1
Wednesday 10 Nov 2021 07:52

ایک اہم میٹنگ

ایک اہم میٹنگ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
 
عراقی شیعہ گروپوں کی رابطہ کونسل کے نمائندوں، صدر برہم صالح، وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی اور سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین نے عراق کی تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں ایک اہم میٹنگ کی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ عراق اس وقت نازک صورت حال سے گزر رہا ہے۔ عراق کے پارلیمانی انتخابات، جو ملک میں استحکام پیدا کرنے کا ایک عامل بن سکتے تھے، سیاسی تقسیم اور باہمی خلیج بڑھانے کا ایک عنصر بن گئے ہیں۔ عراق کی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو چار مسائل نے حالیہ انتخابات کو عراق میں عدم استحکام اور خطرے کا باعث بنا دیا ہے۔ پہلا مسئلہ عراقی اداروں اور عراقی معاشرے کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے۔ شخصیات، طاقت کے اداروں، سیاسی گروہوں اور عراق کی حکومت نیز عراق کی عوام اور حکومت کے درمیان کوئی ضروری اعتماد موجود نہیں ہے۔ اس بے اعتمادی کا مظاہرہ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے موقع پر ہوا اور 59% عراقیوں نے انتخابات میں شرکت نہ کرنے کو ترجیح دی۔ یہ عدم اعتماد حالیہ دنوں میں وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی پر ناکام قاتلانہ حملے کا باعث بھی بنا ہے۔ ہر کوئی اس ناکام قاتلانہ کارروائی کا الزام کسی دوسرے پر لگا رہا ہے اور بعض کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ یہ کارروائی وزیراعظم کے قریبی افراد نے کی ہے۔

دوسرا مسئلہ اقتدار کی خواہش کا ہے۔ عراقی شخصیات اور گروہوں کی طاقت کی خواہش ملک کو سیاسی اتحاد کی طرف بڑھنے سے روکنے کا ایک اہم عنصر ہے۔ اقتدار کے لئے مختلف گروہ ہر کام انجام دینے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ تیسرا مسئلہ عراقی گروہوں اور شخصیات کے سیاسی رجحانات میں قومی شناخت پر ذاتی اور گروہی شناخت کو اہمیت دینا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عراقی گروہ اپنے فرقہ وارانہ مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، جس سے ملک میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے عمل کو شدید چیلنجز درپیش ہیں۔ چوتھا مسئلہ عراق میں جمہوری کلچر کی کمزوری ہے۔ صدام کی بعثی حکومت کے خاتمے اور پانچ پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے تقریباً دو دہائیاں گزرنے کے باوجود، ملک میں ابھی تک انتخابی عمل پر اعتماد پیدا نہیں ہوا ہے اور عراقی گروہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اکتوبر 2019ء کے موقع پر کچھ ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کی مداخلت سے ملک گیر مظاہرے ہوئے جو عادل عبدالمہدی کی ایک سالہ حکومت کے خاتمے کا باعث بنے۔ عادل عبدالمہدی چوتھے پارلیمانی انتخابات کا نتیجہ تھے۔ اس وقت بھی عراق کے کچھ سیاسی گروپ انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اپنے حامیوں سے سڑکوں پر نکلنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں ان چار عوامل کے امتزاج نے انتخابات کو ایک خطرہ بنا کر عراق کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ ایک طرف تو سکیورٹی فورسز، جن کو سکیورٹی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، وہ مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں کر رہی ہیں، صرف بغداد کی ایک جھڑپ میں درجنوں عراقی شہری ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں اور دوسری طرف عراقی وزیراعظم پر ایک ناکام قاتلانہ حملہ ہوا ہے، اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ مجرم کون ہیں۔

بہرحال عدم تحفظ کے بڑھتے ہی عراقی شیعہ گروپوں کی رابطہ کونسل کے نمائندوں، صدر برہم صالح، وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی اور سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین فائق زیدان نے جن تین امور پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک مشترکہ اجلاس منعقد کیا ہے، اس میں "مظاہرین کے خلاف تشدد، مصطفیٰ الکاظمی کے گھر پر قاتلانہ حملہ اور "انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج" شامل ہیں، ان امور پر مشاورت کی گئی اور پانچ نکاتی معاہدہ طے پایا ہے۔ پرامن مظاہرین کو نشانہ بنانے کے جرم کی مذمت، متعلقہ عدالتی تحقیقات مکمل کرنے اور اس جرم کے مرتکب افراد کو سزا دینے، وزیراعظم ہاؤس کو نشانہ بنانے کے مجرموں کی نشاندہی اور اس حوالے سے تحقیقات مکمل کرنے، کشیدگی کم کرنے اور میڈیا پر قابو پانا شامل ہے۔ اس معاہدے میں بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے، سڑکوں پر تمام اشتعال انگیز علامات کو ختم کرنے، عوامی تشویش کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے، انتخابی نتائج کے بحران کا قانونی حل تلاش کرنے پر تاکید کی گئی ہے، تاکہ انتخابی عمل پر تمام جماعتوں کا اعتماد بحال ہو۔ یہ معاہدہ عراق میں موجودہ اندرونی کشیدگی پر قابو پانے کے لیے ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے موثر بنانے کے لیے تمام عراقی گروہوں کو قومی مفادات کی خاطر سیاسی اختلاف پر ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 962892
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش