QR CodeQR Code

بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کی دوڑ

27 Oct 2021 17:03

اسلام ٹائمز: سیاست میں کوئی بھی فیصلہ آخری فیصلہ نہیں ہوتا۔ سیاسی شخصیات کبھی بھی اپنا موقف بدل سکتی ہیں اور جب ان کے سامنے ان کے سابقہ بیانات رکھ دیئے جاتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا مطلب وہ نہیں تھا، جو آپ سمجھے۔ اس بات کی سینکڑوں مثالیں ہمیں پاکستان کی سیاست میں نظر آ جائیں گی۔ یہاں موقف بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا، بالخصوص بلوچستان میں جہاں سیاسی جماعتوں کے نظریات کا کچھ اتا پتا نہیں ہوتا۔


تحریر: اعجاز علی

گزشتہ شب بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور سابق صوبائی حکومت کے اتحادیوں نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے میر عبدالقدوس بزنجو کو بلوچستان اسمبلی کا نیا قائد ایوان نامزد کر دیا۔ اگر بلوچستان کے گزشتہ چند دنوں پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ جام کمال خان بھی وزارت اعلیٰ سے اسی لئے آؤٹ ہوئے تھے کہ پی ٹی آئی نے آخری اور اہم لمحوں میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اس اعتبار سے تو یہ پریس کانفرنس بالکل ٹھیک اور قابل فہم نظر آتی ہے۔ مگر تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو بی اے پی کا ساتھ دینا تھا، تو ان کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کا وزیراعلیٰ نامزدگی کا اعلان اور انکی تگ و دو کس لئے تھی؟

سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اقتدار پر تھے تو اس لئے مطمئن تھے کہ وزیراعظم اور پی ٹی آئی کی قیادت ان کے ساتھ تھی۔ وہ متعدد بار وزیراعظم سے بھی ملے اور ان کا اعتماد برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہونے کے بعد وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک اور چیئرمین سینیٹ نے جام کمال سے ملاقات کی اور انہیں استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا۔ اس پر جام کمال خان نے وزیراعظم سے درخواست بھی کی کہ وفاقی وزیر کو صوبائی معاملات میں مداخلت سے روکیں۔ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت مرکزی قیادت کی تابع ہے۔ انہیں صوبائی سطح پر اختیارات کے بجائے "یس سر" کا درس دیا گیا ہے۔ بہرحال جام کمال کی درخواست پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ وجہ واضح تھی پی ٹی آئی نے بھی جام کمال کو گھر بھیجنے لا فیصلہ کر لیا تھا اور مجبوراً جام کمال بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

اب بلوچستان کی نئی حکومت کیلئے دوڑ کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس وقت تین ممکنہ حکومتیں بن سکتی تھیں۔ پہلی حکومت بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین کی ہو سکتی تھی، جس میں عبدالقدوس وزیراعلیٰ ہوتے اور انکے اتحادی جماعتیں جے یو آئی اور بی این پی (مینگل) ہوتیں۔ دوسری ممکنہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہو سکتی تھیں، جس میں وزیراعلیٰ سردار یار محمد رند ہوتے اور بی اے پی میں جام کمال کے حامی، اے این پی، بی این پی (عوامی)، جمہوری وطن پارٹی اور سابق صوبائی حکومت کے دیگر اتحادی پی ٹی آئی کا ساتھ دیتے۔ تیسری ممکنہ حکومت متحدہ اپوزیشن جماعتوں کی ہو سکتی تھیں۔ جس میں بی این پی مینگل، جے یو آئی اور دیگر پارٹیاں شامل ہوتی۔ ابتدائی مراحل میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے عہدے کیلئے دو نام سامنے آئے تھے۔ جن میں سے ایک بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء عبدالقدوس بزنجو کا تھا اور دوسرا نام پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کا تھا۔

جب تک جام کمال خان وزارت اعلیٰ کے منصب پر تھے، اپوزیشن جماعتیں عبدالقدوس بزنجو کا ساتھ دے رہی تھیں۔ یہی لگ رہا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ ہیں اور اگلی حکومت میں اپوزیشن جماعتیں بھی صوبائی حکومت کا حصہ ہونگی۔ مگر اپوزیشن کا ساتھ صرف جام کمال خان کی حکومت گرانے تک ہی تھا۔ عبدالقدوس بزنجو وزارت اعلیٰ کیلئے سامنے آئیں تو اپوزیشن نے انکی حمایت کے بجائے پی ڈی ایم کی چھتری کے نیچے بیٹھنے کو ترجیح دی۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے مشاورت کے بعد میڈیا کو بتایا کہ وہ بی اے پی یا پی ٹی آئی کیجانب سے بننے والی حکومت میں نہیں بیٹھیں گے۔ تاہم اگر اپوزیشن نے صوبائی حکومت بنا لی، تو پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں سے مشاورت کریں گے۔

عبدالقدوس بزنجو نے وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار بننے کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی اراکین سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ گزشتہ روز انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ثناء اللہ زہری اور جنرل (ر) قادر بلوچ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ اور قادر نائل، بی اے پی کے خلیل جارج اور ربابہ بلیدی سے ملاقاتیں کی اور ان سے صوبائی حکومت کی تشکیل کیلئے حمایت کی درخواست کی۔ عبدالقدوس بزنجو پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے صوبائی رہنماء اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کے پاس گئے تو سابق وزیراعلیٰ نے انہیں گرین سگنل دیتے ہوئے کہا کہ ہماری قیادت کی ہدایت پر ہم صوبائی اسمبلی میں عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کریں گے۔ اس کے بعد عبدالقدوس بزنجو ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی سے حمایت حاصل کرنے کیلئے ان کے مرکزی سیکرٹریٹ گئے اور پارٹی کے پارلیمانی ارکان سے ملاقات کی۔ ایچ ڈی پی کے خالق ہزارہ نے پہلے سے ہی کہہ دیا تھا کہ ان کے دروازے سب کیلئے کھولے ہیں۔ انہوں نے بھی قدوس بزنجو کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس کے علاوہ عبدالقدوس بزنجو نے تحریک عدم اعتماد کے دوران جام کمال کا ساتھ دینے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے دو اراکین سے بھی رابطہ کیا۔ ان میں ڈاکٹر ربابہ بلیدی اور خلیل جارج شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان دونوں نے بھی ملاقات کے بعد عبدالقدوس بزنجو کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ انکی جانب سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ بعض ذرائع کے مطابق سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان اور ان کے حمایتی پاکستان تحریک انصاف کیساتھ تھے اور سردار یار محمد رند کو وزیراعلیٰ بنانے کی کوشش میں تھے۔ یہ دونوں جماعتیں گزشتہ حکومت میں بھی اتحادی جماعتیں تھیں، البتہ پاکستان تحریک انصاف نے آخری لمحات میں جام کمال کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ سابق صوبائی حکومت میں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل تھیں۔ جو اس وقت بھی پی ٹی آئی اور جام کمال گروپ کے ساتھ ہیں۔ سردار یار محمد رند نے جمہوری وطن پارٹی کے گہرام بگٹی سے بھی صوبائی حکومت کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے رابطہ کیا۔ مگر گہرام بگٹی کی جانب سے واضح جواب سامنے نہیں آیا ۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت سے وقت مانگا اور پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

جہاں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت اپنی حکومت کی تشکیل کیلئے جدوجہد کر رہی تھی، وہیں وفاقی وزیر دفاع مرکزی قیادت کے فیصلے کی وضاحت نہیں کرپا رہے تھے۔ گزشتہ روز چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ایک ملاقات کے بعد وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک سے میڈیا نے بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور نئے وزیراعلیٰ کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم بی اے پی کی جانب سے سامنے آنیوالے امیدوار کی حمایت کریں گے۔ چونکہ بی اے پی اب دو حصوں میں نظر آرہی تھی، اسی لئے ان کا یہ بیان واضح نہیں تھا کہ کونسی بی اے پی کی بات ہو رہی ہے۔ صحافیوں نے عبدالقدوس بزنجو کا نام لیتے ہوئے پوچھا کہ انکی حمایت کریں گے یا نہیں، تو وفاقی وزیر نے کہا کہ اس کا فیصلہ ہم نہیں بلکہ خود بلوچستان عوامی پارٹی کرے گی۔

گزشتہ شب کے پریس کانفرنس نے وفاقی وزیر کا بیان واضح کر دیا۔ وفاقی حکومت کو بھی بخوبی اندازہ تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی یا پاکستان تحریک انصاف بلوچستان اور ان کے حمایتیوں کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ حکومت بنا سکے۔ اگر اپوزیشن حکومت بنانے کیلئے کوئی پلان تشکیل دے دیتی تو بلوچستان کی حکومت نہ بی اے پی کے ہاتھ آتی اور نہ پی ٹی آئی کے، بلکہ بلوچستان پر پی ڈی ایم کا راج ہوتا۔


خبر کا کوڈ: 960703

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/960703/بلوچستان-میں-وزارت-اعلی-کی-دوڑ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org