0
Saturday 23 Oct 2021 11:30

مخلوق، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل معرفت سے عاجز ہے

مخلوق، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل معرفت سے عاجز ہے
تحریر: ساجد علی، نجف الاشرف عراق

جس طرح ہر شخص اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت سے عاجز ہے اور صرف بعض صفات کی پہچان اور معرفت حاصل کی جاسکتی ہے، اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کے کمالات اور فضائل کی حقیقت لوگوں سے پوشیدہ ہے اور صرف کچھ حد تک معرفت ممکن ہے، جیسا کہ حضور نے حضرت علی (علیہ السلام) سے ارشاد فرمایا: "مجھے کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ اور آپ کے۔" معرفت کے معنی کسی چیز سے مطلع ہونا اور اس کی خصوصیات اور نتائج کا علم پانا ہے۔ علم و معرفت کا فرق یہ ہے کہ اگر معلوم چیز، انسان کے ذہن میں آجائے اور پانچ حواس کے ذریعے ادراک ہو جائے، اسے علم کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ذاتِ تعالیٰ کا تصور نہیں کیا جاسکتا تو وہ معلوم نہیں ہوگا، لیکن معرفت یعنی کسی چیز کو اس کے علاوہ سے، پہچان لیا جائے، اسی لیے اللہ کے لئے "علمتُ الله" نہیں کہا جاتا، بلکہ "عرفتُ الله" کہا جاتا ہے۔ ذاتِ باری تعالی کی معرفت کسی کے لئے حتی مقرب ملائکہ اور مرسل نبیوں کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔

دوسرے لفظوں میں علمی احاطہ، ہر چیز کی کنہ (ذات) تک پہنچنے اور ہر لحاظ سے اس کی معرفت پانے کی اصل شرط ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر احاطہ کیے ہوئے ہے، اسی لیے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "ما عرفناک حق معرفتک"[1]، "(بارالہا) جو تیری معرفت کا حق ہے، ویسا تجھے ہم نے نہیں پہچانا" اور حضرت امیرالمومنین بھی فرماتے ہیں: "لَا یُدْرِکُهُ‏ بُعْدُ الْهِمَمِ‏ وَ لَا یَنَالُهُ غَوْصُ الْفِطَنِ[2]"، "نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں، نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں۔" بنابریں اللہ تعالیٰ کی کنہ ذات کی معرفت حاصل کرنا، مخلوقات کے لئے ناممکن ہے، لیکن معرفت الہیٰ کی جتنی مقدار مخلوقات کے لئے ممکن ہے، اس کے بھی درجات ہیں۔ ان درجات کی بلندی اور چوٹی پر اہل بیت (علیہم السلام) ہیں اور اس چوٹی سے نیچے ان حضرات (علیہم السلام) کے شیعہ اور پیروکار ہیں اور دوسرے لوگوں کا اس معرفت سے بالکل دامن خالی ہے اور جتنی معرفت مخلوق کے لئے ممکن ہے، وہ اہل بیت (علیہم السلام) کو حاصل ہوچکی ہے، اسی لیے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لَوْ کُشِفَ‏ الْغِطَاءُ مَا ازْدَدْتُ یَقِیناً[3]"، "اگر پردے ہٹ جائیں تو میرے یقین میں کچھ اضافہ نہ ہوگا۔"

یہ اہل بیت (علیہم السلام) جو اللہ کی معرفت میں ساری مخلوقات سے پیشقدم اور آگے آگے ہیں، جو عظمت، اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی ہے، اتنی بلند و بالا ہے کہ ان حضرات کا اس امت کے کسی شخص سے موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں: "لَا یُقَاسُ‏ بِآلِ‏ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَحَدٌ وَ لَا یُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَیْهِ أَبَداً هُمْ أَسَاسُ الدِّینِ وَ عِمَادُ الْیَقِین‏"[4]، "اس امت میں کسی کو آلِ محّمد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں۔ وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔" اس پاک و پاکیزہ اور بلند رتبہ گھرانہ کے سرفہرست پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقیقت کیونکہ وہی قرآن مجید کی حقیقت ہے اور قرآن مجید کی حقیقت کی پہچان عام لوگوں کے لئے ناممکن ہے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت بھی سب لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہے، البتہ یہ فرق ہے کہ بعض لوگ حقیقتِ نبوت کے کچھ حصہ کا ادراک کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں، لیکن دنیا کے کنویں میں گرے ہوئے، ہرگز رسالت کی حقیقت کو درک نہیں کرپاتے، لہذا اس کا انکار کر دیتے ہیں۔

اسی لیے ذات باری تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: "وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ[5]"، "اگر تم ان کو ہدایت کی دعوت دو گے تو سن بھی نہ سکیں گے اور دیکھو گے تو ایسا لگے گا جیسے تمہاری ہی طرف دیکھ رہے ہیں، حالانکہ دیکھنے کے لائق بھی نہیں ہیں۔" بنابریں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہچان، قرآن کی پہچان کے بغیر ممکن نہیں ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علمی مقام کو تب پہچانا جاسکتا ہے کہ قرآن کی حقیقت کو پہچانا جائے، کیونکہ ہر نبی اپنی کتاب جتنا لوگوں کو حق کی طرف پکارتا ہے اور جو کچھ اس نبی کی کتاب کی تدوینی آیت کے طور پر ہے، اُس نبی کے وجود میں تکوینی آیت اور عینی وجود کے طور پر پایا جاتا ہے۔ لہذا جیسے آسمانی کتاب کے معارف کے درجات ہیں، انبیاء کی رسالت و ولایت کے بھی درجات ہیں اور کیونکہ قرآن کی حقیقت تک سب کی رسائی ممکن نہیں اور صرف اس کے بعض درجات تک رسائی ممکن ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی علمی مقام کی حقیقت تک رسائی سب کے لئے ممکن نہیں اور بعض خصوصیات کی پہچان ممکن ہے۔

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "ما کَلَّم رَسُولُ اللّهِ الْعِبادَ بِکُنْهِ عَقْلِهِ قَطُّ[6]"، "رسول اللہ نے ہرگز اپنی عقل کی گہرائی کے مطابق بندوں سے بات نہیں کی"، یعنی لوگ جو کچھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیانات سے سمجھتے تھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام اور سوچ کی گہرائی کے برابر نہیں تھی اور جتنا لوگ اوپر جائیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سوچ کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے۔ ایسا کیوں نہ ہو، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شاگرد، خلیفہ بلافصل اور وصی برحق علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں: "یَنْحَدِرُ عَنِّی السَّیْلُ وَ لَا یَرْقَى إِلَیَّ الطَّیْرُ[7]"، "میں وہ (کوہ ُبلند ہوں) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا"

ایسے شاگرد کے استاد یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے شاگرد یعنی حضرت علی (علیہ السلام) سے فرماتے ہیں: "وما عَرَفَني إلَا اللّهُ وأنتَ[8]"، "اور مجھے کسی نے نہیں پہچانا سوائے اللہ اور آپؑ کے۔" رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کی پہچان سے لوگوں کے عاجز ہونے کی دیگر دلیلیں یہ ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ عظیم شخصیت ہیں، جنہوں نے معراج کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں دیکھیں اور معراج میں ایسے مقام پر پہنچے کہ وہاں سے جبرائیل (علیہ السلام) جو اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں میں سے ہیں، آگے نہیں بڑھ سکتے تھے اور وہاں پر اپنے رک جانے اور مزید نہ بڑھنے کے بارے میں بتا دیا۔ جو رسول سدرۃ المنتہیٰ اور مقام قاب قوسین او ادنی پر اللہ سے ہم کلام ہوئے ہوں، ان کے مقام کی پہچان عام لوگ کیسے کرسکتے ہیں!

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ عظیم شخصیت ہیں، جنہوں نے عہد و میثاقِ الہیٰ کے موقع پر تمام انبیاء پر سبقت لی اور اِس دنیا میں آنے کے لحاظ سے سب انبیاء کے بعد تشریف لائے، تاکہ تمام انبیاء کے کام کو انجام تک پہنچا دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کے لحاظ سے سب سے آگے ہیں اور کوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کے مقامات پر احاطہ کیے ہوئے ہیں، جبکہ انبیاء کے مقامات نہایت ہی بلند ہیں کہ انبیاء میں نوح شیخ الانبیاء، ابراہیم خلیل الرحمن، موسیٰ کلیم اللہ اور عیسی روح اللہ جیسے اولوالعزم انبیاء پائے جاتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری مخلوق پر شاہد اور گواہ ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت کے درجات جہاں تک حاصل کرنا ممکن ہیں، تواضع اور انکساری کے ذریعے ممکن ہیں۔

نتیجہ:
جب تک انسان اللہ کے اس امتحان یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کی عظمت کے سامنے تسلیم نہ ہو جائے، تب تک ان حضرات کی عظمت کا ادراک نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو خاکی لباس اور بشری جسم کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا ہے اور یہ چیز لوگوں کے لئے امتحان کا باعث ہے کہ کیا وہ افراد جن کا ظاہر عام لوگوں کی طرح ہے، ان میں ایسے کمالات اور مقامات پائے جاتے ہیں، جو دوسرے لوگوں میں نہیں ہیں، جن کی وجہ سے یہ افراد سب سے افضل اور برتر ہیں؟! یہی بات تو پس پردہ تھی، جب ابلیس کو حکم ہوا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرے، لیکن اس نے ظاہر یعنی گیلی مٹی سے پیدا ہونے والے جسم کو دیکھ کر اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور تواضع نہ کی، جبکہ اس مسجود ملائکہ کی حقیقت اور باطن میں ایسی عظمت چھپی ہوئی تھی اور اس کی صلب میں ایسی باعظمت ہستیاں پائی جاتی تھیں کہ اگر اللہ تعالی ان کو ظاہر کر دیتا تو شیطان بھی سجدہ کر دیتا۔

لیکن پھر وہ امتحان ہی نہ رہتا اور یہ ثابت نہ ہو پاتا کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تواضع اور انکساری کی ہے۔ لہذا ان مقامات کو چھپاتے ہوئے سجدہ کرنے کا حکم ہوا، اسی طرح اِس دنیا میں بھی انسانوں کے لئے ان حضرات کے مقامات، پس پردہ چھپے ہوئے ہیں، جن کا ہر کوئی ادراک نہیں کرسکتا، ظاہر میں یہ حضرات انسانی خاکی جسم میں دکھائی دیتے ہیں، مگر ان کے مقدس وجود میں اللہ نے ایسے کمالات قرار دیئے ہیں، جن کمالات میں سے بعض کا تواضع اور انکساری کے ذریعے اور اطاعت الہیٰ اور ان حضرات کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے ہی انسان ادراک کرسکتا ہے۔ لہذا مخلوق عاجز ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکمل طور پر پہچان سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، علامہ مجلسی، ج8، ص146۔
[2] نہج البلاغہ، خطبہ 1۔
[3] ارشاد القلوب، ج2، ص212٫
[4] نهج البلاغه، خطبه2۔
[5] سورہ اعراف، آیت 198۔
[6] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج1، ص85۔
[7] نہج البلاغہ، خطبہ3 (شقشقیہ)۔
[8] مختصر بصائر الدرجات : ص125 ، تأويل الآيات الظاهرة : ج1 ص139 ح18 اور ص221 ح15۔
خبر کا کوڈ : 960085
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش