0
Wednesday 10 Nov 2021 17:21

بلوچستان کی طلباء تنظیموں کا ایک اور احتجاج

بلوچستان کی طلباء تنظیموں کا ایک اور احتجاج
تحریر: اعجاز علی

گذشتہ روز جامعہ بلوچستان میں امتحانات کا دوسرا دن تھا، جب طلباء تنظیموں نے یونیورسٹی کے مین گیٹ پر احتجاج کرتے ہوئے تمام افراد کیلئے آمد و رفت کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیا۔ یونیوسٹی آنے والے اساتذہ، انتظامیہ اور طلباء کیلئے وہاں سے گزرنے کی گنجائش ہی نہیں رہی، مزید بدنظمی کی روک تھام کیلئے سکیورٹی اہلکاروں کو مجبوراً گیٹ بند کرنا پڑا۔ یونیوسٹی آنے والی طالبات کی چند بسوں کو دوسرے راستے سے جامعہ کے اندر لے جایا گیا، جبکہ خود یونیورسٹی آنے والے طلباء کی بڑی تعداد جامعہ کے مین گیٹ کے سامنے دروازہ کھلنے کے انتظار میں تھی۔ کچھ ہی دیر میں شہر کی معروف سڑک سریاب روڈ پر ٹریفک اور رش کی وجہ سے بدنظمی پھیل گئی۔ سریاب روڈ شہر کی مین شاہراہوں میں سے ایک ہے، جہاں سے شہر سے باہر جانے والی گاڑیاں اور بسیں گزرتی ہیں۔ چند ہی گھنٹوں میں جامعہ بلوچستان کی انتظامیہ کے سامنے مسائل کے انبار کھڑے ہوگئے اور انہیں جامعہ بند کرنا پڑا۔ بلوچستان یونیوسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کی جانب سے طلباء کو اطلاع دی گئی کہ انکے پیپرز نہیں ہونگے، جس کے بعد سڑک پر کھڑے طلباء کی تعداد میں کچھ کمی نظر آئی۔ البتہ اندر پھنسنے والی متعدد طالبات کو کافی دیر تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

بلوچستان یونیوسٹی کے مین گیٹ پر بیٹھ کر احتجاج کرنے والے طلباء گئے نہیں، بلکہ ابھی تک سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا احتجاج اپنے دو ساتھیوں کی بازیابی کیلئے ہے، جنہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں ان کے گھروں یا پھر شہر کی کسی سڑک یا شاہراہ سے نہیں، بلکہ سینکڑوں کیمروں کی موجودگی میں جامعہ بلوچستان کے اندر واقع ہاسٹل سے اٹھایا گیا ہے۔ طلباء تنظیموں کے مطابق ان کے دو ساتھیوں کو ایک ہفتہ قبل جامعہ بلوچستان کے ہاسٹل سے جبری طور پر اغواء کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ رات کی تاریکی میں ہوا ہے۔ طلباء نے یونیوسٹی انتظامیہ سے مدد کی اپیل کی، مگر یونیوسٹی تعاون کیلئے تیار نہیں ہے۔ طلباء کے مطابق انہوں نے سکیورٹی کیمرے چیک کرنے کی اپیل بھی کی، مگر جامعہ بلوچستان کی انتظامیہ اس حوالے سے سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے۔

احتجاج میں بیٹھی طلباء تنطیموں میں نمایاں تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی ہے۔ اس کے علاوہ پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بی ایس او (آزاد)، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور دیگر تنظیمیں بھی احتجاج کا حصہ بنی ہیں۔ گذشتہ شب طلباء تنظیموں نے بھی پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک لاپتہ طلباء کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں ہوتا، جامعہ بلوچستان میں امتحانات بھی نہیں ہونگے اور تمام گیٹس بند رہیں گے۔ ان کے مطابق طلباء تنظیموں نے امتحانات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ جو 2 طلباء یونیورسٹی سے اغواء ہوئے ہیں، ان کی ایف آئی آر میں وائس چانسلر یونیوسٹی آف بلوچستان، رجسٹرار اور چیف سکیورٹی آفیسر کو نامزد کیا جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مختلف ادارے جامعہ بلوچستان کے طلباء کو آدھی رات کے وقت اٹھا لیتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

جبری گمشدگی صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے واقعات ماضی میں حتیٰ کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی پیش آئے ہیں۔ جس سے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا ایک منفی امیج بن رہا ہے۔ چند مہینے قبل ہی کی بات ہے، جب افغانستان میں طالبان اور سابق افغان حکومت کشمکش کا شکار تھے، انہی دنوں اسلام آباد سے ایک افغان بیوروکریٹ کی بیٹی بھی اغواء ہوئی تھی، جو چند گھنٹوں بعد بازیاب ہوئی۔ عالمی برادری یقیناً ان واقعات سے واقف ہے۔ وہ یہی کہتے ہون گے کہ اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو بلوچستان جیسے نظر انداز ہونے والے صوبے کا کیا حال ہوگا۔ تاثر تو یہی جائے گا کہ بلوچستان میں لاقانونیت کا راج ہے اور اس سے سب سے بڑا نقصان وطن عزیز پاکستان کا ہوگا۔

ماضی میں جب بلوچستان کی طلباء تنظیموں نے احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے سول سیکرٹریٹ ریڈ زون کوئٹہ میں احتجاج کیا تھا تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج بھی کیا اور تشدد کے ساتھ ساتھ متعدد طلباء کو گرفتار بھی کیا تھا۔ انہی واقعات کے دوران بی ایس او کی کارکن ہانی بلوچ بھی اپنی زندگی کی بازی ہار گئی تھی۔ بی ایس او ایک بار پھر احتجاج کر رہی ہے۔ اس وقت تو حکومت بلوچستان کا رویہ نرم ہے، مگر کرنے والے بھی بلآخر سیاستدان ہی ہیں اور سیاست میں رنگ، پارٹی اور بیانات بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ عین ممکن ہے کہ انہیں احتجاج سے اٹھانے کیلئے پھر وہی حربہ استعمال کیا جائے، جو ماضی میں ہوا تھا، یا پھر حکومت ان سے مذاکرات کا راستہ اپنا سکتی ہے۔

البتہ حکومت جو بھی لائحہ عمل اختیار کرے، وہ عارضی حل ہوگا۔ وہ طلباء تنظیموں کو تو اٹھا لیں گے۔ مگر مستقبل میں ایسے احتجاجوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت کو چاہیئے کہ اپنی طاقت اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کا سراغ لگائے اور انہیں روکنے کی کوشش کرے، تاکہ نہ صرف عالمی برادری کو پاکستان کے استحکام کا یقین ہو جائے بلکہ شہریوں کا اعتماد بھی ریاست پر بحال ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 962986
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش