1
0
Sunday 24 Oct 2021 10:21
جنگ بھڑکانے میں انتظامیہ کا کردار

پیواڑ گیدو پہاڑ تنازعے کا پوسٹ مارٹم

متنازعہ علاقہ سرکاری ریکارڈ میں کس کا ہے؟
پیواڑ گیدو پہاڑ تنازعے کا پوسٹ مارٹم
تحریر: ایس این حسینی

ٹھیک چودہ قمری سال قبل عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر دہشتگردوں نے طوری قوم کو نشانہ بنا کر موقع پر انکے تین افراد شجاعت حسین، سید باقر حسین اور منتظر حسین کو شہید کرنے کے بعد جنگ کی آگ بھڑکائی تھی۔ جو بعد میں کرم میں رہنے والی اقوام کے لئے نہایت بھیانک ثابت ہوئی تھی۔ آج ایک بار پھر اسی واقعے کی یاد تازہ کرکے پیواڑ کے پہاڑوں میں افغانی الاصل منگل قبیلے نے پیواڑ کے طوری قبیلے کے افراد کو اس وقت نشانہ بنایا، جب وہ اپنے جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔ دہشتگردوں کی فائرنگ سے موقع پر تین افراد جواد حسین ولد مولانا علی اصغر، سید علی ولد سید اصغر اور محمد حسین (طور) ولد غلام حسن جام شہادت نوش کرگئے، جبکہ باقی افراد جنگل میں مخالف فریق کے نرغے میں محصور ہوگئے۔

تنازعے کی اصل وجہ:
پیواڑ کے طوری قبائل نہ صرف پیواڑ اور مضافات میں موجود جنگلات کے مالک ہیں بلکہ بارڈر پر آباد دیہات تری منگل، کوتری، گیدو، گوبزانہ، سرسرنگ، میرمئے اور غوجرغونئے وغیرہ بھی سرکاری ریکارڈ کے مطابق اہلیان پیواڑ کی ملکیت ہیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ علاقوں کی منگل اور خروٹی اقوام نے وقت کی حکومتوں اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے ان علاقوں پر قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ پھر دیہات تو کیا جنگلات پر بھی انہوں نے قبضہ شروع کر دیا۔ پیواڑ تنگی میں گورگت کے نام سے ایک پہاڑ ہے۔ جس پر گذشتہ تین عشروں سے طوری اور منگل قبائل کا تنازعہ چلا آرہا ہے۔ تقریباً پندرہ سال قبل جب مقامی انتظامیہ نے کاغذات مال کی روشنی میں مسئلے کا فیصلہ اہلیان پیواڑ کے حق میں کر دیا تو مقابل فریق اپنی سابقہ روایات کے مطابق مکمل طور پر مکر گیا اور فیصلہ کو مسترد کرکے ہائی کورٹ میں اپیل کر دی۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی اے پی اے کرم ہی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے طوریوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ تاہم غیر طوری (افغان الاصل) قبائل نے اس مرتبہ بھی فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ حکومت کا مرتب کردہ ریونیو ریکارڈ تسلیم نہیں کرتے۔

مقامی انتظامیہ کی سرد مہری:
فیصلے کے بعد کئی مرتبہ طوری قبائل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مذکورہ زمین ان کی ملکیت ہے۔ لہذا انہیں پورا تحفظ دیا جائے، تاکہ اپنے پہاڑ اور جنگل سے سوختنی لکڑی لاسکیں۔ مگر حکومت نے تحفظ دینے اور فیصلے کو لاگو کرنے کی بجائے طوری قبیلے کو صبر کی تلقین کی اور کہا کہ وہ کچھ عرصہ مزید صبر کریں۔ کچھ عرصہ مزید صبر کرنے کے بعد گذشتہ سال اہلیان پیواڑ کے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوگیا تو اہلیان پیواڑ لکڑی کاٹنے جنگل گئے اور ٹریکٹرز کے ذریعے دو ٹرالی لکڑی اپنے ساتھ لائے۔ تاہم حکومت نے مداخلت کرکے انہیں مزید لکڑی لانے سے منع کر دیا۔ جب اس پر کافی عرصہ گزر گیا تو بروز ہفتہ 16ربیع الاول کو پیواڑ کے جوان اپنے پہاڑ سے لکڑی کاٹنے چلے گئے۔ جنہیں منگلان نے برداشت نہ کیا اور محاصرہ کرکے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ جس کے بعد جنگ چھڑ گئی۔ نتیجے میں 3 افراد موقع پر جاں بحق اور 4 شدید زخمی ہوگئے، جبکہ 10 کے قریب لوگ مقابل فریق کے محاصرے میں پہاڑ کے اندر رہ گئے۔ جنگ تادم تحریر جاری ہے۔ مزید جانی نقصان کا خدشہ پایا جاتا ہے۔

انجام: 
ان واقعات کا انجام بہت بھیانک ہے، تاہم حکومت کو وہی بھیانک انجام مطلوب ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ قبائل آپس میں لڑ کر اپنی طاقت آپس ہی میں ختم کر دیں۔ حکومت چاہے تو افغانستان کی پوری مملکت کو امن میں تبدیل کرسکتی ہے۔ مگر قبائل کی لڑائیاں ختم کرنا اس کے پیش نظر کبھی بھی نہیں۔ پورے کرم کا ریونیو ریکارڈ موجود ہے۔ جس میں مالک اور مزارعے (مسایہ) کا تعین کیا جا چکا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق ہر شخص کی اپنی ذاتی زمین کا ریکارڈ خسرہ نمبر کی صورت میں موجود ہے۔ پہاڑوں کا ریکارڈ ڈی 49 اور ایچ 49 اسی طرح صحرا اور شاملات کا ریکارڈ واجب الارض کی صورت میں کچھ اس طرح موجود ہے کہ یہ کسی خاص فرد کے نام انتقال نہیں، بلکہ خاص قبیلے یا قبائل کے نام ہیں۔ چنانچہ گورگت پہاڑی کا ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہے۔ وہ ریکارڈ کے مطابق معلوم کرسکتی ہے کہ یہ پہاڑی علاقہ کس قبیلے کے نام ہے،مگر سو سال بعد بھی حکومت ایسا اقدام نہیں کرے گی۔ وما علینا الا البلاغ
خبر کا کوڈ : 960264
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

amjad ali.
Pakistan
modeled malomaat share karne ka shokriya.
ہماری پیشکش