1
0
Tuesday 12 Oct 2021 23:33

رسول خدا ؐ کا مقامِ شفاعت

رسول خدا ؐ کا مقامِ شفاعت
تحریر: وقار علی مطہری
waqarpahor1214@gmail.com

شفاعت کا عقیدہ مسلمانوں کا مسلمہ عقیدہ ہے۔ علمائے اسلام اسے ضروریاتِ دین میں سے قرار دیتے ہیں۔ لہذا سب سے پہلے عقیدہ شفاعت کو سمجھنا ضروری ہے۔
شفاعت کا مفہوم
شفاعت یعنی کسی چیز کو کسی چیز سے جوڑنا اور شفاعت کو خدا و مخلوق کے درمیان ثالثی سے تعبیر کیا گیا ہے کہ اچھائی لائے یا برائی کو دور کرے۔ شفاعت اس طرح مجرم میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے، جیسے وہ مجرم ہی نہیں ہے۔ شفاعت کا عقیدہ مجرم کو سزا سے بچانے کا باعث ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام شفاعت کے بارے میں فرماتے ہیں{لَا شَفِیعَ أَنْجَحُ مِنَ التَّوْبَة} "کوئی بھی شفاعت توبہ سے زیادہ نجات بخش نہیں ہے۔"(1) شفاعت ایک مذہبی تصور ہے، جس پر اکثر مسلمان یقین رکھتے ہیں۔ شیعہ عقائد کے مطابق شفاعت مکمل طور خدا کی طرف سے ہے اور کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کرسکتا۔ اس کے مطابق اگر خدا کسی بندے کے ایمان سے خوش ہوتا ہے تو خداوند عالم سفارش کرنے والوں کو اس کی شفاعت کی اجازت دیتا ہے۔ شفاعت پر یقین اہل تشیع کے درمیان ایک خاص مقام رکھتا ہے۔

سنیوں نے بھی شفاعت کے اصول کو قبول کیا ہے اور ان کے ذرائع خاص طور پر مومنین سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا ذکر کرتے ہیں۔ حتی یہودی و مسیحی بھی شفاعت پر عقیدہ رکھتے ہیں، جو دوسرے آسمانی ادیان کے لوگ ہیں۔ لیکن مسلمانوں میں وہابی ہیں، جن کا ماننا ہے کہ شفاعت فقط خدا سے مانگی جا سکتی ہے اور وہ غیر خدا سے شفاعت مانگنا شرک سمجھتے ہیں، لیکن قرآن اور روایات میں صریحاً شفاعت کا ذکر ہوا ہے کہ باذن خدا دوسرے بھی شفاعت کر سکتے ہیں۔

شفاعت کی کچھ اقسام:
باطل شفاعت: ایسی شفاعت ہے، جو کسی مظلوم کے مقابلے میں ظالم کی ہو اور یا پھر ایسی شفاعت ہو، جو ظالم کی حوصلہ افزائی کرے۔ اس طرح کی شفاعت خود ظلم ہے اور آخرت میں بھی ناممکن ہے۔ ایسی شفاعت کی قرآن میں بھی نفی کی گئی ہے۔
صحیح شفاعت: یہ وہ شفاعت ہے، جو کاملاً خداوند متعال کی طرف سے ہے اور کوئی بھی شفاعت اس ذات باری تعالٰی کے اذن کے بغیر نہیں کرسکتا اور انبیاء و آئمہ ہرگز اس معنی میں نہیں ہیں کہ وہ مستقل شفاعت کرسکتے ہیں، نہیں نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے، لیکن محمد و آل محمد باذن خدا شفاعت کرسکتے ہیں، یہ یقینی بات ہے۔ کوئی بھی شفاعت نہیں کرسکتا مگر یہ کہ خدا اس سے راضی ہو۔ «وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ» (2) اس طرح کی شفاعت پر اہل تشیع ایمان رکھتے ہیں اور قرآن نے بھی اسی شفاعت کو درست قرار دیا ہے اور احادیث پیغمبر (ص) و ائمہ اطہار نے بھی اسی شفاعت کی تائید کی ہے۔

قرآن میں شفاعت:
قرآن کی (24) آیات میں شفاعت کا ذکر ہوا ہے، بہت ساری اصطلاحات جو شفاعت کہ طور استعمال ہوتی تھیں یا ہیں، قرآن میں ان کی نفی کی گئی ہے کہ جو بتوں اور جھوٹے خدائوں کے ساتھ ثالثی مخصوص ہے کہ مکہ کے مشرکین ان کو شفیع تصور کرتے ہیں۔ «وَ یعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا یضُرُّهُمْ وَ لا ینْفَعُهُمْ وَ یقُولُونَ هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَ تُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِما لا یعْلَمُ فِی السَّماواتِ وَ لا فِی الْأَرْضِ سُبْحانَهُ وَ تَعالی عَمَّا یشْرِکون»(3) "اور یہ لوگ اللّٰہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں، جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور (پھر بھی) کہتے ہیں: یہ اللّٰہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں، کہدیجیے: کیا تم اللّٰہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو، جو اللّٰہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک و بالاتر ہے، اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔"

قرآن کریم نے بتوں کی شفاعت کی نفی کے ساتھ ساتھ محترم لوگوں یا چیزوں کی نفی تھوڑی کی ہے، بلکہ محترم لوگوں اور چیزوں کی شفاعت کو شرائط کے ساتھ قبول کیا ہے۔ من جملہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی شفاعت، جس کی قرآن نے واضح طور پر تائید کی ہے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں وجود شفاعت کے حوالے سے اختلاف نہیں ہے، لیکن احکام اور مکان کے لحاظ سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ بعنوان مثال ہے یہ آیت۔ «وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَىٰ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا»(4) "اور رات کا کچھ حصہ قرآن کے ساتھ بیداری میں گذارو یہ زائد (عمل) صرف آپ کے لئے ہے، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔" شیعہ و سنی مفسرین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ اس آیت میں مقام محمود سے مراد وہی مقام شفاعت ہے، جس مقام کا خدا نے اپنے پیارے حبیب (ص) سے وعدہ کیا تھا۔

 شفاعت کے بارے میں آیات قرآنی
1) بعض وہ آیات ہیں، جو روز قیامت مطلقاً شفاعت کی نفی کرتی ہیں۔ "اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس دن کے جس میں نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی کا فائدہ ہوگا اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم وہی لوگ ہیں، جنہوں نے کفر اختیار کیا۔"(5)
2) بعض وہ آیات ہیں، جو شفاعت کو فقط خدا کے ساتھ مخصوص کرتی ہیں۔ "کہدیجیے: ساری شفاعت اللّٰہ کے اختیار میں ہے اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے، پھر تم اسی کی طرف پلٹائے جائو گے۔"(6)
3) بعض وہ آیات ہیں، جو بعض مخلوق کی شفاعت کی شرائط کے ساتھ تائید کرتی ہیں: "اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی خدا تو تمہارا رب ہے، پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟"(7)
4) بعض وہ آیات ہیں، جو بعض افراد کی شفاعت کی نفی کرتی ہیں۔

 اب ہم یہاں پر وہ آیات دلیل کے طور ذکر کریں گے، جن آیات سے رسول خدا (ص) کا شفیع ہونا ثابت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی خدا تو تمہارا رب ہے، پس اس کی عبادت کرو کیا، تم نصیحت نہیں لیتے؟"(8) "اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی، سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے۔"(9) "اللہ ان باتوں کو جانتا ہے، جو ان کے روبرو اور جو ان کے پس پردہ ہیں اور وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کرسکتے ہیں، جن سے اللّٰہ راضی ہے اور وہ اللّٰہ کی ہیبت سے ہراساں رہتے ہیں۔"(10) "اور آسمانوں میں کتنے ہی ایسے فرشتے ہیں، جن کی شفاعت کچھ  بھی فائدہ نہیں دیتی، مگر اللّٰہ کی اجازت کے بعد جس کے لئے وہ چاہے اور پسند کرے۔"(11) "کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور شفاعت کرسکے؟"(12) "اور اللّٰہ کے نزدیک کسی کے لئے شفاعت فائدہ مند نہیں، سوائے اس کے جس کے حق میں اللّٰہ نے اجازت دی ہو۔"(13)

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت وہی کرسکتے ہیں، جو خدا کے نزدیک ایک خاص مقام کے حامل ہوں۔ اب زمین و آسمان میں کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں ہے، جو خدا کے نزدیک رسول خدا (ص) کی ذات اقدس سے زیادہ افضل ہو۔ یہ بات حتمی ہے کہ خدا کے نزدیک سب سے بافضیلت اور باعظمت شخصیت صرف محمد مصطفیٰ (ص) کی ذات گرامی ہے اور سب سے پہلے وہی باذن خدا امت کی شفاعت کریں گے۔ خود رسول خدا (ص) فرماتے ہیں {انا اَوَّلُ شافِعٍ وَ اوَّلُ مُشَفَّعٍ}۔(14) "میں وہ ہوں، جو سب سے پہلے شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے جس کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا، وہ میری شفاعت ہوگی۔"

مغفرت اور درجات کی بلندی کیلئے شفاعت
 کبھی شفاعت درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے، اس قسم کی شفاعت کو سب اسلامی مذاہب نے قبول کیا ہے۔ کبھی شفاعت گناہوں کی مغفرت کے لئے ہوتی ہے، اس قسم کی شفاعت کو بعض نے مثل معتزلی اور خوارج قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی جہنم میں داخل ہو جائے، کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اس دوزخ سے باہر آجائے۔(15) جو شخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے، وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے، وہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے گا۔(16)

شفاعت کرنے والوں کی شرائط
تین قسم کی خصوصیت رکھنے والے لوگ قرآن کی نظر میں شفاعت کرسکتے ہیں۔
1) خدا پر ایمان ہو اور خلایق کے اعمال سے آگاہ ہو۔ "اور اللّٰہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ شفاعت کا کچھ اختیار نہیں رکھتے، سوائے ان کے جو علم رکھتے ہوئے حق کی گواہی دیں۔"(17)
2) اذن خدا رکھتے ہوں۔ "اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی، سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے۔"(18)
3) خدا کے نزدیک عہد و پیمان رکھتے ہوں۔ "وہ ہرگز مالک شفاعت نہیں ہیں، مگر وہ جو خدا کے نزدیک عہد و پیمان رکھتا ہو۔"(19) رسول خدا (ص) فرماتے ہیں: "اولین نفر میں ہوں، جو شفاعت کروں گا اور اولین میں ہوں، جس کی شفاعت کو قبول کیا جائے گا۔"(20) پیغمبر اکرم (ص) کی شفاعت کو شفاعت کبریٰ کہا جاتا ہے، متعدد روایات میں ذکر ہوا ہے کہ نبیﷺ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ان لوگوں کو بھی شامل حال ہوگی، جو گناہ کبیرہ سے آلودہ ہونگے۔

بحارالانوار میں علامہ مجلسی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: "امام باقر علیہ السلام نے ابو ایمن کے جواب میں کہا جبکہ اس نے کہا اے ابا جعفر، آپ لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ہمیشہ کہتے ہیں کہ شفاعت محمد شفاعت محمد۔ امام اتنے ناراحت ہوئے درحالی کہ چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا اور فرمایا ویل ہو اور وائے ہو تم پر، اے ابا ایمن آپ کو آپ کے شکم کی عفت اور شہوت نے مغرور کر دیا ہے۔ اگر تم قیامت کا وحشتناک میدان دیکھتے تو حتماً آپ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی طرف محتاج ہو جائو گے۔ ویل ہو تم پر، آیا شفاعت مگر اس کے لئے ہے، جس پر جہنم واجب ہو؟ اس ٹائیم فرمایا کوئی بھی اول سے آخر تک نہیں ہے، جو قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا محتاج نہ ہو۔"(21)

خداوند عالم سورہ ضحیٰ میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے «وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَىٰ»(22) "حقیقتاً آپ کے لئے آخرت دنیا سے بہتر ہے۔"
خداوند متعال اس آیت کے ذریعے اپنے نبی مکرم (ص) کو فرما رہا ہے کہ اے میرے حبیب (ص) آپ کا بخت و دولت و اعتبار اور مقام اخروی اس جہان سے بہت برتر اور بالا ہوگا۔ اگر آج لوگ آپ کو طعنہ دے رہے ہیں اور مسخرہ کر رہے ہیں، آپ ثابت قدم رہیں اور ناملایمات سے نہ ڈرنا، کیونکہ تاریخ حق کی معرفی اور باطل کو رسوا کرتی ہے اور قیامت کے دن وہ لوگ اس رسوائی کو دیکھیں گے اور آپ کے پیروکار ان منکرین و دنیا طلبوں پر برتری اور نیکی کو دیکھیں گے اور یہ جان لو کہ قیامت کے دن آپ کا نام میرے نام کے ساتھ دنیا کی ہر جگہ گونجے گا، اس انداز میں آپ کا نام ہوگا۔ خداوند متعال آگے فرماتا ہے «وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ »(23) "عنقریب خدا آپ کو اتنا کچھ عطا کرے گا کہ آپ شاد ہو جائو گے۔"

یہ آیت پیغمبر اسلام (ص) کو بشارت دے رہی ہے کہ نبیﷺ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ایسی چیز اعطا کی جائے گی، جو رسول خدا کی رضا و خوشنودی کو جلب کرے۔ ائمہ اطہار علیہم السلام اس عطیہ کی ایک تفسیر یوں بیان کرتے ہیں کہ وہ چیز جو رسول خدا کی رضا کو تامین کرے گی، وہ اذن ہے، جو خداوند متعال نے امت مسلمہ کی شفاعت کے لئے رسول خدا کو عطا کیا ہے۔ نقل ہوا ہے کہ ایک وقت رسول خدا نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور آنسوں جاری ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی زبان مبارک پر یہ کلمات «امتی امتی» لائے۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نے رسول خدا کی اس امت کی عاقبت کی پریشانی کا مشاہدہ کیا یا یوں کہوں کہ جبرائیل امین نے نبی مکرم کی اپنی امت سے محبت کا مشاہدہ کیا تو خداوند متعال کی جانب سے رسول خدا کو اپنی امت کی شفاعت کی بشارت دی، کہ آپ کی رحمت اور شفاعت روز آخرت امت مسلمہ کو شامل حال ہوگی۔(24)

رسول خدا کی رحمت جو جہان آخرت میں استمرار ہے، جس کا نام شفاعت ہے۔ خود رسول اللہ (ص) کی حدیث مبارک ہے، جس پر شیعہ سنی متفق ہیں اور یہ حدیث صحیح السند ہے «ذخرت شفاعتی لاہل  الکبائر من امتی» "میری شفاعت میری امت میں سے ان کے بھی شامل حال ہوگی، جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونگے۔" جب حضرت مآب (ص) کو بشارت ملی، جو جبرائیل امین لیکر آئے تھے تو نبیﷺ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، "میرے لئے یہی خوشخبری کافی ہے اور یہ بشارت میری رضامندی و خوشنودی کو جلب کرے گی۔"(25) امت مسلمہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ روز محشر محمد مصطفیٰ رحمۃ للعالمین (ص) ضرور شفاعت کریں گے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو نبی کریم (ص) ہمیشہ اپنی امت کے لئے دعا کرتے رہے ہیں اور وہ قیامت کے دن شفاعت ناں کریں۔

جبکہ ہم انبیاء علیہم السلام کے قصے قرآن مجید میں پڑھتے رہتے ہیں کہ جب انکی امتوں نے ہٹ دھرمی کی اور دعوت حق کو قبول نہ کیا، حتی اپنے وقت کے انبیاء پر ظلم کیا، بالآخر ان چیزوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان قوموں پر انبیاء کی بدعا کی وجہ سے عذاب خدا نازل ہوا۔ لیکن میں قربان جاؤں ہمارے پاک پیغمبر (ص) کی ذات مقدس پر کہ بے انتہاء امت نے اذیتیں دیں، ایذا رسانی کی، لیکن کبھی بھی اپنی امت کے لئے بدعا نہیں کی بلکہ رحمۃ للعالمین اپنی امت کے لئے دعا کرتے نظر آتے تھے۔ [اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ] "یااللہ میری قوم کی ہدایت فرما کہ یہ نہیں جانتے۔"(26) خداوند متعال سے دعا ہے کہ بحق محمد و آل محمد (ص) ہمیں اپنے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے اور محمد و آل محمد کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و مآخذ
1۔ بحارالانوار، ج6، ص19
2۔ سورہ انبیاء،28
3۔ سورہ یونس،18
4۔ سورہ اسراء،79
5۔ سورہ بقرہ،254
6۔ سورہ زمر،44
7۔ سورہ یونس،3
8۔ سورہ یونس،3
9۔ سورہ طہ،109
10۔ سورہ انبیاء،128
11۔ سورہ نجم،26
12۔ سورہ بقرہ،255
13۔ سورہ سبأ،23
14۔ ھمان،495
15۔ زمخشری، ج1، ص152
16۔ سورہ نساء،85
17۔ سورہ زخرف،86
18۔ سورہ طہ،109
19۔ سورہ مریم،87
20۔ ترمذی، ج5، ص،587
21۔ بحارالانوار، ج8، ص38
22۔ سورہ ضحی،4
23۔ سورہ ضحی،5
24۔ الصحیح، ج1، ص132
25۔ ابوالفتوح رازی، روح جنان، ج20، ص311
26۔ بحارالانوار، ج35، ص177
خبر کا کوڈ : 958434
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتظر
Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ، تمام بھترین
ہماری پیشکش