1
0
Friday 15 Oct 2021 19:28

الوداعی جھگڑا

الوداعی جھگڑا
تحریر: حر مقید

ملت تشیع پاکستان میں بہت سی چیزیں جدید روایات کی شکل اختیار کر گئی ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر باتیں اختلافی ہیں، مثلاً ہر خوشی کے موقع پہ ولادت یا ظہور کی اصطلاح پر جھگڑا کرنا یا یوم القدس اور یوم جنت البقیع کی اہمیت پر جھگڑا کرنا، انہی میں سے ایک ایام عزاء کے اختتام پر الوداعی نوحے پڑھنے پر جھگڑا ہے، جس کے بغیر ہم ربیع الاول کی خوشیوں میں داخل ہونا مکروہ سمجھتے ہیں۔ یہ سب جھگڑے جو اب باقاعدہ ایونٹ کی شکل اختیار کر چکے ہیں، کچھ سمجھدار ذہنوں کی اختراعی کاوش ہے، جنھوں نے اپنے تئیں مصلح سمجھ کر بہت محنت اور جانفشانی کی داد پاتے ہوئے مروجہ اصطلاحات اور روایات کو درست یا انگریزی اصطلاح میں پولیٹیکلی کریکٹ کرنے کی کوشش کی، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جھگڑا ایم آئی سکس نے پھیلایا ہے، ایم آئی سکس نے آج تک اس کی تائید یا تردید نہیں کی، لیکن ایم آئی سکس سے داخلی روابط رکھنے والا ایک گروہ اس کی تائید کرچکا ہے۔

لہذا مزید کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر آپ کے دل میں ایم آئی سکس کے ان کارناموں کے بارے میں شک آئے تو مبارک ہو کہ آپ بھی ایم آئی سکس کے غیر نامزد ایجنٹ بن چکے ہیں، جب چاہیں اس کی سند حاصل کریں اور تنخواہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں شک نہیں کہ معاشرے میں رائج کچھ چیزیں غیروں کی سازشی مداخلت سے پنپتی ہیں، لیکن جو زخم اپنوں سے لگے ہیں، وہ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ایسے افراد جو معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، برائیوں کو برا سمجھتے ہیں، لیکن اصلاح کے موضوع پر شدت پسندی سے کام لیتے ہیں، مذہب کو مذہبی ثقافت سے ٹکرا کر دینی جذبات کی تسکین کرنا چاہتے ہیں اور عظیم ملی خدمت انجام دینا چاہتے ہیں، یقیناً انھیں بنیادی سماجی علوم پڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ استعماری سازش اور دنیا پرست مذہبی ٹھیکیداروں کی مداخلت کے سبب بہت سی قبیح رسومات مذہب کا جزو بن گئیں، لیکن ان کی اصلاح کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا، کسی حد تک نامناسب ثابت ہوا۔

ثقافتی معاملات ریاضیاتی اصولوں پر نہیں چلتے، یہ شاعرانہ کنایوں اور تلمیحات کی نازک ڈوریوں سے بندھے ہوتے ہیں، جہاں کبھی محبوب کے نامناسب رویئے کی جان سوز شکایتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو کہیں تلخی ختم ہو جانے پر نظر انداز کر دینے کا شکوہ۔۔۔ آپ فتوے، حکم نامے یا منطق سے اس گتھی کو نہیں سلجھا سکتے، ان مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے معاشرے کے بیچ میں اترنا پڑتا ہے، "مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔" یہ معاملہ بھی ان چند معاملات کی طرح ہے، جس میں اگرچہ بہت سی نامناسب رسومات شامل ہوگئی تھیں، لیکن مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کی متعلق زحمت نہیں کی گئی اور دو جمع دو چار کی منطق سے مسئلہ حل کرا دیا گیا اور جو اس ریاضیاتی منطق کو نہ مانے تو اس کا انجام پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ برصغیر میں اور بالخصوص اردو زبان طبقے میں یکم محرم سے لے کر 8 ربیع الاول تک مستقل سوگ کے ایام کہلائے جاتے ہیں، خواتین حلال آرائش سے بھی پرہیز کرتی ہیں، تمام تفریحی سرگرمیاں موقوف ہو جاتی ہیں، ٹی وی یا انٹرٹینمنٹ کی دیگر اشیاء مستقلاً بند، شادی بیاہ کا تو خیر سوال ہی نہیں، سالگرہ، ولادت اور دیگر خوشی کی مناسبتوں کی مبارک باد بھی نہیں دی جاتی، نئے لباس یا نئی چیزوں سے سختی سے پرہیز کیا جاتا ہے، بلکہ کچھ جگہوں پر تو انتقال کر جانے والوں کی تعزیت بھی نہیں کی جاتی کہ ان ایام میں غم کربلا کے سوا کسی اور کام میں مصروف نہ رہا جائے۔۔۔ یکم ہی سے امام بارگاہ، یا عزا خانے، عاشور خانے سج جاتے ہیں، شہ نشین پر علم اور دیگر شبیہیں رکھ دی جاتی ہیں اور وہاں مسلسل اس تصور کے ساتھ عزاداری برپا کی جاتی ہے کہ ان ایام میں جناب سیدہ (س) اور امام حسین (ع) ہمارے مہمان ہیں، جب تک یہ پاکیزہ ماحول برقرار رہے گا، ائمہ علیہم السلام کی زوات مقدسہ موجود رہیں گی۔

9 ربیع الاول جسے عید شجاع، عید زہرا (س) یا سوگ بڑھانا کہا جاتا ہے، یہ تمام پابندیاں موقوف ہوتی ہیں اور گویا زندگی اپنے معمول پر آجاتی ہے۔ خواتین زیورات پہنتی ہیں، شادی بیاہ کی تقریبات کا آغاز ہو جاتا ہے، خوشی کی مناسبتوں کو اس کے بعد رکھا جاتا ہے، عزا خانے بڑھائے جاتے ہیں، یعنی تبرکات سمیٹ کر سنبھال دیئے جاتے ہیں، اس موقع پہ الوادعی کلام پڑھے اور اور پڑھائے جاتے ہیں کہ گویا آج اس عزا خانے کے سمٹنے کے ساتھ امام ہمارے گھر سے رخصت ہو رہے ہیں۔ یہ وعدہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ بھی اسی طور اس غم و مناتے رہیں گے اور اس حسرت کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم جی بھر کر اس غم کو منا نہیں سکے، ظاہر ہے کہ کربلا کے مصائب چند دنوں میں کہاں سمٹ سکتے ہیں۔

 ٹھیک طور سے نہیں کہا جا سکتا کہ عید شجاع یا عید بیعت کا تصور کب سے ان معنوں میں رائج ہے اور برصغیر کے سوا باقی عالم تشیع کیوں اس طرح سے اس روز کو نہیں مناتا، لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ خاصی قدیم روایت ہے، یہاں تک کہ مرزا غالب اپنے ایک فارسی قطعے میں شیعوں کی چار عیدوں کا ذکر کرتے ہیں، جس کے مطابق عید شوال، ذوالحجہ، عید غدیر اور عید بابا شجاع چاروں شیعوں کی عیدیں ہیں۔
تا بود چار عید در عالم
بر تو یا رب خجستہ باد و ہجیر
عید شوال و عید ذوالحجہ
عید بابا شجاع و عید غدیر


 اب اس پس منظر کو سمجھے بغیر ان کلاموں، اشعار اور اس روایت کو منطقی و غیر منطقی استدلال کے ترازو میں تولنا شروع کر دیا گیا، کچھ لوگ جو واقعی تہذیبی شعور نہیں رکھتے تھے یا جان بوجھ کر تہذیبی انتشار پیدا کرنے کے خواہاں تھے، انھوں نے اس موضوع کو اچھالا اور سر بازار اچھالا، نتیجے میں اعلیٰ پائے کا ادب وجود میں آیا، لیکن ظاہر ہے کہ یہ ادب تہذیبی شناخت کے بجائے منطقی دلائل کی بنیاد پر تھا، اس سلسلے کے دو مشہور اشعار ملاحظہ ہوں۔
تم تو سانسوں کا سلسلہ ہو حسین (ع)
کس طرح تم کو الوداع کہ دیں

یا یہ کہ 
جس کو لبیک کہخ دیا جائے
پھر اسے الوداع نہیں کہتے


دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ امام حسین (ع) کو کیسے زندگی سے نکال سکتے ہیں، اور یہ کہ الوداع کی بجائے لبیک کہنا چاہیئے اور پتہ نہیں کیا کیا۔ لیکن اتنی محنت کے بعد بھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ زندگی سے نکالنے کی بات کبھی کی ہی نہیں گئی اور الوداعی زیارات تمام ائمہ کے حرم میں پڑھی جانے والی ماثورہ زیارات میں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی بھی ان معنوں میں الوداع کہے تو نہایت غلط ہے، لیکن کیا واقعی کوئی ان معنوں میں الوداع کہتا ہے۔؟ تہذیبی پس منظر سے عاری اس منطق کی حیثیت اتنی ہی مستحکم ہے، جتنی چند سال پہلے چلنے والے ان میسجز کی تھی، جن میں بتایا گیا تھا کہ بچے اگر اللہ کے اسم جلالہ کے ساتھ میاں کا لفظ استعمال کریں تو بے ادبی ہے اور یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ حلیم کو حلیم کہنا بھی توہین ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ اس موقع پہ خوشی کے اظہار کے لیے نامناسب انداز اختیار کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس کی ہر صورت مخالفت کی جانی چاہیئے اور علماء ایسا کرتے بھی ہیں اور بہت اچھا کرتے ہیں، لیکن یہاں تو ایک نئی ثقافت وجود میں آگئی اور یہ تھی کہ خود کو ائمہ اور کربلا کا بابصیرت محب ثابت کرتے ہوئے دوسروں پہ طنز کیا جائے۔ بہرحال مجھے یوں لگتا ہے کہ بعض لوگ دشمن شناسی کے نام پر دشمن سازی کی مہارت رکھتے ہیں، سادہ سے معاملے کو اتںا الجھا دینا کہ وہ نہایت سنجیدہ مسئلہ نظر آنے لگے، کوئی کم مہارت نہیں ہے۔ جب تک ہم دوسرے نکتہ ہائے نظر کو خلوص سے سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، اختلافات بڑھتے ہی چلے جائیں گے، جس کا نتیجہ بھیانک ہوسکتا ہے۔ مصلحین کا ایک کام بہت درست ہے کہ قوم انحرافات سے بچتی رہے، لیکن اگر ان انحرافات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ قوم ہی ختم ہوگئی تو شاید زیادہ اچھا نہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 958888
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جواد یوسفی
Iran, Islamic Republic of
سلام بہت اچھا کالم لکھا ہے جناب عالی نے۔
یہاں کچھ دن پہلے ایک مولانا صاحب کا ایک جملہ یاد آگیا کہ وہ فرما رہے تھے عزاداروں سے کہ "یاد رہے آپ ایام عزا سے باہر آئے ہیں، اسلام سے باہر نہیں، اس لیے اپنی گاڑیوں میں موجود usb کو ذرا دیکھ کر تبدیل کریں۔" سمجھ دار کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ آپ نے بہت اچھا لکھا، پاکستانی شیعوں کی حالات حاضرہ پر۔
خدا قوت۔
ہماری پیشکش