0
Tuesday 19 Oct 2021 06:33
اسلامی قیادت کے متمنی ممالک میں سے صرف تین ممالک کے اسرائیل کیساتھ تعلقات نہیں

مسلمانوں کے حقوق کی جنگ میں مسلم ممالک کی رینکنگ(3)

اسرائیل، اسلامی دنیا کیخلاف انٹیلی جنس معلومات اکثر ترکی میں بیٹھ کر حاصل کرتا ہے
مسلمانوں کے حقوق کی جنگ میں مسلم ممالک کی رینکنگ(3)
تحریر: ایس این حسینی

ترکی:
 
سلطنت عثمانیہ کے اختتام کے بعد نئے ترکی کے بانی اتاترک نے اس کا مذہبی حلیہ بگاڑ کر اسے مکمل طور پر سیکولر بنایا۔ انہوں نے ترکی کے اسلامی ورثے کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ حتی کہ عربی رسم الخط کو بھی ختم کرکے انگلش رومن رسم الخط رائج کرایا۔ ماضی میں تو ترکی مکمل طور پر سیکولر سٹیٹ رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ اس کے پہلے ہی سے سفارتی تعلقات ہیں۔ تاہم جسٹس پارٹی کے طیب اردوگان کی سربراہی میں قائم ترکی حکومت سیکولرزم کے بجائے اسلامائزیشن کا دعویٰ کرتی ہے۔ طیب اردوگان کسی حد تک مسلمانوں کے حقوق کی بات تو کرتا ہے، مگر عملی کارروائی کے بجائے انکا دعویٰ صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔ اب بھی ترکی کے اسرائیل کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ ترکی میں اسرائیل کے جاسوسی اڈے ہیں۔ حتی کہ اسلامی ممالک کے خلاف ماضی میں اسرائیل نے جتنی بھی کارروائیاں کی ہیں، ان کی معلومات اس نے ترکی ہی سے جمع کی ہیں۔ اگرچہ 2010ء میں فلسطینیوں کی امداد کے لئے انہوں نے غزہ فریڈم فلوٹیلا کے نام سے 6 پبلک جہاز بھیج دیئے۔ جس پر اسرائیل نے بمباری کرکے انہیں نقصان پہنچایا اور واپس کر دیا، جس کے بعد اسرائیل کے ساتھ کئی سال تک تعلقات منقطع رہے۔

تاہم فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی کبھی ترکی نے کوئی مالی یا فوجی امداد نہیں کی، بلکہ اسرائیلی جارحیت پر انہوں نے احتجاج تک نہیں کیا۔ حالانکہ ترکی اسلامی ممالک کی خانہ جنگیوں کا باقاعدہ حصہ رہا ہے۔ لیبیا میں دو متحارب دھڑوں میں سے ایک کی کمک سعودی عرب جبکہ دوسرے کی کمک ترکی کر رہا ہے۔ حالیہ افغانستان مسئلے کے دوران بھی ترکی فریق رہتے ہوئے طالبان کے خلاف اشرف غنی کے ساتھ رہا اور آخر دم تک ان کی مالی اور فوجی امداد کرتا رہا۔ شام اور عراق میں آج تک داعش کی باقاعدہ سپورٹ امریکہ کے علاوہ ترکی کرتا ہے۔ شام میں ترکی، امریکہ، داعش، القاعدہ، النصرہ اور اسرائیل شامی حکومت کے خلاف ایک ہی پیچ پر ہیں۔ ترکی دبے لفظوں میں پاکستان کی حمایت تو کرتا ہے، تاہم وہ انڈیا کے ساتھ بھی اپنا تعلق خراب نہیں کرتا۔ مسلم امت کے حوالے سے ترکی کی دوغلی پالیسی اور منافقت کی مثالیں بہت زیادہ ہیں، جس کے لئے ایک علیحدہ تحریر کی ضرورت ہے۔

ملائیشیا:
ملائیشیا اقتصادی لحاظ سے ایک ابھرتا ہوا اسلامی ملک ہے۔ ملائیشیا کی ترقی میں مہاتیر محمد کا اہم رول ہے۔ تقریباً 22 سال تک مسلسل حکومت میں رہ کر ڈاکٹر مہاتیر کی پالیسیوں نے اسے زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔ اسلامی اتحاد کے حوالے سے مہاتیر محمد بہت درد رکھتا ہے۔ اس کی سربراہی میں ملائیشیا بھی اسلامی خلافت اور سربراہی کے لئے پر تولنے والا اہم امیدوار تھا۔ تاہم بدقسمتی سے 2003ء کے بعد 2020ء میں صرف چند ہی مہینوں کے لئے انہیں حکومت ملی۔ مہاتیر کا وژن بہت گہرا اور دوررس ہے۔ وہ ایک مضبوط اسلامی بلاک کی تشکیل کے حامی ہیں۔ تاہم اب ایک طرف ان کی عمر 96 سال ہوچکی ہے، جبکہ دوسری طرف حکومت سے باہر ہونے کے باعث ملائیشیا سے وہ امید نہیں رکھی جاسکتی۔

قطر:
قطر ایک چھوٹا مگر تیل خصوصاً گیس سے مالا مال خلیجی ملک ہے۔ یہاں شخصی اور شاہی طرز حکومت رائج ہے۔ اسلامی ممالک کی سربراہی کا خواب دیکھنے والوں میں قطر بھی شامل ہے۔ قطر کے سابق شیخ خلیفہ نے اپنی بیٹی مصر سے مفرور اخوان المسلمین کے ایک اہم رہنماء اور عالم دین شیخ یوسف القرضاوی کے ساتھ بیاہی ہے، جس کی وجہ سے قطر پر اخوان المسلمین کو سپورٹ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ شیخ القرضاوی کافی شہرت کے حامل ہیں۔ 2012ء میں الاخوان کے نمائندے مرسی کی حکومت کے سب سے بڑے حامیوں میں ترکی اور ایران کے علاوہ قطر کو بھی شمار کیا جاتا رہا۔ مرسی کے دور حکومت میں مصر کے ساتھ ان تینوں متذکرہ ممالک کے تعلقات بہت گہرے تھے، تاہم ایک سال کے بعد مرسی کی حکومت کے خاتمے پر ایران اور ترکی کے علاوہ قطر کے بھی مصر کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے۔

مصر کے بعد 2017ء میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے تو سعودی عرب نے اپنی سرزمین قطر کے لئے بند کر دی، سعودی سرزمین سے کسی قسم کی گاڑی یا ہوائی جہاز کو اجازت نہ ہونے کی وجہ سے قطر کے اقتصادی حالات کافی متاثر ہوئے۔ خیال رہے کہ قطر بھی امریکی غلامی میں اپنے دیگر خلیجی اور عرب ریاستوں سے کسی طرح پیچھے نہیں۔ ایک طرف یہ ایران کا اتحادی ہے تو دوسری جانب 1996ء سے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم ہیں۔ یہی نہیں خلیج فارس میں اپنے زیر قبضہ علاقے میں امریکہ کو اڈہ بھی فراہم کئے ہوئے ہے، جس سے ایران کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ تھی قطر کی کہانی۔ جس کے لئے آپ خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں قطر کو کونسا رینک دیا جائے۔

متحدہ عرب امارات:
عرب امارات بھی قطر ہی کی طرح ایک چھوٹا مگر تیل سے مالا مال خلیجی ملک ہے۔ انٹرنیشل اور ہر قسم کی سہولیات سے لیس پورٹ کے حامل ہونے کی وجہ سے ایک متمول ریاست ہے۔ قطر ہی کی طرح یہاں بھی شخصی اور شاہی طرز حکومت رائج ہے۔ امارات کی سیاست پر امریکہ کے بعد سب سے زیادہ غلبہ سعودی عرب کا رہا ہے۔ لیبیا اور یمن میں سعودی عرب کا اتحادی رہا۔ اگرچہ اس وقت یمن کے مسئلے پر ان کے اختلافات ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ عرب امارات کو خلیفۃ المسلمین ہونے کے چھیچھڑے چند سال پہلے دکھائے دینے لگے ہیں۔ تیل کی دولت اور اپنے انٹرنیشنل پورٹ کا فائدہ اٹھا کر مختلف اسلامی ممالک میں سرمایہ کاری کرکے وہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا رہا اور پھر وہاں کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت شروع کی۔ چنانچہ شدت پسندوں اور عسکریت پسندوں کی کمک کرنے میں اپنی مثال آپ ہے۔

مالی کمک کی تاریخ تو اس کی پرانی ہے، تاہم 20 کی دہائی میں سعودی عرب کے مشوروں سے یمن اور لیبیا میں فوجی مداخلت پر اتر آیا۔ جس میں اس کو خاصا مالی اور جانی نقصان ہوا۔ دوبئی تو مکمل طور پر خالی ہوگیا۔ یمن کے خطرے سے یہاں کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ بہت دیر سے اس کو سمجھ آئی اور وہ یمن سے انخلاء کر گیا۔ سعودی عرب نے ٹرمپ کے کہنے پر مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی مہم شروع کی، تو اس کی ابتداء امارات ہی سے کرائی۔ چنانچہ امارات نے سعودی جھانسے میں آکر اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے۔ یہی نہیں، اسرائیلی شہریوں کو بغیر ویزہ کے وزٹ کرنے کی اجازت نیز شہریت دینے کی بھی پیشکش کی۔ جس سے خطے کے ممالک خصوصاً ایران کو کافی خطرہ لاحق ہوا۔ امریکہ اور اسرائیل کے لئے امارات کی خدمات کی لسٹ بھی یہاں کی گنجائش سے باہر ہے۔ 

اسی پر اکتفا کرتے ہوئے ایک بات کا تذکرہ کرتے چلیں کہ ان تمام سرفہرست اسلامی ممالک میں سے صرف پاکستان، ایران اور ملائیشیا ہیں، جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہیں۔ باقی سب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار ہیں۔ خیال رہے، او آئی سی کی تشکیل کا ہدف ہی فلسطین اور قدس کا حصول نیز اسرائیل کا خاتمہ تھا۔ باقی فیصلہ اپنے معزز قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ ان میں سے کونسا ملک اسلامی ممالک کی سربراہی کے لئے زیادہ فٹ ہے۔
خبر کا کوڈ : 959237
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش