QR CodeQR Code

جام کمال خان کا پہلا سیاسی انتقام

13 Oct 2021 18:48

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے سیاسی حالات دن بدن نیا رُخ اختیار کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ صوبائی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اندرونی اختلافات کے باعث دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ جس کی تصدیق خود بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کر چکے ہیں۔ بی اے پی کے ان دو گروپوں میں ایک طرف وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو سمیت دیگر اراکین ہیں، جبکہ دوسری جانب صوبائی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو، صوبائی وزارت خزانہ سے حال ہی میں مستعفی ہونیوالے ظہور بلیدی، سردار صالح بھوتانی اور دیگر اراکین وزیراعلیٰ کے خلاف ہیں۔


تحریر: اعجاز علی

بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعلیٰ جام کمال خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا بل جمع کروایا، تو بی اے پی کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آنے لگے۔ اس سے قبل بھی وزیراعلیٰ بلوچستان اور سپیکر بلوچستان کے درمیان بیان بازی ہوئی تھی، مگر وہ دونوں ایک دوسرے کو ایک حد تک برداشت کر رہے تھے، یا کم از کم میڈیا کے سامنے یہی دکھا رہے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں۔ اگست کے ابتدائی دنوں میں بھی صوبائی سپیکر نے وزیراعلیٰ کیخلاف ویڈیو بنائی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ ان کے حلقے میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی سپیکر کی اور بھی شکایات تھیں۔ وزیراعلیٰ نے بھی ان کا تند لہجے میں جواب دیا تھا۔ مگر بعد ازاں دونوں شخصیات 14 اگست کے پروگرام میں ایک ساتھ نظر آئے تھے، جس سے یہ تاثر پھیلا کہ ان کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں۔

اکتوبر کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ اعلان کیا کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت چھوڑ رہے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ پارٹی عمائدین جلد از جلد پارٹی کے انتخابات کروائیں گے اور نئے صدر کا انتخاب ہوگا۔ چونکہ انہی دنوں تحریک عدم اعتماد کی باتیں بھی عروج پر تھیں اور وزیراعلیٰ کیخلاف متعدد اراکین اسمبلی متحرک تھے، کچھ افراد نے یہ افواہیں پھیلا دیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ اب اس افواہ کے پیچھے کیا مقاصد ہیں اور وہ کس قدر کامیاب ہوئیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ بہر حال حکومت نے اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ جام کمال نے وزارت اعلیٰ نہیں بلکہ بی اے پی کی صدارت چھوڑ دی ہے۔ ان واقعات کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ گزشتہ روز جام کمال خان نے ایک اور پریس کانفرنس کی، جس میں وہ ان بیانات سے مکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین نے پہلے جام کمال خان سے مطالبہ کیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں، بعد ازاں مطالبہ پورا نہ ہونے پر ناراض وزراء نے اپنے استعفے پیش کئے۔ ان استعفوں کو گورنر بلوچستان سید ظہور آغا کی جانب سے منظور کیا گیا۔ ان استعفوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا تھا کہ ہم نئے صوبائی وزیر منتخب کریں گے۔ انہیں اس وقت پورا اعتماد تھا کہ یہ وزراء ان کیخلاف کچھ نہیں کر پائیں گے۔ مگر انہی وزراء اور دیگر ناراض اراکین نے وزیراعلیٰ کو سب سے بڑا جھٹکا دے دیا۔ ناراض حکومتی ارکان نے وزیراعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا بل جمع کیا، جس میں خود حکومتی حمایتیوں کے دستخط موجود تھے۔ اس پر وزیراعلیٰ بے تحاشہ برہم ہوئے اور میڈیا پر یہ بیان بھی دیا کہ جن افراد نے اس بل پر دستخط کئے ہیں، وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ انہیں سامنے بھی آنا ہوگا۔ جنہوں نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کئے تھے، ان ناراض اراکین میں ظہور بلیدی بھی شامل تھے۔

جام کمال خان نے پارٹی صدارت یکم اکتوبر کو چھوڑنے کا اعلان کیا تھا، جس کے 12 دنوں بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری منظور کاکڑ نے الیکشن کمشنر کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ چونکہ جام کمال خان نے پارٹی کی صدارت چھوڑ دی ہے، اسی لئے پارٹی کے نائب صدر ظہور بلیدی کو پارٹی کا قائم مقام صدر مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ فیصلہ پارٹی کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مشترکہ فیصلہ قرار دیا جانے والا یہ فیصلہ پارٹی کی اکثریت کا فیصلہ تھا، جس میں وزیراعلیٰ جام کمال اور ان کے حمایتی شامل نہیں تھے۔
 
اس خط کے سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا اور میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے باقاعدہ استعفیٰ نہیں دیا اور وہ اپنا عہدہ سنبھالتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ اپنے سابقہ بیان سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ صرف ایک فیصلہ تھا، جو انہوں نے ساتھیوں کی درخواست پر تبدیل کر دیا ہے۔ اس کیساتھ ہی ساتھ انہوں نے ظہور بلیدی کے قائم مقام صدر بننے کی مذمت کی اور کہا کہ پارٹی صدر کی موجودگی میں قائم مقام صدر مقرر کرنا دستور کیخلاف ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ظہور بلیدی کو قائم مقام صدر مقرر کرنا پارٹی کا نہیں، بلکہ فرد واحد کا فیصلہ ہے۔ ظاہراً اس بیان میں فراد واحد سے وزیراعلیٰ کی مراد سینیٹر سعید احمد ھاشمی سے تھی، جنہیں اس سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی کا بانی بھی کہا جاتا تھا۔ البتہ اس فیصلے کے بعد وزیراعلیٰ جام کمال خان اور ان کے حمایتی سعید احمد ہاشمی کو بی اے پی کا بانی ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔
 
وزیراعلیٰ جام کمال کی اس پریس کانفرنس نے تقریباً ہر خاص و عام کو حیران کر دیا۔ 12 دن پہلے دیئے گئے بیان کی وضاحت یا نفی کرنے میں وزیراعلیٰ نے اتنی دیر کیوں کر دی، وہ تو ایک ٹویٹ کے ذریعے بھی اپنے بیان کی وضاحت کر سکتے تھے۔ موجودہ حالات اسی طرف اشارے کرتے نظر آتے ہیں کہ وزیراعلیٰ جام کمال کو پارٹی صدارت میں کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ظہور بلیدی، جو اس وقت ان کے مخالفین میں سے ہیں، کو یہ عہدہ سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔ جام کمال خان نے اپنے الفاظ کے انتخاب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو اس معاملے میں بھری الزمہ تو قرار دے دیا، مگر یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ پارٹی صدارت کے عہدے کو واپس سنبھالنا کچھ اور نہیں بلکہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کی جانب سے ظہور بلیدی سے پہلا سیاسی انتقام ہے۔


خبر کا کوڈ: 958521

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/958521/جام-کمال-خان-کا-پہلا-سیاسی-انتقام

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org