1
Saturday 20 Nov 2021 08:24

دہشتگرد اور کمزور ریاست

دہشتگرد اور کمزور ریاست
تحریر: شاہد عباس ہادی

دہشتگردی جیسے لفظ کے تصور سے بم دھماکوں، سنگین جرائم اور قتل و غارت کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ دہشتگرد تنظیموں کو واپسی کا راستہ نہیں دیا جاتا، شدت پسندی کا علاج مذاکرات اور بات چیت سے ممکن ہے، مگر جو ہاتھ بے گناہ بچوں اور عام مزدور کے خون سے رنگین ہوں، ان سے ہاتھ ملانا دہشتگردی تصور کی جاتی ہے۔ اگر کوئی قتل عام کرے اور پاک فوج کے سروں کو فٹبال بنا کر کھیلے، اس کے منہ سے معصوموں کا خون ٹپک رہا ہو، اس نے ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے گھر اجاڑ دیئے ہوں، پاکستانی عوام کے قتل کو اپنا فخر اور مقتولین کی گنتی کو فتح عظیم سے نسبت دے تو ایسے لشکروں کی کیسی اصلاح؟ کیا کوئی عقل مند اس بات کو تسلیم کرے گا۔؟

کیا ریاست اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ ایک قاتل تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرے؟ کیا تحریک طالبان پاکستان سانحہ آرمی پبلک سکول کی ذمہ دار نہیں ہے؟ کیا معصوم بچوں کی فریاد ریاستی افراد کے کانوں تک نہیں پہنچی؟ اسی طرح کیا سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی شیعہ و سنی کی قاتل نہیں ہے؟ ان دہشتگردوں نے پاکستان کا جگر چھلنی کیا ہے، کوئی ایسی جگہ نہیں، جس جگہ دھماکہ نہ کیا ہو، حتی پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے میں یہ دہشتگرد ملوث رہے ہیں، ڈی آئی خان میں جیل توڑ کر بے گناہوں کے سر کاٹنے والوں کی تاریخ کوئی پرانی نہیں ہے، اہلسنت مسجد پر حملے کی آرمی رپورٹ عام و خاص کو معلوم ہے۔

بدقسمتی سے آج یہ دہشتگرد بڑی آسانی سے ریاست کو للکار کر مطالبات کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایک دہشتگرد نے قانون (فورتھ شیڈول) کو بھاڑ میں جانے کی بات کی تو دوسرے دہشتگرد نے بڑی آسانی سے 80 اور 90 کی دہائیوں جیسی دہشتگردی کرنے کی دھمکی دی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ریاست کے رکھوالے اپنی کمزوریوں کا رونا رو رہے ہیں، بلکہ بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ ان دہشتگردوں کے بغیر حکومت چل نہیں رہی!!! فواد چوہدری صاحب نے بڑی معصومیت سے کہہ دیا کہ ہماری ریاست دہشتگردوں اور انتہاء پسندوں سے لڑنے کو تیار نہیں ہے اور ساتھ ہی سعودی فنڈڈ دہشتگردوں کو سکولز اور کالجز کے اساتذہ سے جوڑ دیا۔
https://www.independenturdu.com/node/85131

کاش فواد چوہدری نے سکولز اور کالجز کے نصاب پر بھی غور کیا ہوتا، یہ دہشتگرد نصاب کہاں سے آرہا ہے؟ اور کون متعین کر رہا ہے؟ اس نصاب میں وہابیت و سلفیت کیوں ہے؟ تکفیری دہشتگرد قومی دھارے کا حصہ کیوں؟ خیر مذاکرات کی طرف آتے ہیں، وہ وزیراعظم جو کبھی بلیک میل نہیں ہوا کرتے تھے، آج چند دہشتگردوں کے ہاتھوں بک گئے، آل یہود کے سامنے ہاتھ پھیلا دیئے شاید کچھ مل جائے، کیا آرمی پبلک سکول کے بچوں کا خون اس قدر سستا ہوگیا ہے کہ چند سعودی سکوں کے عوض بیچ دیں؟ قوم تمہیں معاف نہیں کرے گی اور سعودیہ سے دہشتگردی اور یہودیت و عریانیت کے علاوہ کچھ نہیں مل پائے گا۔

ریاست مدینہ کے رکھوالوں کو مستقبل اور آخرت کی فکر کرنی چاہیئے۔ ماضی میں پاکستان جس دہشتگردی کا شکار رہا ہے، اس سے عبرت حاصل کریں، ورنہ ضیاء الحق کا انجام سب کے سامنے ہے۔ مذاکرات تو فریق کے ساتھ ہوا کرتے ہیں، مذاکرات کی میز پر جنونی قاتل نہیں بیٹھا کرتے۔ سانحہ اے پی ایس کے متاثرہ والدین کی دہائی سنیں، سانحہ کے بعد جو مائیں دامن پھیلا کر قاتلوں کو بدعا دیتی ہیں، کہیں وہ بدعا تمہاری طرف نہ پلٹ آئے۔ اس دھرتی پر ہزاروں مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بوڑھے والدین فریاد لے کر تمہارے پاس آئیں، اگر تم نے بچوں کے خون سے غداری کی تو ضیاء الحق سے برا انجام ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 964486
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش