0
Friday 8 Oct 2021 09:02

مومن از عشق است و عشق از مومن است

مومن از عشق است و عشق از مومن است
تحریر: سویرا بتول

عشقِ الہیٰ کا فلسفہ نظامِ فکر کی بنیاد ہے۔ عقل سے کاٸنات کو تسخیر کیا جاسکتا ہے، مگر لامکاں کی تسخیر کے لیے عشق درکار ہے، ایسا عشق جو شہداء نے خدا سے کیا، شب کی تاریکیوں میں، محاذ کے تپتے صحراٶں میں *العفو* کی بلند ہوتی صداٶں میں، جہاں صحرا کی جھلستی ہوٸی دھوپ اور سیدہ کی محبت کے سوإ کوٸی دوسرا نہ تھا۔ شہداء نے عشق کے مفہوم کو بڑے وسیع معنوں میں نہ صرف استعمال کیا بلکہ عملاً عشق کی منازل کو عبور کرکے دکھایا اور اسے تخلیقی جذبہ اور قوتِ ایمانی کا سرچشمہ قراد دیا۔ یہ عشق کا جذبہ ہی ہے کہ جس سے انسان میں سوز و درد پیدا ہوتا ہے اور اسی سے زندگی میں جستجو اور تب و تاب پیدا ہوتی ہے، جو نئے جہاں پیدا کرنے کے لیے انسان کو مضطرب رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عاشقانِ خدا اپنے معشوق کے عشق میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کو اصل حیات سے تعبیر کرتے ہیں۔ عقل ایک حد تک ہی انسان کی رہنمائی کرسکتی ہے، کیونکہ وہ محدود ہے جبکہ عشق شک و شبہ سے نکال کر اشیاء کی باطنی حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔ خدا کے حضور ہر وقت دعا کریں کہ ہم تجھے عقل سے نہیں بلکہ عشق سے سمجھنا چاہتے ہیں۔ خدا سے دعا کریں کہ ہمیں پرواز کرنا سیکھا، تاکہ تیری بارگاہ میں اڑ کر پہنچ جاٸیں، ہمارے سینوں کو کشادہ کر تاکہ اُس آفاقی دنیا کے اسرار و رموز کو درک کرسکیں اور اپنے شہداء کے خون کو ہماری رگوں میں جاری کر تاکہ زندگی کی ہوس نہ کریں۔

بعض احباب نادانستگی میں بسا اوقات یہ کہتے دکھاٸی دیتے ہیں کہ شہداء زندگی سے بیزار تھے، دنیا کی زرق برق سے ہر وقت نالاں رہتے تھے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ہزگز گمان مت آنے دیجیے کہ شہداء زندگی سے بیزار تھے بلکہ انہوں نے دنیا سے دل نہیں لگایا جبکہ ہم دنیا کے دلدادہ لوگ ہیں، ہمیں دنیا کی رنگینیاں بھی چاہیئے اور شہادت بھی۔۔!!! شہادت اصل میں ہے کیا؟ یعنی انسان زندگی بسر کرے، اپنے واجبات اور فراٸض کو انجام دے فقط خدا کے لیے۔ شہادت یعنی اگر خدا کی راہ میں جان دینا چاہتے ہو تو خدا کے لیے زندگی گزارو۔ شہداٸے کربلا موت کی طرف رغبت کیوں رکھتے تھے۔؟

یہاں تک کہ امام عالی مقام فرماتے ہیں کہ جیسے اصحاب مجھے ملے، ویسے نہ میرے نانا رسولِ خداﷺ کو ملے اور نہ بابا اور بھاٸی حسن علیہ السلام کو۔ یہی سوال صادق آلِ محمد سے پوچھا گیا کہ مولا امام حسین علیہ السلام کے اصحاب موت کو یقینی سمجھتے ہوٸے پھر بھی اُس کی طرف بڑھتے جا رہے تھے تو ایسا کیوں تھا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیونکہ شبِ عاشور کے خطبے کے بعد اِن کے سامنے سے پردے اٹھ گٸے تھے اور وہ خود جنت کے نظاروں کو دیکھ رہے تھے، وہ اپنی منزلِ مقصود کی طرف اقدام کر رہے تھے اور جنت اِن کے نزدیک ہوتی جا رہی تھی۔ اس وجہ سے Carlyle نے Tragedy of Karbala میں لکھا:
The Campanions of Hussain were so braveand courageous that they defeated the death indeed.

یہی بات جب ہم مدافعینِ حرم کے حوالے سے کرتے ہیں تو یقین نہیں کیا جاتا، وہ جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ سیدہ کے حرم کی حفاظت کے لیے پیش کیا، وہ اپنے ہدف سے آگاہ تھے، جانتے تھے کہ یہاں شہادت حتمی ہے۔ شہادت اتفاق نہیں انتخاب ہے، ایک آگاہانہ انتخاب کہ اگر وقت کے حسین علیہ السلام کو خون کا نذرانہ پیش کرنے کا موقع ملے تو قدم ڈگمگائیں نہیں بلکہ کامل یقین کیساتھ میدانِ عمل میں اتریں۔ شہادت یعنی عشق اور عشق ہر ایک کو نہیں ملتا۔ شہادت یعنی معراجِ مومن، کچھ جوان خود شہادت کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ خوش نصیب ہیں وہ جوان کہ جن کا شہادت خود انتخاب کرتی ہے۔ ہم خود سے سوال پوچھیں کہ اگر آج وقت کے یزید کے خلاف قیام کرنے کا موقع ملے تو کیا ہم نصرتِ امام کے لیے تیار ہیں؟ کیا ظہور کے اُس عظیم معرکے کے لیے خود کو آمادہ کر رہے ہیں کہ جس کے لیے خدا کی معشیت انتظار کر رہی ہے؟ امامِ وقت (عج) راستے میں ہیں، کیا ہم تیار ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 957716
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش