0
Friday 22 Oct 2021 10:53

بلوچستان کے لاپتہ پارلیمانی ارکان کا پتہ

بلوچستان کے لاپتہ پارلیمانی ارکان کا پتہ
تحریر: اعجاز علی

بلوچستان حکومت کی صورتحال کو دیکھنے کے بعد ہر کسی کو یہی لگا کہ جام کمال خان کی حکومت کو اب کوئی نہیں بچا سکتا۔ اپوزیشن اور خود حکمران جماعت کے اراکین کے اس اتحاد نے دوسروں کو جہاں پریشان کر دیا وہیں خود وزیراعلیٰ جام کمال ہمیشہ کی طرح مطمئن تھے۔ حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اپوزیشن اور بی اے پی کے ناراض ارکان کے دعوے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں تب مانیں گے جب یہ اکثریت بلوچستان اسمبلی کے اندر دکھا دیں۔ وزیراعلیٰ جام کمال متعدد بار یہ بتا چکے ہیں کہ انہوں نے بعض ناراض ارکان سے بات کر لی ہے اور وہ جام کمال کا ساتھ دیں گے۔

تحریک عدم اعتماد کی کہانی میں ٹوئسٹ تب آیا، جب قرارداد پیش ہونے والے دن اسمبلی اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے 5 ارکان مقررہ وقت پر اسمبلی تک نہیں پہنچے۔ ان میں لالہ رشید بلوچ، حاجی اکبر اسکانی، بشریٰ رند، لیلیٰ ترین اور ماہ جبین شیران شامل ہیں۔ یہ پانچوں ارکان بلوچستان عوامی پارٹی کے ہیں۔ جن میں تینوں خواتین ایسی ہیں، جو الیکشن لڑ کر نہیں، بلکہ خصوصی نشستوں کے ذریعے اسمبلی فلور تک پہنچی ہیں۔ دیگر پارلیمانی ارکان نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کے موبائل فونز بند تھے۔ قرارداد کی منظوری کیلئے جہاں ان افراد کی حاضری ضروری تھی، وہی اس سے زیادہ ضروری یہ تھا کہ رائے شماری تک ان کا پتہ چل جائے، کیونکہ وہی اصل فیصلے کا دن ہے۔

گزشتہ شب جوش و ولولے کا مظاہرہ کرنے والے ارکان اگلے دن بلوچستان اسمبلی نہ پہنچے تو بعض ارکان یہی سمجھے کہ انہیں حکومت بلوچستان نے اغواء کر دیا ہوگا تاکہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکے۔ بی اے پی کے ناراض پارلیمانی رکن عبدالرحمان کھیتران نے وزیراعلیٰ کیخلاف قرارداد پیش کرتے ہوئے بھی اس بات کا تذکرہ کیا اور الزام لگایا کہ جام کمال نے قرارداد کو ناکام بنانے کیلئے ہمارے 5 ارکان کو اغواء کروایا ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنی تقریر کے دوران اس بات کی تردید بھی کی اور کہا کہ جس طرح بعض دیگر افراد غیر حاضر ہیں، آپ کے ساتھی بھی غیر حاضر ہیں۔ اسمبلی کا اجلاس جاری تھا کہ ان 5 افراد میں سے ایک رکن اسمبلی لالہ رشید بلوچ اسمبلی اجلاس کے دوران حاضر ہوئے۔ باقی کے چار ارکان کا کوئی پتہ نہیں تھا۔

بہر حال ناراض بی اے پی ارکان اور اپوزیشن وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف قرارداد پاس کرنے میں کامیاب رہی اور تحریک عدم اعتماد کی رائے شماری کیلئے 25 اکتوبر کے دن کو مقرر کر دیا گیا۔ اجلاس کے بعد چار افراد کے لاپتہ ہونے کی باتیں پھر زیر بحث آگئی اور ان کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسمبلی پر احتجاج بھی کیا گیا۔ جام کمال کی مخالفت کرنیوالے 34 پارلیمانی ارکان صوبائی سپیکر عبدالقدوس بزنجو کے گھر پناہ لینے کیلئے چلے گئے۔ بی اے پی کے قائم مقام صدر ظہور بلیدی نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ان ارکان نے گزشتہ شب صوبائی سپیکر کی رہائشگاہ پر گزاری ہے۔ بی اے پی کے رہنماء نے یہ بھی کہا کہ لاپتہ افراد پر تشدد کرکے انہیں جام کمال کا ساتھ دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

در این اثناء لاپتہ قرار دیئے جانے والی ایک اور پارلیمانی رکن بشریٰ رند کا پیغام سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹویٹر پر آ گیا۔ انہوں نے دعا کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے علاج کے غرض سے اسلام آباد آئی ہوں۔ ان کے بعد ماہ جبین شیران کا بھی پیغام ٹویٹر پر ہی آیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض ذاتی وجوہات کی بناء پر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر پائی۔ میں بالکل ٹھیک اور محفوظ ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے سیاسی معاملات زیر بحث ہیں اور بلوچستان کے عوام کے حق میں ہونگے۔

دوسری جانب ظہور بلیدی ان ٹویٹس کے بعد بھی اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ جام کمال کی مخالفت کرنیوالے چار ارکان لاپتہ ہیں۔ انہوں نے آئی جی پولیس سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ ان پارلیمانی ارکان کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔ ان کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان آئی جی پولیس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم لاپتہ پارلیمانی ارکان کے گھر بھی گئے ہیں، مگر گزشتہ روز سے ان کی کوئی خبر نہیں ہے۔ ایک اور بات جو الجھاؤ کا باعث بنی ہے وہ یہ ہے کہ گزشتہ شب بی اے پی کے ارکان نے پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی تبدیلی کی درخواست صوبائی سپیکر کو جمع کروائی ہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جام کمال خان کے بجائے بی اے پی کا پارلیمانی لیڈر ظہور بلیدی کو مقرر کیا جائے۔ یہ درخواست اس اجلاس کے بعد جمع کروائی گئی ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 4 ناراض پارلیمانی ارکان کو لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بل میں ان چاروں افراد کے دستخط بھی موجود ہیں، جو لاپتہ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ درخواست بی اے پی کے ارکان نے پہلے لکھی ہو اور اب جمع کروائی ہو۔ ظہور بلیدی بلوچستان اسمبلی میں بی اے پی کے پارلیمانی لیڈر تو بن گئے، مگر انہیں ابھی تک چار لاپتہ پارلیمانی ارکان کا کچھ پتہ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 959871
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش