1
Sunday 17 Oct 2021 21:57

انسانی حقوق کونسل میں امریکہ کی بے معنی واپسی

انسانی حقوق کونسل میں امریکہ کی بے معنی واپسی
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر
 
انسانی حقوق کے شعبے میں امریکہ کا شمار دنیا کے بدنام ترین ممالک میں ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ ہمیشہ سے انسانی حقوق کے مدافع اور محافظ کا دعویدار رہا ہے۔ حال ہی میں واشنگٹن اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں اپنی رکنیت بحال کرنے کے ایک بار پھر اس بین الاقوامی ادارے کو اپنے پست اہداف کیلئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے درپے ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعرات کے دن انسانی حقوق کونسل کے اٹھارہ اراکین کا اعلان کیا ہے جن میں امریکہ کا نام بھی شامل ہے۔ انسانی حقوق کونسل تین سال کیلئے تشکیل پاتی ہے اور نئی تشکیل پانے والی کونسل نے یکم جنوری 2022ء سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرنا ہے۔ اس کونسل کی تشکیل کیلئے جنرل اسمبلی میں خفیہ ووٹنگ انجام دی جاتی ہے۔
 
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انجام پانے والی حالیہ ووٹنگ کے نتیجے میں انسانی حقوق کونسل کے نئے اراکین کا اعلان کیا گیا ہے۔ امریکہ بھی کل 193 ووٹوں میں سے 168 ووٹ لے کر اس کونسل کا رکن بن چکا ہے۔ یاد رہے 2018ء میں امریکہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف جانبدارانہ موقف اپنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کونسل کو ترک کر دیا تھا۔ یوں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت کی جانب سے یکطرفہ طور پر اس کونسل سے باہر نکل جانے کے ساڑھے تین سال بعد امریکہ دوبارہ انسانی حقوق کونسل میں شامل ہو گیا ہے۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاوس میں داخل ہوتے وقت اعلان کیا تھا کہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کی اصلاح کریں گے۔
 
جو بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسے تمام بین الاقوامی اداروں اور معاہدوں میں واپس لوٹ جائیں گے جنہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ترک کیا تھا۔ انہی میں سے ایک عالمی ادارہ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل تھی۔ جو بائیڈن نے دس مہینے کی تاخیر سے اپنے وعدے پر عمل کیا ہے اور اس بین الاقوامی ادارے میں دوبارہ شامل ہو گئے ہیں۔ بائیڈن حکومت کی جانب سے متعدد بار انسانی حقوق کی حمایت کا دعوی کرنے اور حریف ممالک جیسے چین اور روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی وجہ قرار دینے کے باوجود امریکی حکومت خود امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اعتراف کرنے پر تیار دکھائی نہیں دیتی۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا موجودہ امریکی حکومت ان خلاف ورزیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی روک تھام کرے گی؟
 
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اپنی کئی رپورٹس میں امریکہ میں انجام پانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب اشارہ کر چکی ہے۔ امریکہ میں انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں وسیع پیمانے پر نسل پرستانہ اقدامات، قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں، امریکہ کے مقامی باسیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں، خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور غیر قانونی مہاجرین اور پناہ حاصل کرنے والے افراد کے ساتھ بدسلوکیوں پر مشتمل ہے۔ انسانی حقوق کونسل اب تک کئی بار امریکی حکومت سے ان خلاف ورزیوں کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے کا مطالبہ بھی کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے امریکہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید میں خاص طور پر سیاہ فام امریکی شہریوں کے خلاف پولیس کے ظلم و ستم کا ذکر کیا گیا ہے۔
 
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل امریکہ میں سسٹمیٹک نسل پرستی کا بھی نوٹس لے چکی ہے اور اسے ایسے ملک کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا قرار دے چکی ہے جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا محافظ اور حامی ہونے کا دعویدار ہے۔ دوسری طرف امریکی حکومت نے ہمیشہ سے انسانی حقوق کونسل کی آراء اور مطالبات سے بے اعتنائی اختیار کی ہے۔ جو بائیڈن نے برسراقتدار آنے کے بعد یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ ایسی حکومتوں سے تعلقات پر نظرثانی کریں گے جو اپنی عوام کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے آئے ہیں۔ خطے میں آل سعود رژیم ایسی حکومتوں میں سرفہرست ہے۔ سعودی حکومت نہ صرف ملک کے اندر شہریوں کے حقوق کی خلاف وزری میں ملوث ہے بلکہ اس نے 2015ء سے متحدہ عرب امارات سے مل کر یمن کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے جس میں اب تک لاکھوں بیگناہ شہری جاں بحق، زخمی اور جلاوطن ہو چکے ہیں۔
 
امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک نے نہ صرف آل سعود رژیم کو یمنی شہریوں کے قتل عام سے روکا نہیں بلکہ اسے اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس اور فوجی شعبوں میں تعاون بھی فراہم کر رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے اپنی الیکشن مہم کے دوران سعودی حکمرانوں کے خلاف بیانات دیے اور یمن کی جنگ کو "اسٹریٹجک سانحہ" قرار دیا لیکن برسراقتدار آنے کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا راستہ ہی اختیار کیا ہے۔ وائٹ ہاوس میں آنے کے بعد جو بائیڈن نے سعودی عرب کو اپنا اتحادی ملک قرار دیا اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحہ فراہم کرنا جاری رکھا۔ اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ انسانی حقوق کونسل کا دوبارہ رکن بننے کے بعد آیا امریکہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرے گا یا حسب معمول اس کونسل کو بھی اپنے مفادات کیلئے استعمال کرے گا؟
خبر کا کوڈ : 959202
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش