0
Saturday 16 Oct 2021 15:41

ہم اور ہمارا معاشرہ(2)

ہم اور ہمارا معاشرہ(2)
تحریر: قمر عباس

پچھلی قسط میں ہم نے تین چیزیں بیان کیں، جن میں ہم نے ان تینون چیزوں کے ایک ساتھ مل کر معاشرے میں اثر انداز ہونے پر بحث کی کہ کس طرح سے یہ تینوں آپس میں مربوط ہیں۔ اس قسط میں ہم کوشش کریں گے کہ ہم پہلی قسط میں بیان شدہ مطالب کے اسباب پر بحث کریں، ہمارے معاشرے کے اندر تنقید کا جو انداز اپنایا جاتا ہے، اس انداز سے اکثر ہمارے معاشرے کے افراد اس تنقید کو برائے اصلاح نہیں بلکہ دشمنی سمجھ کر اصلاحی بات کو بھی نطر انداز کرتے ہیں، ان کے مختلف اسباب ہیں۔

فکری تنہائی:
ہمارا پاکستانی معاشرہ اکثر اس مصیبت سے دوچار رہا ہے کہ ہمارے یہاں اصلاح پسند لوگ فکری تنہائی کا شکار رہے ہیں، اس کا سبب ان کا حلقہء احباب جو اُن کے قریبی لوگ ہوتے ہیں یا تو وہ اتنی زیادہ علمی صلاحیت نہیں رکھتے، جس سے بیان شدہ مطالب پر بحث و مباحثہ اور تجزیہ و تحلیل کے بعد ان مطالب کو معاشرے تک پہنچایا جائے۔ ہمارے پاس اکثریت ایسے لوگوں کی ہے یا تو مطالب کو سمجھنے یا بحث و مباحثہ جتنی صلاحیت نہیں رکھتے یا پھر احترام اور عقیدت کی وجہ سے خاموش رہ کر اس شخصیت کے اختلافی بننے میں کردار ادا کرتے ہیں، جسے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ یہ عمل شخصیت کے ساتھ محبت نہیں بلکہ یہ نادانی ہوتی ہے، جس سے اصلاح پسند شخصیات معاشرے کے اندر متضاد بنتی ہیں۔

ہمیشہ تعریف کرنے والے افراد کی آئمہ اہلبیت علیھم السلام نے بھی مذمت کی ہے۔ 
حضرت امام علی (ع) كی ایک حدیث میں ہے: مَن لاٰیَصحَبُكَ مُعِیناً عَلٰی نَفسِكَ فَصُحبَتُہُ وَبَالٌ عَلَیكَ "تمہارے دوستوں میں سے جو بھی تمہارے نفس كے خلاف جدوجہد میں تمہارا مددگار نہ ہوو اس كی دوستی تمہارے لیے وبال اور باعثِ زحمت ہے۔" لہٰذا وہ دوست جو تمہارے اندر كوئی عیب دیكھے اور تمہیں اس سے منع نہ كرے، تمہارے اندر انحراف و كج روی كا مشاہدہ كرے اور تمہیں راہِ راست كی طرف لانے كے لیے كوشش نہ كرے۔ تمہیں خطا میں مبتلا پائے اور درستگی كے لیے اقدام نہ كرے تو ایسے دوست كی دوستی سے پرہیز كرو۔ اس لیے كہ اس كی دوستی بالكل بے سود ہے بلكہ ممكن ہے كہ نصیحت كے سلسلے میں اس كا خاموش رہنا، كوئی اقدام نہ کرنا، تمہیں انحراف، گمراہی اور خطا كے راستے پر باقی ركھے اور یہ چیز تمہارے لیے باعثِ وبال بن جائے گی۔

اپنی رائے کو مقدم سمجھنا:
ہمارے معاشرے کے اندر جب ہم نظر دوڑائیں گے تو ہمیں یہ چیز اکثر دیکھنے کو ملی گی، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی راٸے کو مقدم اور حتمی سمجھا جائے، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ فکری کج روی کا شکار رہتے ہیں کہ ہر معاملے میں سب پر فقط میری ہی بات کو حتمی سمجھا جائے، اس کا سبب میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ اگر ہمارے اصلاح پسند افراد اس فکری تنہائی کا شکار نہ ہوتے تو معاشرے میں اس بیماری کا وجود نہ ہوتا۔ انسان بھی بڑی شاہکار مخلوق ہے، جب اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو کم پر بھی اکتفاء کر لیتا اور راضی ہو جاتا ہے، جب اس کے پاس کچھ زیادہ آتا ہے تو اس کو ہضم نہیں کرسکتا اور اس پر فخر کرنے لگتا ہے، جبکہ خوبصوتی یہ ہے کہ جو ملا ہے، اس پر شکر کرے اور اس کو زیادہ کرنے کے لئے اپنی دل کو وسیع کرکے موجودہ کی بہتری کے لیے تگ و دو کرے۔

اس سلسلے میں معصومین علیھم السلام کی روایات میں بہت ساری روایات ملتی ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کے پاس علم تین مراحل میں آتا ہے۔ جب انسان کے پاس عِلم کا پہلا درجہ آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں، یہاں تو سب جاہل ہیں، جب انسان کے پاس دوسرا درجہ آتا ہے تو کہتا ہے نہیں میری پاس جو عِلم ہے، وہ بہت ہی کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، جب تیسرا درجہ انسان کے پاس آتا ہے تو وہ انسان کہتا ہے کہ میرا عِلم تو میری جاہلیت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے، میری جاہلیت زیادہ ہے۔ ہمارا معاشرہ علمی لحاظ سے ابھی اس پہلے درجے میں سفر کر رہا ہے، بہت ہی کم لوگ ہیں، جو اس خوش فہمی سے محفوظ ہونگے۔

یک طرفہ تجزیہ: 
جب انسان فکری تنہائی اور خود پسندی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اکثر اوقات انسان معاشرے کے اندر موجود چیزوں کو ایک رخ سے دیکھ کر تجزیہ کرنا شروع کرتا ہے، یعنی کسی بھی معاملے کا ایک رخ دیکھ کر اس معاملے میں اپنی رائے کا اظھار کرنا اور سب سے بڑی مصیبت اسی بات پر ہی اپنا نظریہ قائم کرنا۔ اکثر و بیشتر آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم اظہار راٸے میں بہت جلد بازی سے کام لیتے ہیں، اس کے دو اسباب معاشرہ شناس لوگوں نے بیان کیے ہیں۔
1۔ لاعلمی
2۔ پسندیدگی (Favoritism)  یا ناپسندیدگی

1۔ لاعلمی:
لاعلمی یعنی اکثر اوقات ہمارہ تجزیہ لاعلمی کی بنیاد پر ہوتا ہے، یعنی ہمیں صحیح انداز سے ان چیزوں کے بارے میں علم نہیں ہوتا، جس کے وجہ سے اس تجزیہ کو معاشرے کے کم فہم افراد دشمنی اور عناد کا سبب بنا کر شخصیات کو متضاد بناتے ہیں اور یہی عمل سبب بنتا ہے کہ اصلاحی شخصیات کو متضاد بنا کر ان کی اصلاحی باتوں اور خدمات کو دشمنی کی نظر کیا جاتا ہے۔

2۔ پسندیدگی (Favoritism) یا ناپسندیدگی:
دوسرا سبب یک طرفہ تجزیہ کا پسندیدگی (Favoritism) یا ناپسندیدگی پر مبنی تجزیہ، اس کی بنیاد یہ ہے کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے، مجھے فلاں کا انداز پسند نہیں ہے، یا پھر اس طرح سے ہوتا ہے کہ مجھے فلاں کے کام سے یا نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بس مجھے وہ شخص بہت اچھا لگتا ہے، اس کا میرے ساتھ تعلق اچھا ہے، یعنی ہمارے معاشرے میں دشمنی یا دوستی کی بنیاد دین نہیں ہے، دیندار ہے، تبھی میرا دوست ہے، بے دین ہے، تبھی میں اس کا دشمن ہوں نہیں بلکہ اس کی بنیاد تعلق اور ذاتیات ہے۔ ان شاءَ اللہ اگلی قسط میں ان سب مسائل کا حل پیش کیا جاٸے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 959006
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش