1
0
Tuesday 12 Oct 2021 21:56

نبی اکرم ؐ پر اعتراضات کے جوابات

نبی اکرم ؐ پر اعتراضات کے جوابات
تحریر: حیدر علی ڈومکی

تحقیقی دنیا میں علمی استدلال سے بہتر کوئی دوسرا ہتھیار نہیں۔ امت مسلمہ کو جذبات کی بجائے درست معلومات اور منطقی لب و لہجے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ نبی اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کی ذات اقدس ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ تاہم یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہم کردار میں بھی اور تعلیم و تحقیق میں بھی اس ذاتِ مبارک سے کوسوں دور ہیں۔ زیرِ نظر مضمون اس زاویئے سے لکھا گیا ہے کہ نبی اکرم ؐ پر کئے جانے والے کچھ اعتراضات اور شکوک و شبہات کے جوابات مدلل انداز میں دیئے جائیں۔ سب سے پہلے ہم اس شبہے کا جائزہ لیتے ہیں، جس کی رو سے نعوذ باللہ نبی اکرمؐ کو ایک ان پڑھ آدمی باور کیا جاتا ہے۔

۱۔ پیغمبر اکرم ؐ کا اُمّی یعنی ان پڑھ ہونا
”اُمّی“ کے معنی میں تین مشہور احتمال پائے جاتے ہیں: پہلا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے سبق نہ پڑھا ہو، دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”اُمّی“ یعنی جس کی جائے پیدائش مکہ ہو اور مکہ میں ظاہر ہوا ہو۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ ”اُمّی“ یعنی جس نے قوم اور امت کے درمیان قیام کیا ہو، لیکن سب سے زیادہ مشہور و معروف پہلے معنی ہیں، جو استعمال کے موارد سے بھی ہم آہنگ ہیں اور ممکن ہے کہ تینوں معنی باہم مراد ہوں۔ اس  میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ”پیغمبر اکرم (ص) کسی مکتب اور مدرسے میں نہیں گئے“ اور قرآن کریم نے بھی بعثت سے پہلے آنحضرت (ص) کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے: ”اور اے پیغمبر! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے، ورنہ یہ اہل باطل شبہ میں پڑ جاتے۔“

یہ بات حقیقت ہے کہ اس وقت پورے حجاز میں پڑھے لکھے لوگ اتنے کم تھے کہ ان کی تعداد انگشت شمار تھی اور سبھی ان کو جانتے تھے، مکہ میں جو حجاز کا مرکز شمار کیا جاتا تھا، لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد 17 سے  زیادہ نہیں تھی اور عورتوں میں صرف ایک عورت پڑھی لکھی تھی۔(1) ایسے ماحول میں اگر پیغمبر اکرم (ص) نے کسی استاد سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو یقینی طور پر یہ بات مشہور ہو جاتی۔ بالفرض اگر (نعوذ باللہ) آنحضرت (ص) کی نبوت کو قبول نہ کریں، تو پھر آپ اپنی کتاب میں اس موضوع کی نفی کیسے کرسکتے تھے؟ کیا لوگ اعتراض نہ کرتے کہ تم نے تعلیم حاصل کی ہے، لہٰذا یہ بہترین شاہد ہے کہ آپ نے کسی کے پاس تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ بہرحال پیغمبر اکرم (ص) میں اس صفت کا ہونا نبوت کے اثبات کے لئے زیادہ بہتر ہے، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس شخص نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو، وہ اس طرح کی عمدہ گفتگو کرتا ہے، جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آنحضرت (ص) کا خداوند عالم اور عالم ماوراء طبیعت سے واقعاً رابطہ ہے۔

آنحضرت (ص) کی بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعد آپ نے کسی کے پاس لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔  لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ آپ اولِ عمر سے آخر ِعمر تک اسی ”اُمّی“  صفت پر باقی رہے۔ لیکن یہاں پر سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے، جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ تعلیم حاصل نہ کرنے کے معنی جاہل ہونا نہیں ہے اور جو لوگ لفظ ”اُمّی“ کے جاہل معنی کرتے ہیں، وہ اس فرق کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔ اس بات میں کوئی مانع نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) تعلیم الہیٰ کے ذریعے ”پڑھنا“ یا ”پڑھنا   اور لکھنا“ جانتے ہوں، بغیر اس کے کہ کسی انسان کے پاس تعلیم حاصل کی ہو، بے شک اس طرح کی معلومات انسانی کمالات میں سے ہیں اور مقام نبوت کے لئے ضروری ہیں2۔ بہت ساری روایات اس بات پر بہترین شاہد ہیں کہ جن سے پیغمبر اکرم  (ص) کی لکھنے پڑھنے کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔(1)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کی طاقت کوئی کمال محسوب نہیں ہوتی، بلکہ یہ دونوں علمی کمالات تک پہنچنے کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں، نہ کہ علم واقعی اور کمال حقیقی۔ ان  کا جواب بھی انہی کی بات میں مخفی ہے، کیونکہ کمالات کے وسائل سے آگاہی رکھنا خود ایک واضح کمال ہے۔ لیکن جیسا کہ بعض لوگوں کا تصور ہے، جس طرح کہ سورہ جمعہ میں بیان ہوا ہے: <یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ>(3) یا اس کے مانند دوسری آیات، اس بات کی دلیل ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کے سامنے لکھی ہوئی کتاب (قرآن) سے پڑھتے تھے، یہ بھی ایک غلط فہمی ہے، کیونکہ تلاوت کے معنی لکھی ہوئی کتاب پڑھنا بھی ہیں اور زبانی طور پر پڑھنا بھی، جو لوگ قرآن، اشعار یا دعاؤں کو زبانی پڑھتے ہیں، ان پر بھی تلاوت کا اطلاق بہت زیادہ ہوتا ہے۔

۲۔ معراج اور مقصدِ معراج میں اختلاف
علمائے اسلام کے درمیان مشہور ہے کہ رسول اسلام کو عالم بیداری میں معراج ہوئی، چنانچہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی آیات کا ظاہری مفہوم بھی اس بات پر گواہ ہے کہ بیداری کی حالت میں معراج ہوئی۔ جس وقت رسول اللہ نے واقعہٴ معراج کو بیان کیا تو مشرکین نے شدت کے ساتھ اس کا انکار کر دیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بہانہ بنا لیا۔ یہ بات خود اس چیز پر گواہ ہے کہ رسول اللہ (ص) ہرگز خواب یا روحانی معراج کے مدعی نہ تھے، ورنہ مخالفین اتنا شور و غل نہ کرتے۔

معراج کا مقصد
یہ بات ہمارے لئے واضح ہے کہ معراج کا مقصد یہ نہیں کہ رسول اکرم دیدار خدا کے لئے آسمانوں پر جائیں، جیسا کہ سادہ لوح افراد خیال کرتے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مغربی دانشور بھی ناآگاہی کی بنا پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ہیں، جن میں سے ایک مسڑ ”گیور گیو“ بھی ہیں، وہ بھی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ہیں، جنہیں پھر سے پہچاننا چاہئے۔“(7) میں کہتے ہیں: ”محمد اپنے سفرِ معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انہیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی، انہوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حساب کتاب میں مشغول ہے، البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سنتے تھے، مگر انہیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا، کیونکہ کوئی شخص خدا کو نہیں دیکھ سکتا، خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں۔“ یہ عبارت نشاندہی کرتی ہے کہ وہ قلم لکڑی کا تھا اور وہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتا تھا اور اس سے آواز پیدا ہوتی تھی اور اسی طرح کی اور بہت سے خرافات اس میں موجود ہیں۔“

جبکہ مقصدِ معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر ؐ، عالم بالا میں موجود عظمت الہیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت و رہبری کے لئے ایک نیا احساس اور ایک نئی بصیرت حاصل کریں۔ معراج کا ہدف واضح طور پر سورہٴ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہٴ نجم کی آیت ۱۸ میں بیان ہوا ہے۔ اس سلسلے میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”خدا ہرگز کوئی مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتا ہے، لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باشندوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپ کی زیارت کا شرف عطا کرے، نیز آپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے، تاکہ واپس آکر ان کو لوگوں کے سامنے بیان کریں۔“(9)

۳۔ شق الصدر کا واقعہ
تاریخی شواہد کی رو سے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی معجزہ نما کرامات و حوادث سے عبارت تھی۔ اس کے باوجود بعض مورخین نے ایسے حوادث و واقعات کو پیغمبرؐ سے منسوب کیا ہے کہ جن سے آنحضورؐ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے اور آپؐ کی عصمت اور عظمت پر اعتراضات پیدا ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں سے ایک ’’شق الصدر‘‘ کی داستان ہے۔ بعض سیرت نگاروں اور محدثین نے اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے کچھ افسانوی مطالب کو پیغمبرؐ کی طرف نسبت دی ہے کہ جو نبی اعظمؐ کی شخصیت و عصمت کے ساتھ متعارض ہیں۔ یہاں تک کہ بعض کتابوں میں پیغمبرؐ کی زندگی میں اس واقعے کے تکرار کا ذکر بھی ملتا ہے، جیسا کہ حلبی نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ بعض افراد کی رو سے رسول خداؐ 4 یا 5 سال کے تھے کہ آپؐ کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جو شق صدر کے نام سے معروف ہے۔ ان افراد نے حضرت حلیمہ سعدیہؓ سے نقل کیا ہے کہ جب میں دوسری مرتبہ حضرت محمدؐ کو اپنے قبیلے میں لے گئی تو ایک دن آپؐ دوسرے بچوں کے ساتھ خیموں کے پیچھے چلے گئے، اچانک ان کا رضاعی بھائی حیران و پریشان ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا: ہمارے قریشی بھائی کی مدد کرو کیونکہ دو سفید پوش مردوں نے اسے پکڑ کر لٹایا، پھر اس کے سینے کو چیر کر اس میں سے ایک چیز نکال لی ہے۔

حلیمہ کہتی ہیں: میں اپنے شوہر کے ہمراہ چل پڑی، بچے کو صحرا میں ایک جگہ پر اس حالت میں پایا کہ اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ مضطرب و خوفزدہ تھا۔ بے اختیار اسے آغوش میں لیا اور اس سے پوچھا: بیٹا! تجھے کیا ہوا ہے؟! اس نے کہا: دو سفید پوش مرد میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے لٹا کر میرا سینہ چیرا پھر میرے دل کو نکالا اور اس میں سے ایک سیاہ غدود کو کھینچ کر نکال دیا، پھر اسے سنہری طشت میں دھو کر دوبارہ اپنی جگہ پر لگا دیا۔[10] بعض لوگوں نے اس داستان کو مختلف بیانات کے ساتھ نقل کیا ہے اور اسے پیغمبرؐ کے فضائل و کرامات میں سے شمار کیا ہے۔ (11) حلیمہ اس واقعے سے سخت پریشان ہوئیں اور بعض افراد کے بقول وہ آنحضورؐ کو آپؐ کی والدہ اور دادا کے پاس واپس چھوڑ آئیں۔(12) بعض افراد نے اس واقعے کی تائید میں سورہ الم نشرح کی آیات سے تمسک کیا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اَ لَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک‌ • وَ وَضَعْنا عَنْکَ وِزْرَک‌؛(13)(14) کیا ہم نے آپ کا سینہ کشادہ نہیں کیا اور کیا ہم نے آپ کا بوجھ نہیں اتارا۔

داستان کا پس منظر
یہ داستان صحیح بخاری و مسلم سمیت کچھ کتب میں موجود ہے۔
1۔ بخاری نے صحیح میں ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ: آدم کی اولاد کا کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ شیطان ولادت کے وقت اسے مس کرتا ہے، سوائے مریم اور ان کے فرزند کے۔(15)
2۔ صحیح مسلم میں ہے: اولاد آدم میں سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر یہ کہ شیطان کے ڈنگ مارنے سے گریہ کرتا ہے۔(16)
3۔ کچھ تفاسیر میں آیت ’’اِنِّی اُعیذُها بِکَ وَ ذُرِّیَّتَها مِنَ الشَّیْطانِ‘‘(17) کے ذیل میں عیسیؑ کے سوا باقی اولاد آدم کو مس کرنے کے بارے میں کچھ مطالب نقل ہوئے ہیں۔(18)(19)

آیات کے ساتھ تناقض
اس مضمون کی روایات قرآنی آیات کے محکمات سے ٹکراتی ہیں۔ قرآنی آیات کے اصول و محکمات میں سے ایک یہ ہے کہ شیطان کا خدا کے مخلص بندوں پر کوئی زور نہیں ہے۔ مگر بعض حدیثی و تفسیری منابع میں ایسی روایات موجود ہیں کہ شیطان تمام اولاد آدم کو مس کرتا ہے اور شیطان کا ان سب میں حصہ ہے۔ وہ غدود یا خون کا لوتھڑا جو ان روایات کی بنیاد پر پیغمبرؐ کے قلب میں تھا؛ درحقیقت شیطان کے مس کا اثر تھا اور نعوذ باللہ پیغمبرؐ کے قلب میں بھی شیطان کا حصہ تھا۔(20) کچھ افراد اس قبیل کی ضعیف روایات پر یقین رکھتے ہیں، حالانکہ یہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے ٹکراتی ہیں کہ جن میں پیغمبروں اور اولیائے الٰہی کے قلوب پر شیطان کے ہر طرح کے تسلط اور نفوذ کی نفی کی گئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: «ان عبادی لیس لک علیهم سلطان» (21)(22) ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے: انه لیس له سلطان علی الذین آمنوا و علی ربهم یتوکلون (نحل/سوره۱۶، آیه۹۹۔ 23) اور آیت و لاغوینهم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین» (24 فجر/سوره۸۹، آیه۴۰۔) معاصر محقق اور عالم ابوریہ کتاب ’’اضواء عـلی‌ السـنه‌ المـحمودیه‘‘ میں لمس شیطان اور شق صدر کی روایات کے قرآنی آیات کے ساتھ تناقض کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’یہ لوگ کس طرح کتاب خدا کو سنت ظنیہ کہ جو مفیدِ ظن ہے؛ کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ (25)

علماء کی آراء
بہت سے قدما نے ان روایات کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے اس ماجرے کا بالکل ذکر نہیں کیا؛ جیسے شیخ مفیدؒ، شیخ صدوقؒ، کلینیؒ اور ۔۔۔ دوسری جانب بعض علماء نے اس واقعے کو رد کیا ہے؛ جیسے مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں واقعہ معراج کے ضمن میں فرمایا ہے: یہ روایت کہ آنحضرتؐ کا سینہ چیرا گیا اور قلب کو دھویا گیا؛ اس کا ظاہر درست نہیں ہے اور یہ قابل تاویل بھی نہیں ہے، مگر بڑی مشقت کے ساتھ؛ کیونکہ آنحضرتؐ ہر بدی اور عیب سے پاک و پاکیزہ تھے تو پھر کس طرح آپؐ کے دلی عقائد کو پانی کے ساتھ غسل دیا گیا؟![(26) معاصر مفکر علامہ جعفر مرتضیٰ نے بھی اس واقعے کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور اس کی بنیاد کتاب الاغانی میں منقول زمانہ جاہلیت کی ایک داستان کو قرار دیا ہے۔(27) ابوالفرج اصفہانی نے زہری سے نقل کیا ہے: دخل یـوما‌ امـیه بـن ابـی الصـلت علی اخته ۔۔۔ فادر‌کـه‌ النـوم ۔۔۔ و اذا بطائرین قد وقع احدهما علی صدره و وقف الاخر مکانه فشق الواقع صدره فاخرج قلبه فشقه۔۔۔» (28)

علامہ مجلسیؒ نے بحار کی پندرہویں جلد میں اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے: هذا الخـبر ان لم یـعتمد علیه کثیر لکونه‌ من‌ طریق المخالفین انـّما اوردتـه لمـا فـیه مـن الغـرائب التی لا تابی عنها‌ العقول‌ و لذکره فی مؤلفات اصحابنا؛ شق الصدر کی روایات مخالفین کے طریق سے نقل ہوئی ہیں اور علماء کی اکثریت ان پر اعتماد نہیں کرتی، مگر میں نے دو نکتوں کی وجہ سے انہیں ذکر کیا ہے: الف) اگرچہ شق الصدر کی روایات پیغمبرؐ کی شخصیت کے بارے میں عجیب و غریب حوادث کو بیان کرتی ہیں، مگر عقل ان کا انکار نہیں کرتی ہے۔ ب) بعض مؤلفین نے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔(29) بطور مثال اس داستان کو مرحوم ابن شہر آشوب نے مختلف انداز سے نقل کیا ہے کہ جس کی وجہ سے متعدد اعتراضات ختم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مناقب میں لکھا ہے: فرشتے محمدؐ کو پکڑ کر ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے اور انہیں دھو دھلا کر صاف ستھرا کر دیا۔(30) علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں عامہ کے طریق سے ’’شق الصدر‘‘ کا واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے: پیغمبرؐ کے سینے کو کھولنے کا مسئلہ ایک مثالی حالت کا بیان ہے کہ جسے آنجناب نے مشاہدہ کیا، نہ یہ کہ واقعاً سونے کا ایک مادی طشت استعمال ہوا اور پیغمبرؐ کے دل کو اس میں دھویا گیا ہو، جیسا کہ بعض نے یہ سمجھا ہے۔(31)

۴۔ فجار کی لڑائیوں میں شرکت
زمانہ جاہلیت کے عرب سارا سال جنگ اور ایک دوسرے کے خلاف لوٹ مار میں مشغول رہتے تھے، حالانکہ اس طرح کی زندگی ان پر بھی بھاری تھی۔ لہٰذا انہوں نے جنگوں اور تنازعات کے سدباب کیلئے چار مہینوں رجب، ذیقعد، ذی الحج اور محرم میں جنگ کو حرام قرار دیا؛ تاکہ اس دوران وہ اپنے تجارتی بازاروں کو کھول کر کام کاج میں مشغول ہوسکیں۔ تاہم بعض اوقات حرام مہینوں کی حرمت کو توڑ دیتے تھے اور حرام مہینوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑ دیتے تھے۔ ان جنگوں کو فجار کہا جاتا ہے۔ فجار کی لڑائیاں چار جنگوں پر مشتمل ہیں کہ جن میں سے آخری ’’فجار براض‘‘ ہے اور بعض روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے بعثت سے قبل ان میں شرکت کی تھی۔

احادیث و روایات
بعض مورخین اور سیرت نگاروں کا یہ خیال ہے کہ آنحضرتؐ نے فجار کی بعض لڑائیوں میں اپنے چچا کے ہمراہ شرکت کی تھی۔(32)
۱۔ ابن ہشام نے سیرت نبویہ میں لکھا ہے: رسول خداؐ کچھ دن جنگ میں حاضر ہوتے رہے اور آنحضرتؐ کے چچا آپؐ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
۲۔ بعض منابع نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں: میں فجار کی لڑائی میں اپنے چچاؤں کیلئے تیر جمع کرتا تھا۔(33)(34)
۳۔ ایک دوسری روایت میں رسول خداؐ نے فرمایا: شهدت الفجار مع عمی ابی‌طالب و انا غلام؛ میں فجار کی لڑائی میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شرکت کرتا تھا جبکہ اس وقت ابھی لڑکا ہی تھا۔
۴۔ بعض اہل سنت کے منابع نے پیغمبرؐ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: میں اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں حاضر ہوا اور تیراندازی بھی کرتا رہا۔ قَدْ حَضَرْتُهُ مَعَ عُمُومَتِی وَرَمَیْتُ فِیهِ بَاْسَهُمٍ»(35)

تحلیل و جائزہ
حربِ فجار میں آنحضورؐ کی شرکت کے حوالے سے ابہام اور تردید ہے۔ اس میں تردید کی پہلی بات جنگ میں شرکت کے وقت رسول کریمؐ کا سن مبارک ہے کہ بعض منابع میں 14۴ سال، دیگر منابع میں 15 سال اور ایک روایت میں 17 سال(36) ایک اور مقام پر ’’غلام‘‘ کی تعبیر بھی استعمال ہوئی ہے کہ جس کا اطلاق عام طور پر 7 سے 14 سال کے سن پر ہوتا ہے۔ شهدت الفجار مع عمی ابی‌طالب و انا غلام۔ دوسری بات اس جنگ کے سالِ وقوع میں تردید ہے، جو بعض منابع میں عام الفیل سے 20۰ سال قبل اور بعض میں 14 سال قبل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ داستان بہت سے قدیم تاریخی اور حدیثی منابع میں ذکر نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی وہاں اس کے متعلق بحث کی گئی ہے جیسے تاریخ طبری، کامل ابن اثیر اور شیعہ کتب۔ تاہم اس واقعے کی تحلیل میں اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ اختلافِ اقوال جو بذات خود تاریخی روایات کی تضعیف کا عامل ہے؛ سے قطع نظر آنحضورؐ کی ایسی جنگوں میں شرکت بعید معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اپنی تمام زندگی کے دوران معصوم تھے اور محال ہے کہ ایسی جنگوں میں شرکت کریں، جو سراسر ظلم، عصیان اور عدوان سے عبارت تھیں۔

چنانچہ تاریخ کی شہادت کی بنا پر جناب ابو طالبؑ نے ان جنگوں کو ظلم و عدوان قرار دیتے ہوئے بنو ہاشم کے کسی فرد کو بھی ان میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور اس کی وجہ ان الفاظ میں بیان فرمائی: هذا ظلم و عدوان و قطیعة و استحلال للشهر الحرام و لا احضره و لا احد من اهلی فاخرج الزبیر بن عبد المطلب مستکرها؛ یہ ظلم و زیادتی ہے، قطع رحمی ہے اور ماہ حرام کی حرمت شکنی ہے؛ نہ میں اور نہ ہی میرے خاندان کا کوئی فرد اس میں حاضر نہیں ہوں گے۔(38) تاہم آخر میں بنو ہاشم میں سے صرف زبیر بن عبد المطلب نے اس جنگ میں شرکت کی اور وہ بھی مجبور ہو کر۔(39) اس کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ اپنے چچا کی سخت حفاظت اور نگرانی کے تحت تھے؛ لہٰذا آپؐ کی اس جنگ میں شرکت کا دعویٰ درست نہیں ہے۔

نتیجہ:
نبی اکرمﷺ کی عصمت اور عظمت سے منافی روایات قرآنی آیات کے محکمات سے ٹکراتی ہیں۔ قرآنی آیات کے اصول و محکمات میں سے ایک یہ ہے کہ شیطان کا خدا کے مخلص بندوں پر کوئی زور نہیں ہے، جبکہ حدیثی و تفسیری منابع میں ایسی روایات موجود ہیں کہ شیطان تمام اولاد آدم کو مس کرتا ہے اور شیطان کا ان سب میں حصہ ہے۔ ہم قرآنی محکمات کی روشنی میں یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ نبی اکرم ؐ کی ذاتِ اقدس کو صرف ایسی روایات کی روشنی  میں سمجھا جا سکتا ہے، جو قرآنی محکمات پر پوری اترتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
(1) قرآن سورہ عنکبوت، آیت ۴۸․
(2) فتوح بلاذری، مطبوعہ مصر، صفحہ ۴۵۹․البلدان
(3) تفسیر برہان، جلد ۴، صفحہ ۳۳۲، سورہٴ جمعہ کی پہلی آیت کے ذیل میں․
(4) سورہ جمعہ، آیت ۲․”(وہ رسول) انھیں کے سامنے آیات کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔“
(5) تفسیر نمونہ، جلد ۶، صفحہ ۴۰۰․
(6) تفسیر نمونہ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۵․
(7) مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمہ کا نام ہے “محمد پیغمبری کہ از نو باید شناخت“ صفحہ ۱۲۵․
(8) تفسیر برہان، جلد ۲، صفحہ ۴۰۰․ (9) تفسیر نمونہ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۶
 (10) ابن اسحاق مطلبی، محمد ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص۵۰۔
(11) نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۱ ص۱۴۷۔
(12) طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۶-۵۷۷۔
(13) قریش/سوره۱۰۶، آیه۳۔
(14) قریش/سوره۱۰۶، آیه۴۔
(15) بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۶، ص۳۴۔
(16) نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۴، ص۱۸۳۸۔
(17) آل عمران/سوره۳، آیه۳۶۔
(18) زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج۱، ص۳۵۷۔
(19)  آلوسی، شهاب الدین، تفسیر روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ج۲، ص۱۳۲۔ (20) تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۱۲۔
(21) اسرا/سوره۱۷، آیه۶۵۔
(22) حجر/سوره۱۵، آیه۴۲۔
(23) ایضا
(24) ایضا
(25) ابوریه، محمود، اضواء عـلی‌ السـنه‌ المـحمودیه، ص۱۸۸۔
(26) شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۶، ص۲۱۵۔
(27) عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی، ج۲، ص۱۷۱۔
(28) ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۴، ص۳۴۷۔
(29) علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۳۵۷۔
(30) ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌ طالب (علیهم‌ السّلام)، ج۱، ص۳۲۔
(31) علامه طباطبایی، سید محمد حسین، ترجمه تفسیر المیزان، ج۲۰، ص۵۳۵۔
(32) ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۶۔
(33) مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، ج۴، ص۱۳۵۔
(34) ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۶۔
(35) ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۲۔
(36) ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۶۔
(37) یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۵۔
(38) یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۵۔
خبر کا کوڈ : 958407
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ قبلہ، مولا سلامت رکھے۔
ہماری پیشکش