0
Sunday 31 Oct 2021 18:48

سوڈان میں صورتحال تشویشناک

سوڈان میں صورتحال تشویشناک
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
 
سوڈان میں فوجی بغاوت کے ساتھ ہی سیاسی بحران اور سوڈانی عوام کی جانب سے بغاوت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم سمیت اس ملک کے مختلف شہروں میں فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ عوام ٹائروں میں آگ لگا کر ہائی وے اور شاہراہوں کو بند کر رہے ہیں اور ملک میں فوجی بغاوت سے اپنی نفرت و بیزاری کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف سوڈان کی جاب یونین نے ایک بیان میں سوڈان کی فوجی کونسل اور ٹاسک فورس کی تحلیل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فوج کی تسلط پسندی کے خاتمے اور سوڈانی عوام کے عزائم کے حق میں عالمی برادری کی مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ سوڈان میں فوجی بغاوت اور سڑکوں پر عوامی احتجاج نیز فوجی اہلکاروں اور بغاوت مخالف مشتعل عوام میں جاری جھڑپوں کے دوران اب تک دسیوں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔

موصولہ رپورٹوں کے مطابق سوڈان میں بحران مزید گہرا ہوگیا ہے، فوج اب بھی اقتدار میں ہے، سوڈانی فوج کے کمانڈر انچیف عبدالفتاح البرہان نے اعلان کیا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں نئے وزیراعظم اور گورننگ کونسل کے ارکان کے نام کا اعلان کریں گے۔ تمام تر احتجاج اور اعتراضات کے باوجود اقتدار کے مسند پر فوج اپنی موجودگی کو جاری رکھنے پر مصر ہے۔ اس سلسلے میں، سوڈانی جابس ایسوسی ایشن نے ملٹری کونسل کی تحلیل، ملک میں سوڈانیوں کی آزادی و استقلال نیز بیرونی تسلط اور غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوڈان میں عوامی مظاہرے بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔ مظاہرین نے اقتدار مین فوج کی موجودگی کو مسترد کرتے ہوئے اسے بغاوت قرار دیا، جس نے ملک میں اقتدار کی جمہوری منتقلی میں خلل ڈالا ہے۔ دوسری طرف فوج کی تعیناتی کے بعد مظاہرین پر حملوں اور جسمانی حملوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سوڈان میں بغاوت کے بعد سے اب تک سات سے زائد مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹرز فار ڈیموکریسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مظاہرین کی بڑی تعداد کو آنسو گیس اور پلاسٹک کی گولیوں سے بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ سوڈان میں موجودہ پیش رفت چند ہفتے قبل ایک ناکام بغاوت کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی اور حکمران سوڈانی فوج نے پہلے سے طے شدہ منظر نامے کے مطابق یہ دعویٰ کیا کہ پچھلی بغاوت ناکام ہوگئی ہے، اس نئے اقدام کی وجہ سے فوج کی طرف سے ایک بار پھر ڈرانے دھمکانے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ موجودہ بغاوت کے لئے انہوں نے عام شہریوں کو اقتدار کی منتقلی کی دہلیز فراہم کی ہے۔ سوڈانی آئین کے مطابق گورننگ کونسل کی صدارت سے اقتدار عام شہریوں کو منتقل ہونا ایک ماہ سے بھی کم وقت میں ہونا ضروری ہے۔ سوڈان کی وزیر خارجہ مریم صادق المہدی نے کہا کہ سوڈان میں جو کچھ ہوا، وہ سویلین گروپوں کے خلاف بغاوت اور جمہوری منتقلی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا  ہے۔

سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی وولکر پیریٹز نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ بغاوت نے ملک میں "سیاسی منتقلی کو کمزور کرنے کی کوشش" کی ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے وزیراعظم اور دیگر حکومتی اور سیاسی اہلکاروں کی گرفتاری کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ سوڈان میں صورتحال تشویشناک ہے، سیاسی پارٹیاں اور عوام فوجی حکمرانی اور آمریت کی واپسی سے پریشان ہیں، جو لوگ 2019ء میں اس ملک میں ظلم و تشدد، آمریت اور مشکل معاشی حالات کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے، اب دو سال بعد بھی کوئی تبدیلی محسوس نہیں کر رہے۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری بدستور سنگین مسائل ہیں۔ سیاسی طور پر صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوششوں نے ملک کے بہت سے انقلابیوں اور سیاسی جماعتوں کو مشتعل کر دیا ہے۔ دوسری طرف موجودہ بحران اس ملک میں مزید غیر ملکی مداخلت کا باعث بن رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، سوڈان کے سیاسی میدان میں دو اہم ممالک ہیں۔

آل سعود صیہونی حکومت کے ساتھ مل کر البرہان کی حمایت کر رہے ہیں، اگرچہ امریکہ نے بظاہر حالیہ بغاوت کی مذمت کی ہے، لیکن اس پیش رفت کے پیچھے اس کا ہاتھ نمایاں ہے۔ جیسا کہ میڈیا کا دعویٰ ہے کہ واشنگٹن کو 48 گھنٹے پہلے ہی بغاوت کی تفصیلات کے بارے میں علم تھا۔ سیاسی امور کے ماہر صالح النعمی نے سوڈان میں فوجی بغاوت میں اسرائیل کے ممکنہ کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اسرائیل عرب دنیا میں جمہوری تبدیلی کو زندہ دفن کرنا چاہتا ہے اور ظالم و استبدادی حکومت صیہونی حکومت کے مفاد میں ہے۔" ملک کی سب سے بااثر سیاسی تنظیم سمیت سوڈان کی انتہائی موثر ٹریڈ یونین نے فوج کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے اور سیاسی گروپوں نے فوجی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ حالات جاری رہے تو اس ملک میں خانہ جنگی کا شعلہ بھڑک اٹھے گا اور اس کے نتیجے مین فوج کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ایک آمرانہ حکومت کو اقتدار میں طویل عرصے تک رہنے کا بہانہ مل جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 961366
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش