2
1
Sunday 17 Oct 2021 15:02

داعش کا حل کیا ہے؟

داعش کا حل کیا ہے؟
تحریر: شاہد عباس ہادی

ظلم و جور کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جب تک دفاعی صلاحیت نہ ہو، دفاعی صلاحیت کا محور و مرکز مقاومتی جوان ہوتے ہیں۔ مقاومت ہی کے ذریعے عالمی صیہونی طاقتوں کو شکست فاش دی جاسکتی ہے۔ یہ طاقتیں عالم اسلام کو تباہ کر دینا چاہتی ہیں، یہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، جس کے آقا یہودی ہوں، یہ طاقتیں جب تک اپنا راج قائم نہیں کر لیتیں، اس وقت تک خون بہاتی رہیں گی، جس کیلئے داعش جیسی خونخوار تنظیم ان کا خطرناک ہتھیار رہا ہے۔ داعشی لشکر نے کروڑوں بےگناہ مسلمانوں کا خون بہایا ہے۔ اسرائیل، امریکہ، سعودی وہابیت و تکفیریت اور نام نہاد عرب حکمرانوں نے داعش کی دل کھول کر مدد کی اور اس خونخوار لشکر کو بطور عالمی ہتھیار چن لیا، تاکہ عالم اسلام میں بسنے والی انسانیت کو ذبح کیا جاسکے اور ایک شیطانی یہودی ریاست قائم ہوسکے۔

انہوں نے شام و عراق کا میدان چنا اور پوری طاقت سے حملہ کیا، مگر دنیا نے دیکھا کہ شام میں داعش کو کیسے شکست ہوئی، کس طرح سے مقابلہ ہوا اور کس طرح ہمارے جوانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر حرم کا دفاع کیا۔ 8 سال قبل جب دنیائے اسلام میں گونج اٹھی کہ تکفیری دہشتگرد اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ شام و عراق میں حملہ آور ہوگئے ہیں اور صحابہ کرام کی قبروں کو مسمار کرچکے ہیں اور اب اعلان کرچکے ہیں کہ روضہ مقدسہ سیدہ زینب سلام الله عليها کو گرا کر شام و عراق پر قابض ہو جائیں گے تو اس وقت پاکستان کے بہادر و وفادار بیٹوں نے حریت و حمیت کا ثبوت دیا اور داعش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ شام و عراق میں داعش جیسے خونخوار لشکروں کو نابود کیا۔

آج بھی داعش جیسے وحشی درندے زینبیون کے نام سے کانپ اٹھتے ہیں، یہ ایسے جوان تھے، جنہوں نے پاکستان میں اسلامی مقاومت کا تعارف کروایا، انہیں اپنی جان کی پرواہ نہیں تھی، اگر کوئی فکر و پریشانی تھی تو الہیٰ و محمدی دین کی فکر تھی، ان جوانوں نے بی بی سیدہ زینب سلام الله عليها کے حرم کیلئے سر کٹوا دیئے، مگر حرم پر آنچ نہ آنے دی۔ اگر یہ جوان شام و عراق میں داعش کے خلاف جنگ نہ کرتے تو آج ان کا مقابلہ کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ہو رہا ہوتا۔ اب ایک بار پھر اس خونی لشکر نے افغانستان میں پنجے گاڑ لئے ہیں اور دھماکوں سے خونی کھیل شروع کر دیا ہے، جس سے ناصرف افغانستان کا امن تباہ و برباد ہوگا بلکہ بعید نہیں ہے کہ یہ لشکر پاکستان پر حملہ آور ہو کر وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ اگر پاکستان اور عالم اسلام کی حفاظت مقصود ہے تو داعش جیسے وحشی لشکروں کا سدباب ضروری ہے۔

یاد رکھیں اگر ان وحشیوں کے خلاف قیام نہیں کریں گے تو یہ لشکر تمہیں غلامی اختیار کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ ان درندوں کا واحد حل صرف اور صرف مقاومت و مزاحمت ہے، ان کا حل وہ جوان ہیں، جو اسلامی مقاومت کے پرچم کو تھامے ہوئے ہیں، جنہوں نے عراق و شام میں داعش کو شکست سے دوچار کیا۔ داعش جیسے درندوں کا حل زینبیون اور حزب الله  کے جوان ہیں، جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر داعش کو نابود کیا۔ یہ جوان عالم اسلام اور عرب دنیا میں پاکستان کا ناز ہیں، پاکستان کا فخر ہیں، یہ جناح و اقبال کے نظریاتی مملکت کے غیرت مند فرزند ہیں۔ زینبیون کے یہ جوان وطن عزیز پاکستان کی محبت میں لبریز ہیں، ان جوانوں کی پہلی ترجیح پاکستان اور اس کی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ یہ پاکستان کیلئے حقیقی دفاعی لائن ہیں، اگر داعش پاکستان پر حملہ آور ہوئی تو زینبیون کے یہی جوان فرنٹ لائن پر نظر آئیں گے، جو پاکستان کی حفاظت کیلئے جان نچھاور کرنے کیلئے تیار ہیں، مادر وطن کے تحفظ کیلئے ہر گھر سے زینبیون نکلیں گے۔
خبر کا کوڈ : 959168
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
پاکستان میں اسلامی مقاومت۔۔۔۔۔ کیا جو لوگ پاکستان میں داعش کے بڑوں سے پہلے لڑتے رہے ہیں، انھوں نے اسلامی مقاومت کا تعارف نہیں کروایا تھا۔۔۔ یہ زینیبیوں تو کل کے بچے ہیں، جن لوگوں نے پاکستان میں داعش کے باپ دادائوں کی کمریں توڑیں اور اپنے گھر بار چھوڑ کر آوارہ ہوئے اور جیلوں میں گئے یا شہید ہوگئے وہ کیا تھا۔۔ انصاف نہیں کیا لکھنے والے نے۔۔ پاکستان میں مقاومت بہت پہلے سے جاری ہے۔
ہادی
Pakistan
ماضی کے بزرگ علماء ہمارے لئے محترم ہیں، ہم انہی کی روش پر چل رہے ہیں مگر ایک طریقہ ہے۔ جس مقاومت کا آپ تذکرہ کر رہے ہیں، وہ بھی عالمی مقاومت تھی، جسے آپ نے برسوں پیچھے چھوڑ دیا۔
خیر اب کیا ہوا؟
مقصد و ہدف سے کیا اختلاف ہے؟
آپ کیوں اس حقیقی راستے سے ہٹ گئے؟
اگر تکفیری اسلام کے دشمن ہیں تو زینبیون، فاطمیون، حیدریون نے ہی کیوں علم مقاومت بلند کیا ہے؟
جس مقاومت کا آپ تذکرہ کر رہے ہیں، وہ کہاں ہے؟
خیر جو کوئی بھی مقاومت کا داعی ہے، ملت اسلام کے جوان اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج زینبیون کا نام ہے تو کل کسی اور کا۔ مقاومت و مزاحمت ضروری ہے، جو ملت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
ہماری پیشکش