0
Tuesday 26 Oct 2021 11:30

چین کے بڑھتے قدم اور امریکی ردعمل

چین کے بڑھتے قدم اور امریکی ردعمل
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

چین ایک ناقابل تردید حقیقت کی طرح دنیا کے سامنے ابھر رہا ہے۔ اسی سال سے جاری امریکی مغربی گٹھ جوڑ کو کافی عرصہ بعد ایک چیلنج درپیش ہے۔ اب ان کی خارجہ پالیسیوں کے مقابل خارجہ پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں اور ان کی ٹیکنالوجی کے مقابل ٹیکنالوجی آ رہی ہے، بلکہ نقل اصل سے بڑھ رہی ہے۔ امریکہ فائیو جی کو لے کر اتنا پریشان ہے کہ اس نے چینی کمپنی ہواوے پر یکے بعد دیگر کئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کی تجارتی وجوہات اپنی جگہ اہم ہیں، مگر ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ ٹیکنالوجی بیچ کر پیسے بھی لے رہا تھا اور دنیا بھر کی جاسوسی بھی کر رہا تھا۔ اب اسے یہ خطرہ ہے کہ کہیں یہی کام چین فائیو جی اور ہواوے کو لے کر نہ کرے۔ اس لیے ایک طرف اپنے سرمایہ دار کو تحفظ دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف سکیورٹی پر اجاراداری کو درپیش چیلنج سے نمٹا جا رہا ہے۔

چین نے بڑی تیزی سے اپنے بارے سوشلزم کے نظریہ کو تبدیل کیا اور دنیا بھر کی سرمایہ کاری کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوا۔ چین نے ایک کامیاپ تجربہ یہ بھی کیا کہ اس نے سوشلزم کی تیزی کو برقرار رکھا اور ریاست کو عوام سے لاتعلق بھی نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کرونا کی وبا ہر نظام کی صلاحیت کا بھی امتحان تھی، اس سے نمٹنے میں مغربی اور امریکی نظام بری طرح ناکام ہوا، چین نے ناصرف اس وبا کو محدود کر دیا بلکہ تاریخ کا سخت ترین لاک ڈاون لگانے کے باوجود بھوک سے لوگوں کو مرنے نہیں دیا۔ کروڑوں لوگوں تک کھانا پینا ان کی دہلیز تک پہنچایا گیا۔ یہ دنیا میں ایک اہم نظریاتی ڈیبیٹ کا باعث بنا کہ کونسا نظام عوام کو زیادہ سہولیات پہنچا سکتا ہے؟ یہ امریکی اور مغربی نظام پر ایک فکری اور عملی ڈنٹ ہے، کیونکہ یہ نظام دعویدار تھا کہ سب سے زیادہ اور موثر انداز میں صرف ہمارے نظام کے ذریعے ہی گورننس لائی جا سکتی ہے۔

امریکہ ہر جگہ چین کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور اب کھل کر بغیر لگی لپٹی کے سامنے آرہا ہے۔ امریکہ دنیا بھر کے ممالک سے یہ چاہتا ہے کہ وہ چین کے خلاف اس کا ساتھ دیں۔ اس کے لیے اس نے دنیا بھر میں مختلف محاذ تشکیل دینے شروع کیے ہوئے ہیں۔ یورپ نے پچھلے کچھ عرصے میں امریکہ سے فاصلہ بنانے کی کوشش کی ہے اور کچھ آزاد فیصلے کیے ہیں، جیسے جرمنی نے روس سے گیس پائپ لائن کو شدید امریکی اعتراضات کے باجود نہ صرف منظور کیا بلکہ اسے مکمل بھی کر لیا ہے۔ کچھ روز پہلے یہ خبر آئی تھی کہ جرمنی، فن لینڈ، نیدرلینڈز، پرتگال اور سلووینیہ نیٹو سے ہٹ کر اپنے دفاع کے لیے فوج تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ سریع الحرکت فوج ہوگی، جسے جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے گا۔ اس کے قیام کی وجہ افغانستان سے امریکی انخلاء سے پیدا ہونے والا عدم اعتماد ہے۔ یہ امریکی وعدوں پر عدم اعتماد کی علامت ہے کہ یورپ میں لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ امریکہ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

برطانیہ امریکی چھتری کو پسند کرتا ہے، اسی لیے یورپ کو تقسیم کرنے کی غرض سے امریکہ پہلے برطانیہ کو یورپ سے الگ کرچکا ہے۔ اب یورپ میں بھی ایک طرح سے مفادات کے ٹکراو کا دور شروع ہوچکا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی رفتار بہت آہستہ ہو، مگر فرانس کے صدر کا آسڑیلیا کو آبدوز فروخت کرنے کے معاملے پر انتہائی اقدامات اٹھانا اس کی ابتدا بن چکا ہے۔ چند دن پہلے  دو تین بار چین کے درجنوں طیاروں نے تائیوان کی فضا میں پروازیں کیں، جس نے تائیوان کے لیے سکیورٹی  تھریٹ پیدا کر دیا۔ امریکہ تائیوان کو چائینہ کے خلاف تھپکی دیتا رہتا ہے اور تائیوان کے پاس بھی امریکہ کے علاوہ آپشنز محدود ہیں۔ امریکہ نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا اور امریکی صدر نے جو بائیڈن نے تنازع کی صورت میں تائیوان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

ایک خبر بظاہر چھوٹی مگر بڑے اثرات کی حامل ہوسکتی تھی کہ چین کے قریبی بین الاقوامی پانیوں میں چلنے والی امریکی ایٹمی آبدوز سے کوئی چیز زور سے ٹکرائی ہے، جس کا پتہ نہیں چل سکا تھا کہ وہ کیا چیز ہے؟ اس واقعہ میں کچھ امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے تھے۔ اگر یہ ٹکرانے والی چیز ذرا زیادہ ٹکرا جاتی تو حالات بہت خراب ہوسکتے تھے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چائینہ کی سرمایہ کاری سے اٹھتی اقوام کا راستہ روکے۔ امریکی خواہش یہ ہے کہ دنیا کا ہر وہ ملک معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار رہے، جو اس کے نام نہاد ورڈ آرڈر کے خلاف ہے۔ امریکہ نے وطن عزیز کو افغان جنگ کے شعلوں کے سپرد کرکے واپسی کا راستہ پکڑا، وطن عزیز معاشی بحران کا شکار ہوگیا۔ ایسے حالات میں چین آگے بڑھا اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے پاکستان کو بجلی کے بحران سے نجات دلائی اور انفراسٹکچر کا چال بچھا دیا۔

امریکہ کی مسلسل کوشش ہے کہ پاکستان اور چین  کے درمیان اس معاشی راہداری کے حوالے سے اختلافات پیدا کرے۔ امریکی میڈیا مسلسل ان پاکستان چائینہ معاہدات کے حوالے سے سوالات پیدا کرتا رہتا ہے۔ یہاں بھی اسلامی کارڈ کھیلنے کی بھی کوشش کر رہا ہے کہ چائینہ مسلمانوں پر مظالم کر رہا ہے۔ عمران خان اور جان کیری کی سعودی عرب میں ہونے والی ملاقات میں اہم ترین موضوع یہی تھا۔ چائینہ نے ہائپرسانک میزائل کا تجربہ کیا ہے، جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ اس کا توڑ تقریباً ناممکن ہے۔ جنگی ماہرین اسے جنگ کے میدان میں گیم چینجر کہہ رہے ہیں۔ اس طرح اب چین امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کے مقابل ایک بڑا آپشن بن چکا ہے۔ یہ بات امریکی اسلحہ کی صنعت کو چیلنج کر رہی ہے۔ اسلحہ، ٹیکنالوجی، سفارتی تعلقات اور اقتصادی میدان میں چین مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور امریکی خارجہ پالیسی ردعمل کا شکار ہو رہی ہے اور ردعمل بھی حد سے بڑھا ہوا ہے، جس سے خطہ نئی سرد جنگ کا شکار ہو رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 960549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش