QR CodeQR Code

الوداع حسین بھائی زینب مدینے جا رہی ہے

14 Oct 2021 21:35

اسلام ٹائمز: دل ِمضطر حسین کے غم میں بہت روتا ہے، مگر آج زینب کا صبر میری آنکھوں میں اشکوں کی شکل میں جاری ہے۔ زینب غربت ِحسین کی پہلی ذاکرہ تھی، جس نے شام اور کوفہ میں لوگوں کو بتایا کہ کربلا کی تپتی ریت پر شہید ہونیوالا باغی نہیں بلکہ نمازی تھا۔۔۔ گویا زینب کیلئے بھائی کی مقتل چھوڑنا آسان نہ تھا، مگر بہن کی صبر پر دلیل شجاعت ہے کہ اُس نے بھائی کو الواع کہا اور نانا کے شہر مدینہ میں ماں کی قبر پر کہا کہ اماں تیرا حسین کربلا میں پیاسا شہید ہوگیا اور میں یہ حسین ابن علی کا خون آلودہ کُرتا لائی ہوں۔


تحریر: مہر عدنان حیدر

تحریک کربلا ابدی تحریک ہے، جس کو بھائی نے سر دے کر زندہ کیا تو بہن نے چادر قربان کرکے بھائی کے مشن کو زندہ رکھا۔ بلاشبہ تحریک کربلا ایک معجزہ ہے، جو بشر کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ بشر آج بھی حسین کو مظلوم جان کر روتا ہے اور آج بھی انسانیت کو زینب کی چادر کا دکھ ہے۔ آج بھی انسانیت جب کربلا کو یاد کرتی ہے تو مظلوم کربلا کو سلام اور لبیک یاحسین کی صدا دیتی ہے۔ گویا محرم اور صفر حسین کا نہیں بلکہ سارا سال حسین ابن علی کا ہے، کیونکہ جہاں نانا کی اذان آرہی ہے، وہاں حسین ابن علی کو سلام کیا جا رہا ہے۔ گویا نانے اور نواسے کے ذکر نے تمام ساعتوں کو آپس میں تقسیم کر لیا ہے۔ اس وقت دنیا میں ہر وقت منٹ اور سیکنڈ میں "حسین منی وانا من الحسین" کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ انسانیت پر لازم ہے کہ وہ حسین کا ذکر کرے تو من الحسین کو فراموش نہ کرے، یعنی جس طرح نانا کا ذکر ہوتا ہے، اس طرح نواسے کا ذکر ہو۔

خیر اس مضمون کو لکھنے کا مقصد شریکۃ الحسین فاتح شام بی بی کا مصائب بیان کرنا ہے کہ 8 ربیع الاول کو خاندان رسول نسلِ علی و بتولؑ کوفہ و شام کے بازاروں و درباروں میں حسین کی نہ مکمل جنگ مکمل کرکے واپس آئی۔ تاریخ میں بہت سے صابروں کا ذکر ہوگا، مگر ایک بہن کا صبر قائم مثال ہے اور وہ زینب ہے، جو مدینے سے بھائی کے ساتھ چلی، واپس بھائی کے ساتھ نہیں بلکہ بھتیجے کے ساتھ آئی۔ تاریخ میں وہ منظر قیامت سے کم تو نہ ہوگا، جب زینب جیسی بہن، حسین جیسے بھائی کی مقتل سے گزر کر واپس وطن جا رہی ہوگی۔ تاریخ نے لکھا ہے کہ جب قافلہ شام سے اس مقام تک پہنچا، جہاں سے دو راستے نکلتے تھے۔ ایک مدینے کی طرف اور دوسرا کربلا کی طرف۔ تو خامس آل عبا کو اشتیاق ہوا کہ وہ اس مقام کو دیکھے، جہاں زینب جیسی بہن بھائی کو مقتل میں بے کفن چھوڑ کر شام چلی تھی۔

دنیا کا کوئی مرثیہ نگار شاید ہی اس غم کی شدت کو بتا سکے کہ جب بہن نے بھائی کی نگری دیکھی ہوگی تو اس وقت بہن کی کیا حالت ہوگی۔ خیر تاریخ پر یہ موڑ بھی گزر گیا، مگر زینب جیسی بہن کے لیے حسین جیسے بھائی کی قتل گاہ سے گزر کر جانا آسان نہ تھا۔ بہن بھائی سے کہتی تو ہوگی کہ وطن سے ساتھ آئے تھے۔ چل بھائی وطن چلیں۔ دل ِمضطر حسین کے غم میں بہت روتا ہے، مگر آج زینب کا صبر میری آنکھوں میں اشکوں کی شکل میں جاری ہے۔ زینب غربت ِحسین کی پہلی ذاکرہ تھی، جس نے شام اور کوفہ میں لوگوں کو بتایا کہ کربلا کی تپتی ریت پر شہید ہونے والا باغی نہیں بلکہ نمازی تھا۔۔۔ گویا زینب کے لیے بھائی کی مقتل چھوڑنا آسان نہ تھا، مگر بہن کی صبر پر دلیل شجاعت ہے کہ اُس نے بھائی کو الواع کہا اور نانا کے شہر مدینہ میں ماں کی قبر پر کہا کہ اماں تیرا حسین کربلا میں پیاسا شہید ہوگیا اور میں یہ حسین ابن علی کا خون آلودہ کُرتا لائی ہوں۔


خبر کا کوڈ: 958750

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/958750/الوداع-حسین-بھائی-زینب-مدینے-جا-رہی-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org