QR CodeQR Code

عراق میں جمہوری تماشہ

17 Oct 2021 20:49

اسلام ٹائمز: یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مقتدیٰ صدر کس گروپ کیساتھ اتحاد کرینگے، تاہم انکے لئے دوسروں کی نسبت آسانی ہے۔ مزاحمت و مقاومت کے مخالفین کی کوشش ہے کہ صدر گروپ، کردستان ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر چھوٹے چھوٹے آزاد گروپوں کیساتھ ملکر ایک بڑا دھڑا بنا لیں اور دوسرے گروہوں کا راستہ روک دیں۔ مقتدیٰ الصدر کا امریکہ کیساتھ مذاکرات کیلئے آمادگی کا پیغام اور انکے اور نوری المالکی نیز الفتح کے درمیان شدید اختلافات ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر اپوزیشن نے خاص توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ تاہم نئی پارلیمنٹ کے پہلے سیشن اور صدر مملکت اور نئی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے نام سامنے آنے کے بعد ہی بڑے دھڑے نیز عراق کے ممکنہ مستقبل کے وزیراعظم کے بارے میں زیادہ یقین کیساتھ تبصرہ کرنا ممکن ہوگا۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

عراق کے الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ صدر دھڑے نے ان انتخابات میں تہتر نشستیں حاصل کی ہیں اور وہ سرفہرست ہے۔ ان نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی صدر دھڑے نے بھی ٹوئٹ کیا ہے کہ اسے یہ نتیجہ قبول ہے۔ صدر دھڑے کے رہنماء نے ٹوئٹ کیا ہے کہ صدر گروہ کو انتخابات کے نتائج پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ عراق کے تمام شیعہ و سنی اور کرد گروہوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حکومت کی تشکیل میں تعاون کریں۔ دوسری جانب عراقی شیعوں کی رابطہ کمیٹی نے ملک میں ہوئے حالیہ پارلمانی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ عراقی شیعوں کی مذکورہ کوآرڈینیشن کمیٹی نے ایک بیان جاری کرکے انتخابات کے نتائج پر اپنی مکمل مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا ہائی الیکٹورل کمیشن انتخابات کے عمل کی شکست اور اس میں ہوئی بدانتظامی کا اصل ذمہ دار ہے۔ کمیٹی کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ انتخابات کی ناکامی سے عراق میں ڈیموکریسی اور اجتماعی اتحاد و یکجہتی پر برا اثر پڑے گا۔

قابل ذکر ہے کہ عراق کے الیکشن کمیشن نے ہفتے کی رات عراق کے قبل از وقت اور پانچویں پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ یہ نتائج حتمی نہیں ہیں اور ہاتھوں سے کی جانے والی ووٹوں کی گنتی کو ان نتائج میں شامل کیا جائے گا، جبکہ انتخابات کے نتائج پر نظرثانی کئے جانے کا امکان بھی پایا جاتا ہے۔ انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان انتخابات کے ایک دن بعد 11 اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ نتائج کے اعلان میں ایک ہفتے کی تاخیر کی وجہ کچھ گروپوں کا نتائج پر احتجاج تھا۔ احتجاج کی وجہ انتخابی دھاندلی کا مسئلہ تھا۔ 2018ء کے انتخابات کے مقابلے میں 10 اکتوبر کے الیکشن میں انتخابی دھاندلی کے زیادہ الزامات تھے، لیکن  موصول ہونے والی شکایات کا حجم 2018ء کے مقابلے میں بہت کم  ہے۔ پچھلے الیکشن میں 1875 جبکہ اس بار  صرف 356 شکایات یو این ایچ سی آر کے پاس قانونی ڈیڈ لائن کے اندر درج کی گئیں۔

عراق کے کچھ علاقوں میں انتخابی نتائج کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، لیکن احتجاج کرنے والے سیاسی گروہوں کے رہنماء عدم استحکام اور عدم تحفظ کا ڈھول نہیں پیٹ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں قانون کی حکمرانی نامی اتحاد کے سربراہ اور 2005ء سے 2014ء تک نو سال کے لیے عراق کے وزیراعظم  رہنے والے نوری المالکی نے اپنے بیان میں انتخابات کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیے بغیر اس میں موجود خامیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مسائل ظاہر کرتے ہیں کہ بعض تجزیوں کے برعکس عراق، انتخابی نتائج پر احتجاج کرنے کے نتیجے میں عدم استحکام اور عدم تحفظ کے دور میں داخل نہیں ہوگا بلکہ سیاسی گروہ ایک بڑا دھڑا بنانے کے لیے سودے بازی کے ایک اور مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، کیونکہ وزیراعظم کا انتخاب ضروری ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ حتمی نتائج کے اعلان کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ مقتدیٰ الصدر کی قیادت میں سائرون اتحاد نے دوسرے حریفوں کے مقابلے میں پارلیمنٹ کی 73 نشستوں کو بڑے فرق سے جیت لیا ہے، جو کہ تقدم اور قانوں اتحاد سے تقریباً دگنی نشستیں ہیں۔ تقدم اتحاد جس کی قیادت محمد الحلبوسی کر رہے ہیں، انہوں نے 37 اور قانون کی حکمرانی نامی اتحاد نے 34 نشستین جیتیں ہیں۔ عراقی سیاسی قانون کے مطابق وزیراعظم کو شیعوں میں سے نامزد کیا جانا چاہیئے۔ اس طرح، صدر دھڑے کے پاس ایک بڑا دھڑا بنانے اور وزیراعظم نامزد کرنے کا اہم موقع ہے۔ صدر کو اس مقصد کے حصول کے لیے مزید 92 نشستوں کی ضرورت ہے، کیونکہ بڑے دھڑے کو  50 فیصد حمایت کے ساتھ وزیراعظم کی نامزدگی کے لئے ایک اضافی رکن پارلیمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، گویا مقتدا صدر کو دوسرے الفاظ میں 165 نمائندے چاہیں۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مقتدیٰ صدر کس گروپ کے ساتھ اتحاد کریں گے، تاہم ان کے لئے دوسروں کی نسبت آسانی ہے۔ مزاحمت و مقاومت کے مخالفین کی کوشش ہے کہ صدر گروپ، کردستان ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر چھوٹے چھوٹے آزاد گروپوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا دھڑا بنا لیں اور دوسرے گروہوں کا راستہ روک دیں۔ مقتدیٰ الصدر کا امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادگی کا پیغام اور ان کے اور نوری المالکی نیز الفتح کے درمیان شدید اختلافات ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر اپوزیشن نے خاص توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ تاہم نئی پارلیمنٹ کے پہلے سیشن اور صدر مملکت اور نئی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے نام سامنے آنے کے بعد ہی بڑے دھڑے نیز عراق کے ممکنہ مستقبل کے وزیراعظم کے بارے میں زیادہ یقین کے ساتھ تبصرہ کرنا ممکن ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 959200

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/959200/عراق-میں-جمہوری-تماشہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org