سے سپورٹ کرتے چلے آرہے ہیں۔ الحلبوسی کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے اور خنجر کو قطر کی حمایت حاصل ہے۔

عراقی انتخابات میں مداخلت کاروں میں دوسرا گروپ ترکی کا ہے۔ ترکی عرب ممالک کی طرح سنی گروہوں کے ساتھ ساتھ سیکولر اور مزاحمت مخالف شیعہ گروہوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کے موجودہ اسپیکر اور التقدم لسٹ کے چیئرمین محمد الحلبوسی نیز عراقی پارلیمانی انتخابات میں العزم پارٹی کے رہنماء خمیس الخنجر نے حال ہی میں انقرہ کا دورہ کیا ہے اور ترک صدر رجب طیب اردگان سے ملاقات بھی کی ہے۔ عراق کے حساس انتخابات کے موقع پر محمد الحلبوسی اور خمیس الخنجر کا انقرہ کا دورہ ظاہر کرتا ہے کہ ترکی سنجیدگی سے عراق کے سیاسی توازن کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ترکی کے لئے سنی دھڑووں کی حمایت کرنا زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ ترکی عراقی ترکوں کی بھی حمایت کرتا نظر آرہا ہے۔ تیسری قسم میں امریکہ کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ کھلے عام کسی خاص گروہ یا فرد کی حمایت نہیں کر رہا بلکہ یہ مطالبہ کرتا نظر آرہا ہے کہ عراقی مزاحمتی گروپ اکثریتی نشستیں نہ جیتیں اور مزاحمتی گروپ حکومت نہ بنائے۔ درحقیقت عراقی انتخابات میں امریکی مداخلت کسی کی حمایت سے زیادہ مزاحمتی گروہوں کی مخالفت ہے۔

مذکورہ  تینوں علاقائی اور عالمی کھلاڑیوں کا مشترکہ مقصد عراقی مزاحمتی گروہوں کی مخالفت ہے۔ 2003ء کے بعد عراق میں جو انتخابات بھی ہوئے، عراقی عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں اور دھڑے بعض غیر ملکی طاقتوں کے دباؤ میں رہے،  اس بار انتخابات کا انعقاد اس طریقے سے ہونا چاہیئے، جس سے بیرونی طاقتیں کم سے کم اثر انداز ہوں۔ غیر ملکی کھلاڑیوں میں ایران بھی شامل ہے، جو عراق میں  ترقی و پیش رفت میں شامل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا عمومی نقطہ نظر عراق کے ساتھ اچھی ہمسائیگی، اس ملک کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ پر زور دینا اور عراق میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کی مخالفت کرنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران عراق کے مفادات کو اسلامی جمہوریہ ایران کا مفاد سمجھتا ہے، اس لئے آزاد اور منصفانہ انتخابات کا خواہشمند ہے، تاکہ عراق میں ایسی حکومت تشکیل پائے، جو غیر ملکی مداخلت بالخصوص عراق سے امریکی انخلاء کے عمل کو جلد سے جلد عملی جامہ پہنائے اور عراق کے عوام کو مشکلات سے نکال کر ایک فلاحی ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
خبر کا کوڈ : 957523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش