0
Thursday 28 Oct 2021 20:43

کرم ایجنسی کے دہکتے مسائل اور لڑائیوں کے خطرات(حصہ اول)

کرم ایجنسی کے دہکتے مسائل اور لڑائیوں کے خطرات(حصہ اول)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کرم ایجنسی جو اب ضلع کرم کہلاتا ہے پاراچنار اس کا صدر مقام ہے، کرم کا بارڈر افغانستان کیساتھ ملتا ہے، اس لیئے افغانستان کے حالات و واقعات اس پہ گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، اس کی جہاں دیگر وجوہات ہیں وہاں اس خطے کے قبائل کا سرحد پار کے لوگوں سے گہرے خاندانی، علاقائی، کاروباری اور ثقافتی و مذہبی روابط و مشترکات بھی ہیں۔ افغانستان میں طالبان مخالف حکومت تھی تو یہ روابط تب بھی تھے، مگر کچھ تبدیلی و ترجیح کے بدلاءو کیساتھ، اب جب طالبان برسر طاقت ہیں، تب بھی یہ روابط موجود ہیں، اور اپنا اثر رکھتے ہیں اور دکھاتے ہیں، کرم ایجنسی چونکہ دو حصوں میں تقسیم ہے جس میں اپر کرم اور لوئر کرم، بعض حوالوں سے اس کا ایک اور حصہ یعنی سنٹرل کرم بھی ہے، اپر کرم میں اکثریت اہل تشیع کی ہے جبکہ لوئر کرم میں میں اہلسنت یعنی وہابی، دیوبندی اور سنی فرقوں کے لوگ زیادہ ہیں جبکہ سنٹڑل کرم میں آبادی کا تناسب شاید ایک جیسا ہو کہ کہیں اہل تشیع کے گاءوں ہیں تو کہیں بیچ میں اہل تسنن کے اکثریتی دیہات، مجموعی طور پر یہ خطہ منقسم ہے۔

اپر کرم اور پاراچنار شہر میں ایک وقت میں فقط اہل تشیع کی آبادی ہوا کرتی تھی، مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کچھ پہاڑوں پر اور بعد ازاں شہر میں اہل تسنن کو آبادی کے مواقع دیئے گئے، کہیں ہمدردی کی بنیاد پہ طوری قبائل نے یہ کام کیا اور کہیں ضرورت کار کیلئے انہیں آباد کیا گیا، وقت بدلتا رہا اور حالات کروٹ کھاتے رہے، افغانستان کے حالات نے بھی اس پہ اثرات مرتب کیئے اور جن لوگوں کو بطور پناہ گزین یہاں آباد کیا گیا تھا یا جن کیساتھ ہمدردی کی گئی تھی وہ زور آور ہونے لگے، بیرونی مدد بھی انہیں حاصل ہوئی اور ان کی طاقت میں اضافہ کیساتھ طوریوں کیساتھ لڑائیاں بھی ہونے لگیں۔ ماضی میں ایسی کئی لڑائیاں معمولی بات سے شروع ہو کر سینکڑوں شہادتوں اور کئی دیہاتوں کی بربادی تک جا پہنچیں۔ سب سے زیادہ طویل لڑائی 2007 سے شروع ہوئی جو 2011ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ اس جنگ میں جو تباہی و بربادی ہوئی، اس کے اثرات آج بھی بہت نمایاں اور واضح ہیں، جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔

اسی وقت سے اب تک پاراچنار مسلسل محاصرے میں ہے، اہل پاراچنار کو اس وقت سب سے زیادہ اذیت شہر میں آمد و رفت کے حوالے سے ہوتی ہے جو روز کا معمول بن چکی ہے، اس سے جتنا وقت کا ضیاع ہوتا ہے، چیک پوائنٹس پہ جس طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ بیرون پاراچنار سے اس شہر میں جانیوالوں کو تو باقاعدہ ایک پرمٹ جسے آپ پیپر ویزہ بھی کہہ سکتے ہیں جاری کیا جاتا ہے، جس پر شہر میں داخلے کی تاریخ، مجوزہ نکلنے کی تاریخ اور شہر سے تعلق رکھنے والے کسی مقامی ضمانتی کا شناختی کارڈ اور فون نمبرز تک درج ہوتا ہے۔ ان شناختی کارڈز کو سکیورٹی گیٹ پہ جمع کر کے اجازت نامہ یا ویزہ تھما دیا جاتا ہے، اس ویزہ کو خود سے بھی زیادہ سنبھالنا ہوتا ہے۔

ایسی ہی ایک لڑائی جس میں پندرہ کے قریب دونوں اطراف کے لوگ جان سے چلے گئے ہیں، 23 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب پیواڑ کیساتھ گاوں گیدو کے جنگل میں کچھ شیعہ قبائلی لکڑیاں کاٹنے گئے تو مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے گیدو مینگل قبائل نے ان کو یرغمال بنا کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور فساد کا آغاز کیا، جب اہل تشیع پیواڑ قبائل کو اس کی اطلاع ملی تو لازمی طور پہ وہ ان نہتے لکڑیاں کاٹنے جانیوالے افراد کو رہائی دلانے اور ان کی مدد کیلئے آگے بڑھے، جنہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، پاک افغان بارڈر پر قبائل کے درمیان یہ خون ریز لڑائی ایسے وقت میں چھیڑی گئی جب بارڈر کے حالات انتہائی سخت اور دوسری طرف طالبان اپنا اقتدار قائم کر چکے ہیں، اور انہیں دیگر چینلنچز کیساتھ ساتھ سب سے بڑا چیلنج داعش خراسان کی صورت میں موجود ہے، جس نے حالیہ دنوں میں افغانستان میں اپنی سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قندوز و قندھار میں بے گناہ نمازیوں کو خود کش حملوں میں نشانہ بنایا ہے۔ ایسے حالات میں بارڈر ایریا میں اس طرح کی کارروائی جس سے جنگ اور فساد پھیلنے کا بھرپور اندیشہ ہو کسی سازش سے کم نہیں ہو سکتی۔ اس طرح یہ جنگ جسے جان بوجھ کے چھیڑا گیا اس کے بارے ابتدائی طور پہ خبر آئی کہ 8 افراد شہید اور 7 لاپتہ اور کئی ایک زخمی ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے ان شیعہ قبائل کے طرفدار انہیں بچانے کیلئے مجوزہ جنگلی علاقے کی طرف گئے۔

آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے کوئی بھی خبر منٹوں میں دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ جیسے ہی لڑائی شروع ہوئی اور کچھ شہادتوں کی خبر موصول ہوئی تو پاراچنار سے پشاور یا پشاور سے پاراچنار چلنے والے مسافروں کی حفاظت اہم ترین ایشو ہوتا ہے، جو بے خبر اپنے سفر پہ رواں دواں ہوتے ہیں، ان کی جانوں کو شدید خطرات ہوتے ہیں، اس لیئے کہ انہیں مخالف قبائل کے ایریاز سے گزرنا ہوتا ہے، جن پہ اکثر حملے کئے جاتے ہیں، سازشی عناصر ان کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے، ماضی میں سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں شیعہ ٹرک ڈرائیورز کو گاڑیوں سے اتار کے ذبح کیا گیا تھا، جبکہ کئی ایک گاڑیوں کے مسافروں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا، اس لڑائی میں بھی مینگل قبائل نے انتہائی بربریت کا مظاہرہ کرکے طوری قبائلی جوان کو چاقو اور کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کیا ہے، اس جوان شہید کے گلے پر چھری کے وار کرکے ذبح کرنے کے واضح نشانات تھے، جو سفاکیت کی دلیل ہے۔ حالانکہ یہ جنگل میں جانا اور لکڑیاں کاٹنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ موسم سرما کے آغاز میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ لکڑیاں کاٹتے ہیں، چونکہ سردیوں میں بہت زیادہ لکڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نومبر میں تو یہاں برفباری شروع ہو جاتی ہے جس کے بعد زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے، اگر مینگل قبیلہ کے لوگ قانونی راستہ اختیار کرتے، شکایت کرتے تو ان کو ضرور مدد ملتی، مگر انہوں نے تجاوز کیا۔

حالیہ لڑائی کے حوالے سے بعض ذرائع کے مطابق ہلاک افراد میں گاؤں گیدو کے پانچ افراد سید نذیر عرف سینجک، نور الحق، حضرت محمد، خان ولی اور محمد سخی کا تعلق مینگل قبائل سے ہے جبکہ گاؤں پیواڑ کے دس مقتولین میں مندرجہ ذیل افراد شامل ہیں۔
1: حاجی سلطان حسن
2: حاجی محمد حسن (تور)
3: سیف علی (ملا)
4: جواد علی
5: سید علی
6: گلفام حسین
7: مظہر حسین ;245; ٹارچر کرکے قتل
8: ارباب حسین
9: رشید حسین
10: شعبان علی
11: رحمت حسین

اس لڑائی میں ایک ہی گھر سے تین افراد کے المناک شہادت کی اطلاع بھی ہے جبکہ پہلے ہی دو شہدا ء کا والد پہلے ہی شہید ہے۔ پیواڑ گیدو لڑائی سے ایک دن قبل ہی اڑاولی ایف سی قلعہ میں واقع امام بارگاہ سے تین شیعہ ایف سی اہلکاروں کو زہر دیا گیا تھا، جن میں سے ایک جوان درجہ شہادت پر فائز ہوا، جس کی لاش کو لیکر پاراچنار پریس کلب کے سامنے احتجاج بھی کیا گیا اور صاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ذمہ دارا متعصب و فرقہ پرستوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا، یہ افسوسناک واقعہ الارمنگ تھا کہ اس سوسائٹی میں لوگوں کے ذہنوں میں کیسا تعصب بھر دیا گیا ہے، کہ ہماری ڈسپلن فورسز بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں۔ پیواڑ میں ہونیوالی اس لڑائی کو کیا فقط قبائلی لڑائی کہنا درست ہے یا اس کا تعلق علاقائی حالات و واقعات اور بارڈر کے دونوں اطراف کے حالات سے بھی ہے۔؟ ان قیمتی جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے؟ جنگ بندی یا فائر بندی سے کیا مستقبل قریب میں لڑائی کا خطرہ ٹل گیا ہے یا ابھی بھی خطرات موجود ہیں؟ کرم ایجنسی یا ڈسٹرکٹ کرم میں قیادت کا فقدان یا قائدین کی بھرمار؟ سیاسی قائدین اور ان کے اثر رسوخ؟ ڈسٹرکٹ کرم میں زمینوں و جائیداد کی تقسیم کا بندوبست؟(جاری ہے)
یہ اور اس طرح کے کچھ مزید سوالات کے جوابات ہم کالم کی دوسری قسط میں اپنے قارئیں کیلئے پیش کر دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 960897
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش