0
Monday 15 Nov 2021 01:30

ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟

ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟
تحریر: اعجاز علی

صفائی مہم ایک روزہ تھی اور ہفتہ وار مختلف میدانی علاقوں کا کچرا جمع کرنے کا ارادہ تھا۔ اس صفائی مہم کو دلچسپ بنانے کیلئے اول تو نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اکٹھے ایک ہی علاقے کی صفائی کیلئے لے جایا گیا اور صفائی کے بعد اسی میدانی علاقے میں لطف اندوز ہونے کیلئے گیمز بھی رکھی گئیں۔ ان میں رسہ کشی اور میوزیکل چیئر کی گیمز شامل کی گئیں۔ رسہ کشی کے لئے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مختلف مخلوط ٹیمز میں اس طرح تقسیم کیا گیا کہ ہر ٹیم میں لڑکیاں بھی ہوں اور لڑکے بھی ہوں۔ ان کے درمیان یہ مقابلہ ہوا۔ اس کے بعد میوزیکل چیئر کھیلتے ہوئے بھی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ ہی کھلایا گیا۔ میوزیکل چیئر ایک ایسی گیم ہے، جس میں ایک کرسی رکھی جاتی ہے اور دو افراد اس کے گرد گھومتے ہیں، ساتھ ہی کوئی میوزک بجایا جاتا ہے۔ جب میوزک بند ہو تو ان دونوں کھلاڑیوں کو اس کرسی پر بیٹھنا ہوتا ہے، جو پہلے بیٹھ گیا، جیت اسی کی ہوتی ہے۔ اس کھیل میں ایک کرسی رکھ کر ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو کھیلنے کیلئے کہا گیا تھا۔

جب اس صفائی مہم کی تصاویر سوشل میڈیا پر آئیں، تو ہر خاص و عام نے نوجوان گروپ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بعض افراد نے یہ کہا کہ رسہ کشی کے دوران کھلاڑی ایک دوسرے پر بھی گر سکتے ہیں، اسی لئے لڑکے اور لڑکیوں کو ایک مخلوط ٹیم میں نہیں کھلانا چاہیئے۔ بعض افراد نے میوزیکل چیئر پر اعتراض کیا کہ اس کھیل میں لڑکے اور لڑکیوں کو ایک ساتھ کھلانا قبائلی، معاشرتی اور مذہبی اقدار کی پامالی ہے۔ اس پر علامہ کاظم بہجتی اور کوئٹہ کے بعض دیگر علماء نے بھی اپنی رائے دی اور کسی کا نام لئے بغیر نوجوانوں کی تربیت پر دھیان دینے پر زور دیا۔ علماء نے کہا کہ محرم اور نامحرموں کو ایسے مواقع فراہم کرنا معاشرے میں فساد اور خرابی کی وجہ بنتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ایسے افعال سے اجتناب کیا جائے۔

سوشل میڈیا پر مسلسل تنقید کے بعد مہم کی سربراہی کرنے والا آصف نادری بھی میدان میں آگیا اور اس نے تنقید کرنے والوں کی توہین شروع کر دی۔ آصف نے ایک پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے کہا کہ "کتوں کا کام ہے بھونکنا، ہم ان پر دھیان کیوں دیں" اس کے علاوہ جگہ جگہ توہین آمیز الفاظ کا استعمال شروع ہوگیا۔ جس سے معاملہ سنگین صورتحال اختیار کرنے لگا۔ اسی دوران آصف کے ساتھ کام کرنے والے بعض افراد اور اس کے اپنے ساتھی بھی اس کے خلاف ہوگئے۔ طلباء میں کتب خوانی کو فروغ دینے والے ہزارہ اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے ایک عہدیدار نے آصف کو میسج کرکے کہا "میں تمہیں خبردار کرتا ہوں، جوانوں کو بدنام/خراب مت کرو۔" اس کے علاوہ اسی مہم میں آصف کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور شخص نے اسے دھمکی دی۔ آصف کے بقول وہ رات کے 2 بجے اس کے گھر دھمکی دینے آیا تھا اور اس کے پاس پستول بھی موجود تھا۔

اس واقعہ کے فوراً بعد آصف نے کامریڈ جلیلہ حیدر سے رابطہ کیا اور اسے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ جلیلہ حیدر ماضی میں بھی علمائے کرام کے خلاف مسلسل سرگرمیوں مین مصروف نظر آئی ہے۔ کامریڈ جلیلہ کو جیسے ہی موقع ملا، اس نے فیسبک پر پوسٹ دیتے ہوئے پوری ہزارہ شیعہ قوم کو شرپسند قرار دے دیا۔ اس نے کہا کہ یہ لوگ مذہب کے نام پر آصف کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ جلیلہ نے بلوچستان پولیس کے اعلیٰ حکام سے کہا کہ وہ فوراً آصف کی صفائی مہم کیخلاف بات کرنے والے علماء کے خلاف کارروائی کریں۔ کامریڈ جلیلہ نے علماء پر الزام لگایا کہ انہوں نے آصف کے خلاف لوگوں کو اکسایا ہے اور ہزارہ شیعہ قوم کسی بھی وقت آصف کو قتل کرسکتی ہے۔ جلیلہ نے اپنے پوسٹ میں ہزارہ قوم کیلئے وحشی، شرپسند، شدت پسند اور جاہل قوم کے الفاظ استعمال کئے۔

اس واقعہ کے بعد آصف نے کوئٹہ کے معروف عالم دین علامہ علی حسنین حسینی سے رابطہ کیا اور اس معاملہ میں ان سے مدد طلب کی۔ آصف نے یہ خواہش ظاہر کی کہ علامہ علی حسنین اس کی مدد کرتے ہوئے علامہ کاظم بہجتی سے بات کریں اور علامہ کاظم بہجتی عوام کو سمجھائیں۔ علامہ علی حسنین نے اس حوالے سے آصف کو علامہ کاظم کا فون نمبر دیا اور کہا کہ میں ان سے بات کرتا ہوں، آپ خود بھی ان سے ملاقات کر لیں تو بہتر ہوگا۔ ایک جانب یہ معاملہ طے پا رہا تھا تو دوسری جانب کامریڈ جلیلہ بضد تھی کہ علماء کے خلاف ایف آئی آر ضرور ہونی چاہیئے۔ وہ مسلسل فیسبک کے ذریعے بات کا بتنگڑ بنانے میں مصروف تھی۔ اس نے آصف سے کہا کہ وہ پولیس کے پاس جائے اور علامہ کاظم بہجتی کے خلاف رپورٹ درج کروائے، کیونکہ انہوں نے صفائی مہم پر تنقید کی ہے اور باقی سب انہی کی وجہ سے آصف کے پیچھے پڑے ہیں۔

آصف نے جلیلہ کی بات مانتے ہوئے پولیس سے رابطہ کیا۔ وہ تھانہ گیا تو معاملہ علاقہ ایس پی تک جا پہنچا۔ اس موقع پر علاقہ ایس پی نے علامہ کاظم بہجتی کو کال کرتے ہوئے تھانہ بلایا۔ جس پر علامہ کاظم بہجتی نے کہا کہ اگر میں نے جرم کیا ہے تو آکر مجھے گرفتار کر لیں اور اگر آپ کو ملاقات کرنی ہے تو تشریف لے آئیں۔ جب علاقہ ایس پی علامہ کاظم بہجتی کو تھانہ طلب نہ کرسکا تو مجبوراً انہیں خود ہی آصف کے ہمراہ علامہ کاظم بہجتی کے پاس آنا پڑا۔ ان کے درمیان ملاقات ہوئی تو علامہ کاظم بہجتی نے آصف کو اس کی غلطی اور معاشرے پر اس کے اثرات کے حوالے سے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک عالم دین کی حیثیت سے یہ میرا فرض ہے کہ میں معاشرے میں برائیوں کو روکوں۔

علامہ کاظم بہجتی نے اسے بتایا کہ ہزارہ شیعہ قوم ایک پرامن قوم ہے۔ ہم نے جتنے دھرنے دیئے ہیں، ان کے دوران کسی بھی دکان کا شیشہ تک نہیں ٹوٹا ہے۔ مگر اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض افراد جو بیرون ملک ہیں، ہزارہ قوم کو بدنام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ وہ فیسبک پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہزارہ قوم ایک مذہبی شرپسند اور شدت پسند قوم ہے، جو سراسر جھوٹ ہے۔ ظاہراً علامہ کاظم بہجتی کا اشارہ کامریڈ جلیلہ حیدر کی طرف تھا، مگر انہوں نے نام واضح نہیں کیا۔ انہوں نے آصف کو سمجھایا کہ وہ اپنے شعور سے کام لے کر قوم کی فلاح پر اپنی صلاحیتیں صرف کرے۔ اس ملاقات کے بعد آصف نے ایک ویڈیو بنائی۔ جس میں اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور قوم سے معافی مانگی۔

آصف نے اپنی ویڈیو میں اس بات کا بھی اقرار کیا کہ اس کا بیرون ملک سے قوم کے خلاف بات کرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد کامریڈ جلیلہ کو اپنی تمام محنت ضائع ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔ اس نے بھی فیسبک پر اپنی پوسٹس ڈیلیٹ کر دیں اور ایک نئی پوسٹ لگائی، جس میں اس نے کہا کہ میں نے اپنے بھائی کے کہنے پر پوسٹس ڈیلیٹ کی ہیں۔ جلیلہ نے لکھا ہے "ہم دسمبر کو پاکستان جا رہے ہیں، ہم مولوی کے خلاف اپنے خاندان کے تمام افراد سمیت قانونی چارہ جوئی کریں گے۔" جلیلہ کا دعویٰ ہے کہ علماء کی عورتیں ان سے تنگ ہیں اور وہ آزادی چاہتی ہیں۔ کامریڈ جلیلہ نے لکھا ہے کہ "میری جنگ کسی مذہبی یا مسلکی گروہ سے نہیں، شخصی ہوگی۔ اب میں ایک ایک سے جواب لونگی۔"

کامریڈ جلیلہ حیدر کس جنگ کی بات کر رہی ہے، یہ تو اس کے پاکستان آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ مگر یہ بھی بہت بڑا سوال ہے کہ آخر ایک قوم کو بدنام کرنے سے کسی کو کیا ملے گا؟ بہرحال اخلاقی طور پر کسی پرامن قوم کو بدنام کرنا اور جاہل قرار دینا ایک غلیظ حرکت ہے۔ اوپر سے جس طرح جلیلہ اس معاملے کو پیش کرنے کی کوشش کر رہی تھی، یوں لگ رہا تھا جیسے آصف کوئٹہ کے ایک محفوظ علاقہ میں ہزارہ قوم کے درمیان نہیں ہے، بلکہ داعش کے ہاتھوں گرفتار ہوچکا ہے۔ اگر جلیلہ کی باتیں درست ہوتیں، تو آصف کی جانب سے معافی مانگنے کے بعد بھی لوگ اس کے پیچھے لگے ہوتے۔ مگر عوام کے ردعمل نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کا مقصد فقط تنقید برائے اصلاح تھا۔
خبر کا کوڈ : 963625
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش