0
Tuesday 16 Nov 2021 13:19

ڈی آئی خان، سبھی سرداروں کے سر پیش ہیں

ڈی آئی خان، سبھی سرداروں کے سر پیش ہیں
تحریر۔ عمران خان

خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی بلدیاتی انتخابات کی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی ضابطہ اخلاق بھی جاری کر دیا ہے کہ جس میں سرکاری وسائل کے استعمال پر پابندی سمیت امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں اخلاقیات، قوانین اور قواعد و ضوابط کا خیال رکھیں گے۔ پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد گرچہ 19 دسمبر کو ہو رہا ہے، مگر انتخابی سرگرمیاں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ببانگ دہل ابھی سے جاری ہے۔ میئر، چیئرمین تو دور یوتھ اور کسان کونسلر کی انتخابی مہم میں بھی ایک طرف سرکار اور دوسری طرف اپوزیشن کی موجودگی بخوبی محسوس کی جا رہی ہے، کیونکہ گلی محلوں میں بجلی کے انقطاع سے لیکر واپڈا لائن مین کی آمد تک فقط وہی امیدوار اپنے وجود کا اظہار کر پا رہے ہیں کہ جن کا تعلق حکمران جماعت سے ہے، باقی تو محض ووٹرز کے دروازوں پر دستک تک محدود ہیں۔

عدالتی احکامات پر یہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونے جا رہے ہیں جبکہ حکومتی موقف ہے کہ تکنیکی اعتبار سے ایسا ممکن نہیں، کیونکہ ضلع و تحصیل کو مختلف نیبرہڈ حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حلقے میں سے 3 جنرل کونسلر، 1 مزدور کونسلر، 1 یوتھ کونسلر، 1 خاتون اور 1 اقلیتی کونسلر منتخب ہونے ہیں۔ جنرل کونسلرز میں جس کے ووٹ سب سے زیادہ ہوں گے، وہی کونسلر اس حلقے کا چیئرمین بھی ہوگا۔ اب تکنیکی اعتبار سے ایسا ممکن ہی نہیں کہ ایک سیاسی جماعت ایک ہی حلقے میں تین تین امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرے۔ اگر سیاسی جماعتیں یہ ٹکٹیں جاری کر دیں تو ایک ہی سیاسی جماعت کے امیدوار ایک ہی حلقے میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔ ان تکنیکی مسائل کی بناء پر انتخابات کا التواء بھی ممکن ہے۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک بدلاؤ یہ بھی ہے کہ عوام نہ صرف کونسلرز و چیئرمین منتخب کریں گے بلکہ ضلع کے سب سے بڑے عہدے یعنی میئر کا انتخاب بھی براہ راست عوام کریں گے۔ اب تک کی انتخابی سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قرین قیاس یہی ہے کہ میئر کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و سابق سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی اور وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈہ پور کے بھائی عمر امین گنڈہ پور کے مابین ہونے جا رہا ہے۔ فیصل کریم کنڈی کو پاکستان کے سب سے کم عمر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ متعدد عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں اور پی پی پی کے مرکزی رہنماء ہونے کی وجہ سے ایک قیاس یہ بھی تھا کہ آئندہ وفاق میں پی پی پی کی حکومت بننے کی صورت میں انہیں اہم ذمہ داریاں تفویض ہوں گی، تاہم اچانک سے وہ میئر کی نشست کیلئے میدان میں وارد ہوئے ہیں۔

ڈیرہ کے مقامی شہریوں کے لیے جہاں پی پی پی کا یہ فیصلہ حیران کن ہے کہ مرکزی و قومی سطح کے رہنماء کو ضلع کی سطح تک محدود کر دیا جائے۔ وہیں پی پی پی کیمپ سے میئر کی نشست کیلئے وسیع اثر و رسوخ کے حامل کئی اہم مقامی رہنماء موجود تھے کہ جنہوں نے مشکل وقت میں بکھرے ہوئے پارٹی کارکنوں کو دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ ان مقامی رہنماؤں کو نظرانداز کرنے کا قلق بھی پی پی پی ووٹرز میں محسوس کیا جا رہا ہے نیز اس تاثر کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ ڈی آئی خان میں پی پی پی کی سیاست کنڈی خاندان تک محدود ہوچکی ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود فیصل کریم کنڈی میئر کیلئے ایک مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار عمر امین وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ناپسندیدہ فیصلوں کے باعث غریب اور متوسط گھرانوں میں غیر مقبول ہیں، مہنگائی کے ضمن میں ان کی پارٹی یعنی پی ٹی آئی کے ناپسندیدہ فیصلے چونکہ تازہ ہیں، اس لیے بھی ووٹرز ان سے کسی حد تک خائف ہیں۔

میئر کے امیدوار عمر امین گنڈہ پور کو جہاں پی ٹی آئی سے ناراض ووٹرز کا سامنا ہے، وہاں شہر کی ہر گلی میں ان سے مستفید ہونے والے خانوادے بھی موجود ہیں۔ گنڈہ پور برادران کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ انہوں نے اختیارات اور ثمرات کو کسی حد تک نچلی سطح تک منتقل ضرور کیا ہے۔ مثلاً پی ٹی آئی کے غریب کارکنوں کو کلاس فور کی ہی سہی مگر سرکاری نوکریاں ملیں۔ ترقیاتی تعمیراتی فنڈ شہر یا تحصیل کی سطح پر تقسیم ہونے کے بجائے گلی محلے کی سطح پر تقسیم ہوا۔ اداروں میں فوکل پرسنز کا ایسا مربوط نظام متعارف کرایا کہ بجلی، سیوریج، صفائی، تعمیر جیسے کام کا اختیار ان کے عام سے کارکن کو بھی حاصل رہا۔ وفاقی وزیر ہونے کے باوجود علی امین گنڈہ پور شہریوں کو ملاقات کیلئے ڈیرہ اور اسلام آباد دونوں جگہ میسر رہے۔ ذاتی دلچسپی سے متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کرائے۔

امین برادران کی کارکردگی اس قابل ضرور ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے منسلک ہونے کے باوجود بھی عوام کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں ہیں، یہاں تک کہ ان کے خیر خواہ انہیں یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ میئر کا انتخاب پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے بجائے آزاد حیثیت سے لڑیں۔ عوامی تناظر میں دونوں امیدواروں میں فرق اتنا ہے کہ ڈیرہ کے عوام پیپلز پارٹی سے خائف نہیں مگر فیصل کنڈی سے شاقی ضرور ہیں، جبکہ امین برادران کی کارکردگی سے جتنا مطمئن ہیں، اتنا ہی پی ٹی آئی اور اس کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ چنانچہ میئر کی نشست پر پی ٹی آئی اور پی پی پی یعنی عمر امین اور فیصل کنڈی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ اس انتخاب میں ڈی آئی خان سٹی اور مضافات میں موجود اہل تشیع کمیونٹی کا ووٹ فیصلہ کن متوقع ہے۔

امین برادران گرچہ ہر موقع پر اس کمیونٹی کے ساتھ کھڑے رہے، مگر کوٹلی امام حسین کی اراضی کے مسئلہ کو لیکر ڈیرہ اسماعیل خان کے اہل تشیع میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ نگران حکومت کے دور میں کوٹلی امام حسین کی 327 کنال 9 مرلے اراضی کو حکومت نے وقف امام حسین سے ہٹا کر اپنے نام منتقل کیا۔ جس کے خلاف اس کمیونٹی نے احتجاج کیا تو وفاقی وزیر علی امین نے اس غیر قانونی اقدام کو خارج کرانے کے بجائے اس اراضی کے 119 کنال خیبر پختونخوا حکومت کی ملکیت میں دیکر امام حسین (ع) کو اس پہ کاشتکار قرار دیدیا۔ اہل تشیع کمیونٹی اس اقدام کو اہلبیت کی شان میں گستاخی گردانتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اہل تشیع کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اس اراضی کی تاریخی حیثیت بحال کی جاتی۔ مرے کو سو درے مارنے کے مصداق اس 119 کنال 9 مرلے میں سے 60 کنال کے پلاٹ پر چار دیواری کی تعمیر کیلئے اڑھائی کروڑ روپے کا فنڈ جاری کر دیا گیا۔

اب تشیع کمیونٹی کوٹلی کی مکمل اراضی یعنی 327 کنال 9 مرلے کی سابقہ شناخت کی بحالی اور اس مکمل اراضی کی چاردیواری یا باڑ کا مطالبہ رکھتی ہے، جن سے پی ٹی آئی حکومت اور امین برادران مسلسل کنی کترا رہے ہیں۔ کوٹلی امام حسین کے مسئلہ پہ غیر منصفانہ اور گستاخانہ طرز عمل کے باعث اہل تشیع بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان سٹی کے اہل تشیع اس حد تک خائف ہیں کہ اندورن شہر گنڈہ پور برادران سے منسلک پی ٹی آئی کے کونسلرز کو بھی مشکلات درپیش ہیں، چونکہ انتخابات میں ابھی پورا ایک ماہ باقی ہے، عین ممکن ہے کہ امین برادران جو اس وقت وفاق اور صوبے میں وسیع اختیارات رکھتے ہیں، اہل تشیع کمیونٹی کے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کروا کر اپنا پلڑا مضبوط کر لیں، کیونکہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میئر کی نشست کیلئے اندرون شہر اہل تشیع کمیونٹی کا ووٹ ہی فیصلہ کرے گا کہ میئر کا تاج کس کے سر پر سجے۔ شہر میں جیت کا ہما محو پرواز ہے، اپنے سر پیش کرنے میں سبھی سردار پیش پیش ہیں۔
خبر کا کوڈ : 963856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش