QR CodeQR Code

ہجرت

9 Oct 2021 00:15

اسلام ٹائمز: ہجرت کی بات کی جائے تو لوگ ایسا رویہ اپناتے ہیں، گویا اسلام کا یہ حکم عقل و منطق کے منافی ہے، غیر منصفانہ ہے۔ میرے عزیز ایسی بات نہیں ہے، کائنات میں غور تو کر، تو اکیلا نہیں ہے، کچھ ہوا میں، کچھ صحراوں میں، کچھ دریاوں، سمندروں میں، تجھے ہجرت کرتے نظر آئیں گے۔ کتنی ہی مچھلیاں، کتنے ہی پرندے، قطب شمال سے قطب جنوب کی طرف ہجرت کرتے ہیں، 18 ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں، مان لیا کہ کچھ غذا کیلئے، مان لیا کہ کچھ انڈے دینے کیلئے، مان لیا کہ کچھ زندگی بچانے کیلئے، مان لیا کہ کچھ سیاح ہیں، سیر و تفریح کیلئے طویل سفر طے کرتے ہیں، لیکن اتنا تو سمجھا جاتے ہیں کہ جب ہم حیات مادی کیلئے اتنا سفر کرتے ہیں تو تو اے انسان حیات معنوی کیلئے ہجرت کیوں نہیں کرتا۔ تو اپنے رب کے دین کیلئے ہجرت سے کیوں انکار کر رہا ہے۔


تحریر: سید توکل حسین شاہ

جب کوئي بندہ خدا کے لئے ہجرت کرتا ہے اور اس کی ہجرت فی سبیل اللہ کی شرط کے ساتھ ہوتی ہے تو پھر خداوند اس کو اس ہجرت کے طفیل دنیا میں بھی انعام سے نوازتا ہے اور آخرت میں بھی کامیابی و کامرانی عطا فرماتا ہے۔ رسول اکرم (ص) محو ہجرت ہیں، آج میرا دل چاہتا ہے وہ آثار بیان کروں، جو آیات و روایات میں ایک مہاجر کے لئے ذکر ہوئے ہیں۔ بہت سارے ایسے لوگ ہوتے ہیں، جن کی ہجرت اقتصادی و مالی، سیاسی و دنیاوی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔ آج بہت سارے لوگ دیار کفر کی طرف ہجرت کرتے ہیں، جن میں سے اکثر و بیشتر تلاش رزق کے لئے جاتے ہیں۔ اسلام میں رزق حلال کے لئے کوشش کرنا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ جائیں لیکن اسلامی تعلیمات کا خیال رکھیں، اسلام کا پیغام پھیلائیں، اسلام کے سفیر بنیں، آپ کی ذمہ داری دوسرے لوگوں سے زیادہ سنگین ہے۔

کتنے ہی دوستان ہیں، جو مولوی نہیں، مبلغ اسلام نہیں، لیکن دو عظیم کام کر رہے ہیں۔ وہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو اہل بیت (ع) کے در پر لے کر آرہے ہیں، یا پھر اہل بیت (ع) کا پیغام دنیا تک پہنچا رہے ہیں یا پھر اپنی کمائی سے خاطر خواہ رقوم اہل بیت (ع) کے مشن کے لئے صرف کرتے ہیں۔ ان کے تعاون سے کتنے ہی مذہبی ادارے، مساجد، مدارس، امام بارگاہیں، وقوف چل رہے ہیں، وہ بھی اس تعاون کو اپنے لئے بوجھ مت سمجھیں بلکہ یہ سنت جناب خدیجہ (س) ہے۔ خدا کائنات فرماتا ہے:
"وَ مَنْ يُهاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُراغَماً كَثِيراً وَ سَعَةً وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَ كانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً" "جو بھی راہ خدا میں ہجرت کرے گا، وہ زمین میں بہت ساری پناہ گاہیں اور وسعت پائے گا، جو بھی اپنے گھر سے اللہ اور رسول (ص) کی طرف نکلے گا، یعنی ہجرت کرے گا، پھر چاہے اسے موت بھی آجائے، اس کا اجر خدا کے ذمہ ہے، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"

پہلی بات 
یہ آیت مسئلہ ہجرت کو کسی زمان یا مکان میں محدود نہیں کرتی بلکہ یہ بیان کرتی ہے کہ یہ ایک دائم تکلیف شرعی ہے، ایک مسلم واجب ہے۔ ہجرت کے معاملے میں دو طرح کی مشکلات، ایک وہ زمانہ تھا، جب ہجرت کرنے میں مشکلات تھیں، موانع، مالی و فکری، بدنی مشکلات، جن کی وجہ سے ہجرت نہیں کرسکتے تھے، آج معاملہ الٹا ہے، آج دار الایمان میں رہنا مشکل ہوگیا ہے، اس لئے در الکفر کی طرف ہجرت ہو رہی ہے اور جو مشکلات اس راستے میں آتی ہیں، ان کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر نوش کیا جاتا ہے۔ جی اب رہا نہیں جاتا، کئی یہ کفر کی چال تو نہیں جو مسلمان سب کچھ چھوڑ کر دیار ایمان کی طرف پا پیادہ چلا تھا، آج سب کچھ بیچ رہا ہے، بیوی کا زیور، ماں کے گہنے، اجداد کی اراضی، تاکہ دیار کفر تک پہنچ سکے۔

کہیں یہ شیطان کا بچھایا ہوا رنگین جال تو نہیں، جو چھوڑ کر گیا ہے، وہ سب کچھ چھوڑ کر کفر کے سایہ میں سکون کا متلاشی ہو جائے۔ کبھی اس طرف بھی توجہ ہونی چاہیئے، کون ذمہ دار ہے، حاکم یا کلمہ گو، ایک کلمہ گو اپنی خواہشات کے راستے میں نواسہ رسول (ص) کو حائل دیکھ  رہا تھا، تو اس نے شہر رے کے سنہرے خوشوں تک پہنچنے کے لئے ان کو قتل کر ڈالا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری یہ ہجرت ہمیں مرگ ایمانی تک نہ لے جائے، ہمیشہ ایمان کی طرف ہجرت کرو، جہان بھی جاو، تمہارے ایمان میں اضافہ ہو۔

دوسری بات
 مُراغَماً یہ رغام سے ہے، کلام کے وزن پر، علم صرف کے اعتبار سے اسم مکان اور اسم مفعول دونوں کا صیغہ ہوسکتا ہے، لیکن یہاں اسم مکان کے معنی میں ہے۔ اس حساب سے ترجمہ کچھ یوں ہوگا، جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرتا ہے، اللہ اس کو وہ مکان عطا فرماتا ہے، جس میں وہ حق کا اجراء کرتا ہے اور جو حق کی مخالفت کرتا ہے، اس کی ناک زمین پر رگڑ دیتا ہے۔(تفسیر نمونہ جلد۴ص۸۹)

تیسری بات 
یہاں میں ایک نقطہ اور ضرور بیان کرنا چاہوں گاو جو ہمارے معاشرے میں افراط کا باعث بن رہا ہے، کیسا افراط؟ وطن، زادگاہ کی نسبت افراط، وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہےو لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ آپ وطن کی محبت، جنم بھومی سے لگاو کو بہانہ بنا کر اسلام کے ارکان کو پس پشت ڈال دو۔ بات اسلام کی آجائے، حکم اللہ کا آجائے، پھر وطن چاہے مکہ کیوں نہ ہو، جس کی خدا نے قسمیں کھائی ہوں، رسول (ص) کو چھوڑنا پڑتا ہے، تو بہانہ نہ بنا، وطن ہے، اپنی مٹی ہے، کیسے ہجرت کرتے؟ کیسے اپنا وطن چھوڑتے؟ جیسے رسول خدا (ص) اور امام حسین (ع) نے وطن چھوڑا، مولا (ع) نے نہیں فرمایا کہ میرا وطن ہے، میری ماں کی قبر ہے، میرے بھائی کی تربت ہے، بلکہ فرمایا اسلام پر مشکل ہے، میں کیسے رہوں۔

ہجرت کی بات کی جائے تو لوگ ایسا رویہ اپناتے ہیں، گویا اسلام کا یہ حکم عقل و منطق کے منافی ہے، غیر منصفانہ ہے۔ میرے عزیز ایسی بات نہیں ہے، کائنات میں غور تو کر، تو اکیلا نہیں ہے، کچھ ہوا میں، کچھ صحراوں میں، کچھ دریاوں، سمندروں میں، تجھے ہجرت کرتے نظر آئیں گے۔ کتنی ہی مچھلیاں، کتنے ہی پرندے، قطب شمال سے قطب جنوب کی طرف ہجرت کرتے ہیں، 18 ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں، مان لیا کہ کچھ غذا کے لئے، مان لیا کہ کچھ انڈے دینے کے لئے، مان لیا کہ کچھ زندگی بچانے کے لئے، مان لیا کہ کچھ سیاح ہیں، سیر و تفریح کے لئے طویل سفر طے کرتے ہیں، لیکن اتنا تو سمجھا جاتے ہیں کہ جب ہم حیات مادی کے لئے اتنا سفر کرتے ہیں تو تو اے انسان حیات معنوی کے لئے ہجرت کیوں نہیں کرتا۔ تو اپنے رب کے دین کے لئے ہجرت سے کیوں انکار کر رہا ہے۔

چوتھی بات
میں جوامع التفسیر میں پڑھ رہا تھا، بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ جب رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے گریزاں مکہ کے مسلمین کے لئے یہ آیات بیان فرمائیں تو صحابی رسول (ص) حضرت جندب بن ضمرہ (رض) جو بنی لیث سے تعلق رکھتے تھے، بہت بوڑھے، ضعیف و ناتوان تھے، مرکب پر بھی سوار نہیں ہوسکتے تھے۔ بیٹوں سے کہنے لگے، اک تخت روان بناو اور مجھے مدینہ لے چلو، ان آیات کے بعد میں مستضعفین میں سے نہیں ہونا چاہتا، ایک رات بھی مکہ میں نہیں گزاری، بیٹوں نے تخت پر سوار کیا، مکہ سے نکلے ابھی تنعیم (مکہ کے قریب ہی ایک منطقہ ہے)  تک ہی پہنچے تھے، سانس ٹوٹنے لگی، ایک عجیب عمل کیا اس بوڑھے صحابی  نے، کاش یہ عمل ہر مومن کو آخری وقت نصیب ہو، وہ ہاتھ جس سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی تھی، سینے پر رکھا، عرض کرنے لگے یااللہ تیری بھی بیعت کرتا ہوں۔(تفسير حكيم، ج‏9، ص:52)

صحابی نے مکہ سے ہجرت کی، مقام تنعیم پر پہنچے، مقصد مدینہ تھا، موت نے اس عاشق کے قدم تھام لئے، دونوں طرف خبر گئی، دونوں طرف سے اظہار رائے ہوا،
مکہ والے خندان ہوئے، مسخرہ کرنے لگے، بوڑھا اپنی خواہش کو نہ پہنچا۔ ادھر کسی مسلمان نے کہا کہ اگر مدینے میں مرتا ثواب تو پورا پا لیتا، اللہ نے آیت نازل فرما دی، دو گروپوں کو جواب دے دیا: وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ "جو بندہ اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول (ص) کے لئے مہاجر بن کر نکل آئےو پھر اس کو موت آجائے فقد وقع اجرہ علی اللہ  اس کا اجر اللہ پر ہے۔"


خبر کا کوڈ: 957820

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/957820/ہجرت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org