0
Friday 8 Oct 2021 18:06

ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی تاریخ، کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے؟

ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی تاریخ، کیا ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے؟
رپورٹ: ایم رضا

حکومت پاکستان نے ایک بار پھر کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے، جس کی تصدیق وزیراعظم عمران خان نے ایک ترک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کی۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں شامل کچھ گروپوں سے بات چیت کر رہی ہے اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان میں ہو رہی ہے تاہم وہ اس کی کامیابی کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کچھ طالبان گروپ حکومت سے امن کی خاطر بات کرنا چاہتے ہیں، ہم ایسے کچھ گروپوں سے رابطے میں ہیں، ہتھیار ڈالنے اور حکومت کی جانب سے معافی کی صورت میں وہ عام شہری بن جائیں گے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی اخبار کو انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر تحریک طالبان کے شدت پسند اپنی کارروائیاں چھوڑ دیں اور ہتھیار ڈال دیں تو حکومت انہیں معاف کر سکتی ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا کہ کیا ریاست ان لوگوں کو معاف کرسکتی ہے، جن کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوں تو ان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان کے 300 تا 500 ایسے لوگ ہیں، جو پاکستان میں دہشت گردی اور آرمی پبلک اسکول جیسے بڑے حملوں میں براہ راست ملوث ہیں، انہیں کسی صورت معافی نہیں ملے گی۔

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا ردعمل
شاہ محمود قریشی کے بیان پر ردعمل میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان نے حکومت پاکستان کی جانب سے معافی کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے جبکہ ہماری جدوجہد کا مقصد پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے دوبارہ اپنے اسی مؤقف کا اعادہ کیا ہے اور کہا کہ بامعنی مذاکرات کے متعلق ہماری پالیسی واضح ہے اور تحریک طالبان پاکستان نے کہیں پر بھی فائربندی کا اعلان نہیں کیا۔ اگرچہ عمران خان کے بیان میں فائربندی کا ذکر نہیں تھا مگر بعض نشریاتی اداروں نے وزیرستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے سیزفائر کی خبریں دی تھیں۔

پھر حکومت مذاکرات کس سے کر رہی ہے؟
اگرچہ عمران خان نے کسی مخصوص گروپ کا نام نہیں لیا لیکن ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان کے جاری مذاکرات تحریک طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ سے ہو رہے ہیں، جو پاکستان میں بہت کم حملوں میں ملوث ہے اور اس میں سہولت کار حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی ہیں، جن کے اس گروپ کے ساتھ پہلے سے اچھے تعلقات ہیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی میں دھڑے بندی کب ہوئی؟
سن 2007ء میں وجود میں آنے والی تحریک طالبان پاکستان تنظیم کے بانی بیت اللہ محسود کی سربراہی میں 2 سال تک متحد رہی، تاہم سن 2009ء میں بیت اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد ٹی ٹی پی میں قیادت کے معاملے پر پیدا ہونے والے اختلافات سے تنظیم میں دھڑے بندی کا آغاز ہوگیا۔ ٹی ٹی پی میں پہلی مرتبہ حکیم اللہ محسود اور مولانا ولی الرحمٰن کے نام سے الگ الگ گروپ کا وجود عمل میں آیا، تاہم اب کالعدم ٹی ٹی پی تقریباً درجن بھر گروپوں میں تقسیم ہے، جن میں سے 3 گروہوں نے حال ہی میں دوبارہ ٹی ٹی پی میں ضم ہونے کا اعلان کیا ہے۔

حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان ماضی کے معاہدے
ریاست پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان ماضی میں کئی دفعہ مذاکرات ہوچکے ہیں، جن میں سب سے پہلے مذاکرات شکئی میں ہوئے، جسے شکئی معاہدہ بھی کہتے ہیں۔ حکومت نے سن 2004ء میں یہ معاہدہ پاکستان میں ڈرون حملے کے پہلے شکار کالعدم تنظیم کے بانی نیک محمد کے ساتھ کیا تھا، تاہم وہ معاہدہ پاکستان آرمی پر دوبارہ حملوں کے بعد ختم ہوگیا۔ اس کے بعد سن 2007ء میں بھی حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ کے مقام پر مذاکرات کے بعد ایک امن معاہدہ طے پایا تھا، مگر بیت اللہ محسود گروپ کی جانب سے سراروغہ میں واقع اسکاؤٹس قلعے پر حملے کے بعد وہ معاہدہ بھی ٹوٹ گیا۔

حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان سن 2009ء میں تیسرا معاہدہ سوات میں طے پایا، جس میں صوفی محمد اور حکومت کے درمیان شریعت نفاذ محمدی کا معاہدہ ہوا تھا اور پھر اس کے کچھ ہی عرصے بعد فوجی آپریشن کی شروعات کے ساتھ ہی وہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان چوتھا معاہدہ سن 2008ء میں خیبر ایجنسی میں منگل باغ کے ساتھ ہوا تھا، لیکن یہ معاہدہ بھی زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی ایک اور کوشش سن 2013ء میں بھی کی گئی تھی، مگر وہ مذاکرات کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے اور مذاکرات کے ناکامی پر ایک بار پھر فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا تھا۔

حالیہ مذاکرات کی ابتداء
ذرائع کے مطابق پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان میں مذاکرات کی پہلی راہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے دورہ کابل سے بنی۔ جب سابق ٹی ٹی پی ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے مختلف میڈیا ذرائع کو یہ خبر دی گئی۔ اس اہم دورے میں افغان طالبان کو پاکستان کیلئے مسئلہ بننے والی داعش خراسان اور ٹی ٹی پی کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور انہیں ہتھیار ڈالنے کیلئے راضی کرنے پر بات چیت کی گئی۔ دیکھا جائے تو  ٹی ٹی پی کے پاس بھی افغانستان میں اب وہ آزادی نہیں، جو گذشتہ کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں انہیں حاصل تھی، یہی وجہ ہے کہ وہاں سے نکلنے کی کوششوں میں یہ ایک بار پھر پاک افغان علاقوں کا رخ اور وہاں پنجے گاڑھنے کیلئے حملوں میں تیزی لا رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انٹرویو میں اس بات کے اعلان پر سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے آغاز میں ہی اس کو افشا کرنا اس عمل کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ کوشش تو یہ کرنی چاہیئے تھی کہ اگر مذاکرات ہو بھی رہے ہیں تو اس سے متعلق پہلے ماحول بنایا جاتا۔ مذاکرات کے حوالے سے جب میڈیا نے عسکری مؤقف جاننا چاہا تو سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ عام معافی مشروط ہوگی۔ ٹی ٹی پی سے منسلک کچھ نام ایسے ہیں، جنھیں معاف کرنے کے حوالے سے فوج مطمئن نہیں اور یہ کہ ان ناموں کی فہرست تیار کی جا رہی ہے، جو ایسی کسی ایمنسٹی اسکیم کا حصہ نہیں ہوں گے۔

امکان ظاہر کیا گیا ہے پاک افغان سرحدی علاقوں میں فائر بندی کا اعلان بھی انہی گروپوں کی جانب سے کیا گیا ہے، جو حکومت کیساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی بات اور فائر بندی سے یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ عمران خان نے مذاکرات کی بات کس گروپ سے اور کن شرائط پر شروع کئے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات وزیرستان میں حافظ گل بہادر گروپ کیجانب سے فائربندی کے اعلان کے بعد شروع ہوئے ہیں، جو ٹی ٹی پی سے منسلک نہیں۔ حافظ گل بہادر اپنا گروپ "شوریٰ مجاہدین شمالی وزیرستان" کے نام سے چلاتا ہے، جو زیادہ اثر نہیں رکھتا۔ اس سلسلے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ نہ تحریک گروپ بندی کا شکار ہے اور نہ ہی ہمارے حکومت کیساتھ کسی قسم کے مذاکرات چل رہے ہیں، ہماری پالیسی اجتماعی ہے اور کسی بھی تنظیم کے ساتھی کا ان سے انحراف ہونا ممکن نہیں، بامعنی مذاکرات سے متعلق ہماری پالیسی واضح ہے۔ ہماری جانب سے کوئی فائر بندی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

وزیراعظم کے نئے بیان کے ساتھ ہی ماضی کی گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے۔ طالبان کے مذاکرات کی بات پر ردعمل سے ان کا سخت نظریہ کسی اور جانب ہی اشارہ دیتا ہے۔ یاد رہے کہ  یہی مسئلہ سنہ 2014ء میں بھی پیش آیا تھا، جب سال 2014ء میں ٹی ٹی پی شرعی نظام نافذ کرنے کی بات کرتی تھی۔ طالبان کی جانب سے بنی کمیٹی میں شامل مولانا سمیع الحق، لال مسجد کے مولانا عبد العزیز اور پروفسیر ابراہیم نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی شرعی نظام کے مطالبے کے بغیر ایک فیصد بھی مذاکرات کے حق میں نہیں۔ مولانا سمیع الحق کے مطابق شرعی نظام نافذ کرنے کے بغیر شاید کچھ دھڑے مان بھی جائیں، لیکن بعض دھڑے اس کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے اور مذکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔

سوات اور وزیرستان معاہدے
ماضی میں مختلف حکومتوں کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں سے امن معاہدے اور انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے جستجو کی گئیں، جن میں تین بڑے معاہدے سوات اور وزیرستان کے ہیں، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں فریقین میں متعدد معاہدے صرف لفظوں تک رہے، یعنی وہ تحریری طور پر سامنے نہیں آئے۔ اس وقت کی حکومتوں اور دہشت گردوں کے درمیان معاہدوں کی نوعیت آج کے مقابلے میں مختلف تھی۔ ایک یہ کہ ان معاہدوں یا مذاکرات کے وقت ان علاقوں میں ریاست کی رٹ بالکل ختم ہوچکی تھی، فوج کو بھاری نقصان کا سامنا تھا، لہٰذا حکومت کی پوزیشن نہایت کمزور اور شدت پسند تنظیموں کا پلڑا بھاری تھا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ماضی کے تقریباً تمام ہی امن معاہدے ناکامی سے دوچار ہوئے اور ان کے بعد شدت پسند تنظیموں کو نہ صرف پاکستان کے مختلف علاقوں میں پھیلنے کا موقع ملا بلکہ ان تنظیموں نے دیگر علاقوں میں اپنی جڑیں بھی قائم کیں۔ نيک محمد، بيت اللہ محسود، صوفی محمد سے حکومت پاکستان نے مختلف ادوار میں امن معاہدے کئے، جو بعد ازاں ناکام ہوئے۔ سنہ 2004ء، 2006ء اور 2009ء ميں ہونے والے معاہدے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

شکئی امن معاہدہ
شکئی امن معاہدہ اپريل سنہ 2004ء ميں شدت پسند جنگجو نيک محمد کے ساتھ کیا گیا تھا۔ تاہم شرائط پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاہدہ ختم ہوا۔ پاکستان مخالف شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان یہ اپنی طرز کا پہلا معاہدہ تھا۔ یہ معاہدے پاکستان کی جانب سے پاک فوج کے جی او سی میجر جنرل صفدر حسین اور اس وقت شدت پسند تنظیم کے سربراہ 27 سالہ نیک محمد نے شکئی کے مقام پر ملاقات میں طے کیا۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ اس معاہدے سے قبل پاکستانی فوج نے اس وقت کے قبائلی علاقوں میں امریکا کے کہنے پر آپریشن شروع کیا، جب افغانستان سے القاعدہ سے منسلک غیر ملکی جنگجو وہاں منتقل ہونا شروع ہوئے۔ تاہم فوج کو آپریشن میں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا، جس کے بعد بات چیت کا فیصلہ کیا گیا۔ نیک محمد پر الزام تھا کہ ان کی پناہ میں تقریباً چار سو کے قریب غیر ملکی جنگجو تھے، جو افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کر رہے تھے۔ ان میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عرب، ازبک، چیچن، چینی اور افغان جنگجو جبکہ افغان طالبان سے منسلک افراد بھی شامل تھے۔

نیک محمد سے مذاکرات کی وجہ امریکا کی جانب سے دباؤ اور اس کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا۔ افغانستان کیلئے مسئلہ بننے والے غیر ملکی دہشت گردوں کی وجہ سے نیک محمد امریکا کی ہٹ لسٹ پر تھا، جبکہ پاکستان کیلئے نیک محمد سنہ 2003ء میں سابق صدر پرویز مشرف پر پہلے قاتلانہ حملے کی وجہ سے درد سر تھا۔ اس حملے میں نیک محمد کی شمولیت کی انٹیلی جنس رپورٹ امریکا کی خفیہ ایجنسی نے ہی پاکستانی خفیہ ایجنسی کو دی تھی۔ سی آئی اے کے اس وقت کے اسٹیشن چیف نے پاکستانی اداروں کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ ہم نے انہیں نہیں مارا تو یہ ہمیں مار دیں گے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ نیک محمد سکیورٹی اداروں کی گرفت میں نہ آسکا، جس کے بعد حکومت نے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔

معاہدہ کن شرائط پر کیا گیا
شکئی امن معاہدے کے مطابق پاکستان نے یہ شرط قبول کی کہ وہ نیک محمد کے گرفتار ساتھیوں کو رہا کرے گا، جبکہ فوجی آپریشن کے دوران ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے مقامی افراد جن میں جنگجو شامل ہیں، کو رقم دی جائے گی۔ معاہدے میں یہ بھی شامل تھا کہ شدت پسندوں کو رقم دی جائے گی، تاکہ وہ القاعدہ سے لیا گیا قرض واپس کرسکیں، جبکہ نیک محمد سے صرف یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ غیر ملکی جنگجوؤں کی تفصیل دیں گے اور افغانستان میں حملے بند کریں گے۔ معاہدے پر دستخط کے بعد نیک محمد نے غیر ملکی جنگجوؤں کو فوج کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا اور ان مقامی عمائدین کو قتل کرنا شروع کر دیا، جنھوں نے ان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی تھی۔ معاہدے میں نیک محمد کو اہمیت ملنے پر علاقے میں اس کا اثر و رسوخ بھی بڑھ گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ پہلے وہ لوگ جو نیک محمد سے نہیں ڈرتے تھے، وہ بھی خوف میں مبتلا ہوگئے۔ تاہم یہ معاہدہ زیادہ نہ چلا اور اس پر دستخط کے کچھ ہی دنوں میں ختم ہوگیا، جس کے بعد فوج نے اُسی سال جون میں فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔

نیک محمد کی ہلاکت
ان تمام تر معاہدوں کے دوران امریکی انٹیلی جنس نیک محمد کی لوکیشن سے متعلق معلومات اکٹھی کر چکی تھی۔ معاہدے کے ٹھیک ایک ماہ بعد نیک محمد کو اسی سیٹلائیٹ فون کے ذریعے ڈرون میزائل سے نشانہ بنایا گیا، جو وہ پیغام رسانی کیلئے استعمال کرتا تھا۔ امریکی ڈرون طیارے نے اسی سیٹلائیٹ فون کی کال کو ٹریس کرکے ہیل فائر نامی میزائل داغ کر ہزاروں افراد کے قاتل کا کام تمام کیا۔

وزیرستان معاہدہ
جون سنہ 2004ء ميں جنگجو نيک محمد کی ہلاکت کے بعد بيت اللہ محسود نے تحریک کی کمان سنبھالی۔ جس کے بعد 7 فروری سنہ 2006ء کو سراروغہ کے مقام پر پاک فوج اور تحریک کے درمیان امن معاہدہ ہوا، تاہم يہ معاہدہ بھی زيادہ عرصے نہ چل سکا اور بيت اللہ محسود نے تحريک طالبان پاکستان کے نام سے تنظيم بنا کر پاکستانی فورسز اور شہريوں کے خلاف کارروائياں شروع کر ديں۔ 6 شقوں پر مشتمل یہ معاہدہ بیت اللہ محسود کے ساتھ کیا گیا، جو 2 سال بعد تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بنا۔ معاہدے کے مطابق بیت اللہ محسود نے حکومتی اہلکاروں اور دفاتر پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی اور یہ بھی کہ وہ غیر ملکی شدت پسندوں کو پناہ فراہم نہیں کریں گے۔ اس کے بدلے میں ان کے لئے ساتھیوں سمیت معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔

معاہدے کا بنیادی مقصد طالبان کا شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں کی جانب پھیلاؤ روکنا تھا، مگر اس معاہدے سے بھی معاہدے کا مقصد حاصل نہ ہوسکا اور تحریک طالبان مضبوط تر ہوتی گئی اور طالبان و فوج کے درمیان جھڑپوں میں کئی گنا اضافہ ہوا، جبکہ شہری علاقوں میں بھی خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی دوران بیت اللہ محسود کی سرپرستی میں ان علاقوں میں موجود کئی گروہوں نے مل کر تحریک طالبان پاکستان ونگ کا اعلان کیا۔ پاکستانی فوج نے اس دوران آپریشن "ٹرائی اسٹار" کا آغاز کیا، جس میں پاکستان کی تمام مسلح افواج شامل تھیں۔ اس کے تسلسل میں جنوری 2008ء میں آپریشن زلزلہ کا آغاز کیا گیا۔ فوج نے بعد میں آپریشن راہ نجات جیسے آپریشنز بھی شروع کئے اور علاقے کو کلیئر کرنا شروع کیا۔ یوں دوسرا بڑا امن معاہدہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ سنہ 2007ء میں اسلام آباد میں لال مسجد واقعہ نے شدت پسندانہ سوچ کو دوام بخشا اور دہشت گردی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔

سنہ 2008ء کا معاہدہ
ایک معاہدہ سنہ 2008ء میں بھی ہوا۔ اس معاہدے کے وقت علی محمد جان اورکزئی خیبر پختونخوا کے گورنر تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب پاک افواج قبائلی اضلاع میں داخل ہوئی تھی۔ معاہدے کی ناکامی پر علی محمد جان نے استعفٰی دے دیا تھا۔ ماہرین کا خیال تھا کہ گورنر نے استعفٰی مبینہ طور پر اسی بنا پر دیا ہے کہ حکومت نے معاہدے میں شدت پسند تنظیم کے ساتھ جو وعدے کئے تھے، ان کو پورا نہیں کیا گیا اور یوں وہ معاہدہ بھی زیادہ دیر تک نہیں چلا، جبکہ حکومت کی جانب سے بھی معاہدہ ٹوٹنے کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہی آسکی۔ سنہ 2008ء میں ہی باجوڑ میں مولوی فقیر حسین کے ساتھ معاہدہ کیا گیا، مگر وہ بھی نہ چل سکا اور بالآخر فوج کو آپریشن شیردل کرنا پڑا۔

سوات معاہدہ
سنہ 2008ء میں خیبر پختونخوا میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی اتحادی حکومت قائم ہوئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ سوات کے حالات قابو میں کرنے کے لئے بات چیت کی جائے گی۔ تیسرا بڑا اور اہم امن معاہدہ مئی 2008ء میں سوات میں کیا گیا۔ جہاں شدت پسندی سنہ2001ء میں ہی سے شروع ہوچکی تھی۔ فروری 2009ء ميں سوات ميں تحريک نفاذ شريعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے ساتھ صوبائی حکومت نے امن معاہدہ کيا، مگر توقعات پوری نہ ہوسکيں۔ اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کی صوبے میں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاق میں حکومت تھی۔ وہ معاہدہ کچھ عرصے تک چلتا رہا، لیکن سوات ٹی ٹی پی جس کی قیادت اس وقت فضل اللہ کر رہے تھے، معاہدے کی خلاف ورزی کرکے سوات سے ضلع بونیر چلے گئے اور خود کو مزید مضبوط کر لیا۔

تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے ساتھ معاہدہ ٹوٹنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صوفی محمد نے پاکستان کے آئین کو ماننے سے انکار کیا تھا اور کہا کہ وہ پاکستان کے عدالتی نظام کو نہیں مانتے۔ اس معاہدے کے بعد یہ پہلا موقع تھا، جب ناکامی پر دلبرداشتہ اے این پی کی حکومت نے ٹی ٹی پی کیلئے دہشت گرد کا لفظ استعمال کیا۔ یہ معاہدہ 16 نکات پر مشتمل تھا، تاہم معاہدے کے چند دن بعد ہی ملا فضل اللہ اور صوفی محمد نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستانی فوج پہلے اس علاقے سے نکلے اور ساتھ ہی ان کے گرفتار کئے گئے ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔ حملے دوبارہ شروع ہوئے اور بالآخر فوج نے آپریشن راہ حق کا آغاز کیا۔

اس معاہدے کے بعد اس وقت کی کے پی حکومت نے ڈرامائی موڑ اختیار کیا اور فروری 2009ء میں سوات میں طالبان کا شریعت پر مبنی "نظام عدل" نافذ کرنے پر مان گئی، جس کے بعد ملا فضل اللہ نے سیز فائر کا اعلان کیا، تاہم یہ معاہدہ بھی ناکام ہوگیا۔ اس معاہدے کے بعد مینگورہ، شانگلہ اور بونیر ڈسٹرکٹ کا کنٹرول بھی سنبھالا۔ اس معاہدے کی ناکامی کے بعد پاک فوج کی جانب سے آپریشن راہ راست کا اعلان کیا گیا۔، جس کے بعد ملا فضل ساتھیوں سمیت سوات سے سابق فاٹا بھاگ نکلا۔ اس آپریشن کے دوران بھی پاک فوج کی جانب سے طالبان کے ہمراہ فوج کے خلاف لڑنے  والوں کیلئے معافی کا اعلان کیا گیا۔ یہی وہ موقع تھا، جب فوج نے ڈی ریڈیکلائزیشن مراکز قائم کیے اور ان کی نئے سرے سے تربیت کی گئی اور پروگرام کو سبونو کا نام دیا گیا۔

سنہ 2013ء
سنہ 2013ء میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کی کمان فضل اللہ کے ہاتھوں میں آئی۔ جس کے بعد ملالہ، میجر جنرل ثناء اللہ زہری اور آرمی پبلک اسکول جیسے بڑے سانحے رونما ہوئے۔ ان حملوں کے بعد افغانستان فرار ہونے کے بعد فضل اللہ کو صوبہ کنڑ میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا۔

بے نام معاہدے
یہ معاہدے عام الفاظ میں زبانی طور پر کئے گئے تھے، جس کے فریق حکومت، افواج اور تنظیمیں تھیں۔ ان معاہدوں کا مقصد کسی بھی علاقے میں اس چھوٹے گروہ کی کارروائیوں کو روکنا ہوتا تھا، تاکہ اس دوران فوج کو منصوبہ بندی کا وقت مل سکے۔ بعض اوقات ان کا مقصد ان گروہوں سے ہتھیار ڈلوانا ہوتا تھا، تاہم ان میں سے بھی بیشتر ناکام رہے۔

حافظ گل بہادر
ایسے ہی غیر تحریری معاہدوں میں سے ایک سراروغہ کی طرز پر شمالی وزیرستان میں کیا گیا۔ یہ ایک متنازعہ معاہدہ تھا، جو 2006ء میں حافظ گل بہادر کے ساتھ کیا گیا۔ گل بہادر شوریٰ مجاہدین گروپ کی سربراہی کر رہے تھے اور ان پر افغانستان میں حملوں کا الزام لگتا تھا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے اور ان کی طرح یہ بھی امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے۔ یہ انہی گروپس میں سے ایک ہیں، جن کے لئے "گڈ طالبان’" کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان نے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ پاکستانی فوج اور شہریوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ 2008ء میں بھی دوبارہ کیا گیا۔ اس معاہدے میں اہم موڑ اس وقت آیا، جب  سنہ 2014ء میں پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ حافظ گل بہادر گروپ نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معاہدہ ختم کرنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اب وہ افغانستان میں اپنی کارروائیاں روک رہے ہیں اور پہلے پاکستانی فوج سے نمٹیں گے۔

اسی طرح کا ایک اور امن معاہدہ خیبر ڈسٹرکٹ میں لشکر اسلام (منگل باغ) اور انصار الاسلام (قاضی محبوب) گروپس کے ساتھ کیا گیا۔ یہ معاہدہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور ان گروپس کے خاتمے کے لئے آپریشن صراط مستقیم شروع ہوا۔ سنہ 2014ء ميں وفاقی حکومت نے شدت پسندوں سے براہ راست مذاکرات شروع کئے۔ کئی ماہ تک بات چيت ہوتی رہی، مگر کوئی نتيجہ نہ نکلا۔ اس دوران دہشت گردوں نے اپنی کارروائياں جاری رکھيں۔ اس معاہدے سے متعلق میڈیا میں بھی دونوں جانب سے فریقین کو بڑی کوریج دی گئی۔ ان تمام تر جدوجہد کے بعد 8 جون سنہ 2014ء کو کراچی ايئرپورٹ پر حملے کے بعد فوج نے وزيرستان ميں آپريشن ضرب عضب کا آغاز کيا۔ جو بلا تفریق گڈ اور بیڈ دہشت گردوں کے فرق کے بغیر کارروائی تھی۔ تاہم دسمبر 2014ء ميں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد اس آپريشن مزيد تيزی آئی اور فروری سنہ 2017ء ميں آپريشن رد الفساد کا آغاز ہوا۔

نیشنل ایکشن پلان
دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے تحت ملک بھر میں دہشت گردی میں ملوث تنظیموں اور مسلح گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی گئیں جبکہ صوبائی سطح پر ایپکس کمٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔ تاہم اس اہم پلان میں معافی اور ہتھیار ڈالنے والے دہشت گردوں سے متعلق کوئی حکمت عملی یا پلان شامل نہ تھا۔ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں کئی دہشت گرد اور شدت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل تو کیا گیا، مگر اس حوالے  سے حکومت کے پاس کوئی پالیسی موجود نہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں کے قتل عام کے بعد دہشت گردی کے خلاف جس نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاق رائے قائم ہوا تھا، اب اُسی قومی مینڈیٹ کے برعکس ایک بار پھر حکومت دہشت گردوں سے مذاکرات کیلئے جت گئی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات
01) سزا یافتہ دہشت گردوں کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
02) دو سال کے لئے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
03) سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت عسکریت پسند گروہوں کے عسکری و مسلح ونگز کا خاتمہ کیا جائے گا۔
04) نیکٹا کو مضبوط و مؤثر بنایا جائے گا۔
05) انتہاء پسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کی تشہیر کرنے والی نفرت انگیز تقاریر و مواد کے خلاف مکمل کارروائی کی جائے گی۔
06) دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظمیوں کی مالی امداد روکنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔
07) کالعدم تنظیموں کو کسی دوسرے نام سے بھی کام کرنے سے روکا جائے گا۔
08) مذہبی منافرت پھیلانے کے خلاف سخت اقدامات اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
09) خصوصی انسدادِ دہشت گردی فورس کا قیام اور تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔
10) دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کا اہتمام کیا جائے گا۔

11) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پردہشت گرد تنظیموں اور ان کے نظریات کی تشہیر پر مکمل پابندی ہوگی۔
12) فاٹا میں انتظامی و ترقیاتی اصلاحات کی جائیں گی، آئی ڈی پیز (بےگھر افراد) کی واپسی پر توجہ دی جائے گی۔
13) دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کو ختم کیا جائے گا۔
14) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشتگردوں اور اُن کے نظریات کے فروغ پر مکمل پابندی عائد کی جائے گی۔
15) پنجاب بھر میں عسکریت پسندی ناقابل برداشت ہوگی۔
16) کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
17) بلوچستان حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز سے سیاسی مفاہمت کا اختیار دیا جائے گا۔
18) فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔
19) فوجداری نظام میں تبدیلیاں اور اصلاحات کا عمل تیز کیا جائے گا۔
20) افغان پناہ گزینوں کے معاملے سے نمٹنے کیلئے جامع پالیسی مرتب دی جائے گی اور اس کیلئے سب سے پہلے افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا جائے گا۔

اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو دہشت گردوں کے خلاف 6 آپریشنز میں 1400 ارب روپے استعمال ہوئے۔ گذشتہ 3 ماہ کے دوران سکیورٹی فورسز پر 22 حملے کئے گئے۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ چند ہفتوں کے وقفے میں یہ تیسرا موقع تھا، جب کسی بڑے حکومتی عہدے دار کی جانب سے ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کی بات کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی نے نجی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں تحریک طالبان پاکستان کو مشروط معافی دیئے جانے کے بیان کے جواب میں کہا تھا کہ معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے اور ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔

صدر مملکت بھی عام معافی دینے پر متفق
صرف وزیراعظم عمران خان ہی نہیں بلکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی دہشت گردوں کو معاف کرنے کا عندیہ دے چکے تھے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ایک نجی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے لوگ اگر ہتھیار ڈال کر پاکستان کے آئین کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، تو پاکستان بھی سوچے گا کہ ان کو ایمنسٹی دے یا نہ دیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی والا نظریہ چھوڑ کر اگر یہ لوگ پاکستان کے آئین کی پابندی کرتے ہیں تو حکومت سوچ سکتی ہے، کوئی معافی کا اعلان کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کے برعکس کمزور پوزیشن پر موجود پاکستانی طالبان معافی مانگ کر ہتھیار پھینک دینگے؟ کیا وہ بغیر کسی شرط کے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے بغیر مذاکرات کی میز پر آئیں گے؟ یا معاملہ کوئی اور ہی کروٹ لے گا۔
خبر کا کوڈ : 957547
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش