QR CodeQR Code

پیغمبر رحمتﷺ اور انسانیت کا مستقبل

25 Oct 2021 09:09

اسلام ٹائمز: انسانیت کا مستقبل پیغمبر رحمت (ص) کے بتائے ہوئے اصولوں پر کاربند ہونے کی صورت میں ہی منور و روشن ہوسکتا ہے۔ اگر تمام عالم بشریت قیامت تک آنیوالی تمام نسلیں سیرت، پیغمبر رحمت (ص) کو راہ عمل منتخب کرکے راہ پیغمبر رحمت (ص) پر گامزن ہو جائیں تو انسانی زندگی سے تاریکیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، ظلم و بربریت کی سیاہ آندھی چھٹ جائے گی۔ خود پسندی اور عناد و حسد کے بت پاش پاش ہو جائیں گے اور انسانی زندگی نور رحمة اللعالمین سے پر نور ہو جائے گی۔ تاریک زندگی میں اجالا آجائے گا۔ چونکہ سیرت پیغمبر (ص) منزل تک پہنچنے کیلئے چراغ راہ ہے۔


تحریر: ڈاکٹر علی عباس نقوی

رحمت
رحمت معروف عربی کلمہ ہے، جس کے معنی اس کے متضاد سے سمجھے جا سکتے ہیں۔ بہت الفاظ کے معانی ان کے متضاد معنی سے سمجھے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک لفظ رحمت ہے، جس کا متضاد غضب ہے۔ رحمت کا لفظ جب انسان کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد انسان کا نرم و نازک دل والا ہونا اور مہربانی کرنا ہے۔ لیکن یہی لفظِ رحمت جب اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا مہربانی و احسان کرنا اور اپنی مخلوقات سے نعمات کا نہ سلب کرنا اور عفو و بخشش کرنیوالا ہے۔ علم فقہ میں اس کلمہ کو طہارت، صلاۃ اور نکاح کے ابواب میں ضمنی طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔

اللہ اور انسان کے رحیم ہونے میں فرق
رحمت کا لغوی معنی واضح و آشکار ہے اور عربی زبان میں رحمت کے جو معنی رائج ہیں، اسی معنی میں اس صفت کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متصف کیا جاتا ہے۔ لیکن اس صفت کو اللہ کیلئے ثابت کرتے ہوئے ہر قسم کے عیب و نقص اور محتاجی کی اللہ تعالیٰ سے نفی کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیب و نقص اور ہر قسم کی محتاجی و فقر سے بے نیاز و پاک و منزہ ہے۔ اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کیلئے رحمت کا ایسا معنی مراد نہیں لے سکتے، جس سے اللہ تعالیٰ کیلئے کسی احتیاج یا نقص کا ہونا لازم آئے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظِ رحمت انسان کیلئے نرمی، محبت سے پیش آنا اور لغزشوں و کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کے معنی میں آتا ہے، لیکن یہی لفظ جب اللہ سبحانہ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے معنی اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہستی کے شایان شان مراد لینا ہوں گے۔ یوں اللہ تعالیٰ کے رحیم ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا انسان کی خطائیں بخش دینا اور انسان کی غلطیوں، بڑے بڑے جرائم پر فوراً پکڑ نہ کرنا اور نعمات سے اس کو نوازنا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسی بنا پر اپنی ذات کو رحمن اور رحیم کی صفت سے متصف کیا ہے۔

رسول اللہ (ص) کا رحیم ہونا
قرآن کریم میں رحیم کی صفت اللہ تعالیٰ کیلئے اور رسول اللہ (ص) کیلئے بھی استعمال کی گئی ہے اور آپ (ص) کے ہمراہ جو صحابہ کرام رہے، ان کے لیے رحیم کی جمع رُحماء استعمال کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ "بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ص) تشریف لائے، تمہارا (گمراہ رہنے کی صورت میں ہمیشہ کی) تکلیف و مشقت میں پڑے رہنا ان پر بہت سخت و بھاری ہے، وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مؤمنین کیلئے نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔" رسول اللہﷺ کے ہمراہ رہنے والوں کیلئے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ "محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کیساتھ ہیں، وہ کفار پر شدید اور آپس میں رحم کرنیوالے اور مہربان ہیں۔" امام صادقؑ ایک مفصل حدیث میں رحمت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ "رحمت عقل کے لشکر میں سے ہے اور غضب جہل کے لشکر میں سے ہے۔"

پیغمبر رحمتﷺ کی زندگی سے چند نمونے
بچوں کو اہمیت دینا
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ مسلمانوں کیساتھ نماز ظہر جماعت سے پڑھ رہے تھے، لیکن معمول کے برخلاف آنحضرت نے آخری دو رکعتوں کو بہت جلدی تمام کر دیا۔ نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے پوچھا: یارسول اللہ! کیا ہوا ؟ کوئی حادثہ پیش آیا ہے کہ اتنا جلدی نماز تمام کر دی؟ آپ نے فرمایا: "ما سمعتم صراخ الصبی" تم نے بچے کے رونے کی آواز نہیں سنی تھی؟

گالیوں کے مقابلے میں خاموشی
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ایک گروہ کے پاس سے گزرے، جن میں ایک شخص بہت بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھلا رہا تھا اور لوگ اس کے اطراف میں جمع ہو کر اس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت نے ان سے فرمایا: یہاں کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا: یہ آدمی بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت دکھلا رہا ہے۔ فرمایا: کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک شخص کی خبر دوں، جو اس سے زیادہ شجاع ہے۔ عرض کیا: جی ہاں یارسول اللہ! فرمایا: وہ شخص جس کو سامنے والا گالیاں دے رہا ہو اور وہ خاموشی سے سنتا رہے، اسے برداشت کرے اور اپنے نفس اور شیطان پر قابو پا لے، وہ اس سے زیادہ شجاع ہے۔

مومن کے احترام کیلئے کھڑا ہونا
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی وارد ہوا۔ آنحضرت اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ اس شخص نے کہا: یارسول اللہ! جگہ کافی ہے، آپ کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟ فرمایا: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ اس کے پاس بیٹھنے کیلئے آئے تو وہ اپنی جگہ اس کو دے دے۔

مزدورں کے ہاتھ کو بوسہ دینا
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگ تبوک سے واپس لوٹ رہے تھے تو سعد انصاری آپ کے استقبال کیلئے گئے، نبی اکرم (ص) نے ان کے ساتھ مصافحہ کیا اور جب اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: تمہارے ہاتھ اتنے کُھردرے کیوں ہیں؟ کہا: یارسول اللہ! میں کلہاڑی اور بیلچے سے کام کرتا ہوں اور اپنے گھر والوں کیلئے روزی مہیا کرتا ہوں۔ رسول خدا (ص) نے سعد کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور فرمایا: یہ وہ ہاتھ ہے، جس تک آتش جہنم کی حرارت نہیں پہنچے گی۔

دنیا کی نسبت بی رغبتی
سہل بن سعد ساعدی کا کہنا ہے: ایک آدمی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیجئے کہ جب میں اسے انجام دوں تو خدا اور اس کی مخلوق کا محبوب قرار پاوں۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: دنیا سے بے رغبت ہو جاو، تاکہ خدا تمہیں دوست رکھے اور جو کچھ مال دنیا تمہارے پاس ہے، اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو، تاکہ لوگ تم سے راضی ہو جائیں۔

نماز کی تاثیر
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیساتھ نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا: یارسول اللہ! میں نے ایک گناہ کیا ہے، اس کی مغفرت کیلئے کیا کروں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف سے رخ موڑ لیا۔ جب نماز تمام ہوگئی تو وہ آدمی دوبارہ اٹھا اور اس نے اپنا سوال تکرار کیا۔ رسول خدا (ص) نے اس کے جواب میں فرمایا: کیا تم نے ابھی نماز ادا نہیں کی، کیا اس کیلئے اچھے طریقے سے وضو نہیں کیا؟ عرض کیا: کیوں نہیں یارسول اللہ! فرمایا: یہی نماز، تمہارے گناہوں کا کفارہ اور ان کی بخشش کا سبب ہے۔

تحفہ
ابن عباس ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور مہاجرین اور انصار کا ایک گروہ بھی مجلس میں حاضر تھا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جو شخص بازار جائے اور اپنے اہل و عیال کیلئے تحفہ و تحائف خریدے، وہ اس شخص کی طرح ہے، جس نے محتاجوں کو صدقہ دیا ہے اور نیز فرمایا: کھانا، پھل، اور دیگر تحائف تقسیم کرتے وقت سب سے پہلے لڑکیوں کو دو، اس کے بعد لڑکوں کو۔ یقیناً جو شخص اپنی لڑکی کو خوش رکھے گا، وہ اس شخص کی طرح ہے، جس نے بنی اسماعیل میں سے ایک غلام کو آزاد کیا ہو اور جو شخص اپنے بیٹے کو رونے سے چپ کروائے اور اسے کچھ دے کر خوش کرے، وہ اس شخص کی طرح ہے، جس نے خدا کے خوف سے گریہ کیا ہے اور جو شخص خوف خدا کی وجہ سے گریہ کرے، خداوند عالم اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے۔

تعلیم اور تعلم
ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ کی نگاہ دو گرہوں پر پڑی، جن میں سے ایک گروہ عبادت میں مشغول تھا اور دوسرا علمی مباحثہ کر رہا تھا۔ آنحضرت دونوں گروہوں کو دیکھ کر مسرور ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا: یہ دونوں گروہ نیک کام کر رہے ہیں اور خیر اور سعادت پر ہیں۔ لیکن میں لوگوں کو علم سکھانے کیلئے مبعوث ہوا ہوں۔ یہ بات کہہ کر آپ اس گروہ میں شامل ہوگئے جو علمی گفتگو میں مشغول تھا۔

والدین کا احترام
ایک آدمی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یارسول اللہ! میں نے قسم کھائی ہے کہ جنت کے دروزے اور حور العین کی پیشانی کا بوسہ لوں۔ لہذا کیا کروں؟ آنحضرت نے فرمایا: اپنی ماں کے پیروں اور باپ کی پیشانی کا بوسہ لو۔[یعنی اگر ایسا کرو گے تو اپنی مراد کو پہنچ جاو گے]۔ اس نے کہا: اگر والدین مر چکے ہوں تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ان کی قبروں کا بوسہ لو۔

مومن کا احترام
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کی طرف نگاہ کرکے فرمایا: خوش نصیب ہے تو اے گھر! جسے عظیم سمجھا جاتا ہے اور جس کا احترام کیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم مومن اللہ کے نزدیک تجھ سے زیادہ محترم ہے، اس لیے کہ خداوند عالم نے تیرے لیے ایک چیز کو حرام کیا ہے، وہ یہ کہ تیرے پاس قتل و غارت حرام ہے۔ لیکن مومن کیلئے تین چیزوں کو حرام کیا ہے، مومن کی جان، اس کا مال، اور اس کی نسبت برا گمان کرنا حرام قرار دیا ہے۔

نتیجہ بحث
انسانیت کا مستقبل پیغمبر رحمت (ص) کے بتائے ہوئے اصولوں پر کاربند ہونے کی صورت میں ہی منور و روشن ہوسکتا ہے۔ اگر تمام عالم بشریت قیامت تک آنیوالی تمام نسلیں سیرت، پیغمبر رحمت (ص) کو راہ عمل منتخب کرکے راہ پیغمبر رحمت (ص) پر گامزن ہو جائیں تو انسانی زندگی سے تاریکیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، ظلم و بربریت کی سیاہ آندھی چھٹ جائے گی۔ خود پسندی اور عناد و حسد کے بت پاش پاش ہو جائیں گے اور انسانی زندگی نور رحمة اللعالمین سے پر نور ہو جائے گی۔ تاریک زندگی میں اجالا آجائے گا۔ چونکہ سیرت پیغمبر (ص) منزل تک پہنچنے کیلئے چراغ راہ ہے۔ زندگی گزارنے کا کامل ضابطہ ہے، بلکہ تمام نوع بشر کیلئے سیرت پیغمبر (ص) کامل نمونہ حیات ہے۔ جو شخص اپنی زندگی سے تاریکیوں کو مٹانا چاہتا ہے اور گردو غبار سے اَٹی زندگی سے تاریکیوں کو مٹانا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ در رحمت العالمین (ص) سے ابھرتے نور سے اپنے قلب و روح کو منور کرے۔ چونکہ یہی نور بھٹکے ہوؤں کو کنارا اور ٹوٹے ہوؤں کا سہارا، غموں کا مداوا اور تاریک زندگیوں میں اجالا کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیغمبر رحمت (ص) کے نقش پاء یقیناً انسانیت کو معراج  تک لے جائیں گے۔


خبر کا کوڈ: 960354

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/960354/پیغمبر-رحمتﷺ-اور-انسانیت-کا-مستقبل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org