QR CodeQR Code

اسرائیل اسلامی مزاحمتی بلاک سے ٹکرانے سے خوفزدہ کیوں؟

20 Nov 2021 21:28

اسلام ٹائمز: صہیونی دشمن خطے میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کی فوجی طاقت میں اضافے سے شدید وحشت کا شکار ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک علاقائی جنگ شروع ہونے کی صورت میں مقبوضہ فلسطین کی فضا ہزاروں میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے بھر جائے گی جو شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر نقطے کو نشانہ بنائیں گے۔ اسرائیل اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ ممکنہ علاقائی جنگ کی صورت میں وہ اندرونی سطح پر شدید نقصان سے روبرو ہو گا اور اس کی بنیادی تنصیبات جیسے الیکٹرک پاور پلانٹس اور پانی اور گیس کے ذخائر حملے کا نشانہ بنیں گے۔ اس وقت بھی اسرائیل زیادہ خطرناک محاذوں کی شناخت میں مصروف ہے تاکہ جہاں تک ہو سکے ممکنہ نقصان سے بچ سکے۔ غاصب صہیونی رژیم تناو اور جنگ کے ممکنہ ایسے اسباب کی روک تھام میں مصروف ہے جو علاقائی جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔


تحریر: علی احمدی
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اپنی تشکیل کی ابتدا سے ہی چند محاذ پر فوجی ٹکراو سے اجتناب کرتی آئی ہے اور ایسی صورتحال سے خائف رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ جعلی رژیم حتی ایک محاذ پر بھی مدمقابل سے فوجی مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی لہذا ایک ہی وقت چند محاذ پر لڑنا تو دور کی بات ہے۔ جولائی 2006ء میں حزب اللہ لبنان کے ساتھ فوجی ٹکراو سے لے کر مئی 2020ء میں غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ساتھ "شمشیر القدس" معرکے تک اسلامی مزاحمتی بلاک کے ساتھ پانچ بار اسرائیل نے جنگ کی ہے اور ان سب میں شکست اور ناکامی کا شکار ہوئی ہے۔ اب غاصب صہیونی رژیم اسلامی مزاحمتی گروہوں کے ساتھ دوبارہ فوجی ٹکراو سے اجتناب کرنے کی ہر ممکنہ کوشش میں مصروف ہے۔
 
اس وقت بھی اسرائیل چند محاذوں اور اطراف سے وسیع خطرون سے روبرو ہے۔ شمالی محاذ غاصب صہیونی رژیم کیلئے خطرناک ترین محاذ ہے جبکہ غزہ کا محاذ سب سے زیادہ ناقابل اعتماد اور متزلزل محاذ ہے جہاں کسی وقت بھی جنگ کی آگ شعلہ ور ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارہ بھی صہیونی حکمرانوں کیلئے ڈراونا خواب بن چکا ہے جہان ہر لمحہ جنگ کی چنگاریاں پھوٹنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ مزید برآں، مقبوضہ فلسطین کے اندر کی صورتحال بھی غاصب صہیونی رژیم کی نظر میں مطلوبہ اور پرسکون نہیں ہے۔ مذکورہ بالا محاذ اسرائیل کو اندرونی محاذ پر درپیش اسٹریٹجک خطرات ہیں جبکہ ان کے علاوہ جنوبی لبنان، عراق، یمن اور دیگر ممالک سے بھی غاصب صہیونی رژیم کو بیرونی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران بھی روز بروز فوجی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے جس کی وجہ سے غاصب صہیونی رژیم شدید پریشانی کا شکار ہے کیونکہ وہ ایران کو دنیا میں اپنا اصلی ترین دشمن سمجھتی ہے۔ دوسری طرف ایران خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کا سربراہ تصور کیا جاتا ہے۔ شمشیر القدس معرکے میں اسلامی مزاحمت کے مختلف محاذوں کے درمیان قریبی ہم آہنگی اور ایکدوسرے کی حمایت کے آثار واضح طور پر دکھائی دیے تھے۔ حزب اللہ لبنان سے وابستہ آگاہ ذرائع نے اس معرکے کے دوران صہیونی رژیم سے نبرد آزما عزالدین القسام بٹالینز کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون کی خبر دی ہے۔ اسی طرح جنگ بندی کے اعلان کے بعد حماس کے اعلی سطحی رہنما یحیی السنوار نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی۔
 
"سیف القدس" معرکے کے دوران فلسطین کے اندرونی محاذ میں بھی بے مثال اتحاد اور یگانگت کا مشاہدہ کیا گیا تھا اور 1948ء کی فلسطینی سرزمین کے باسیوں نے بھی حماس کا ساتھ دیتے ہوئے صہیونی سکیورٹی فورسز کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔ اسرائیل اس بابت شدید پریشان ہے کہ مستقبل میں انجام پانے والی ممکنہ جنگ میں کہیں اسلامی مزاحمتی قوتوں کے درمیان یہ باہمی ہم آہنگی اور تعاون مزید شدت اختیار نہ کر جائے۔ صہیونی حکمران واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ساتھ جنگ بندی پر راضی ہونے کی ایک وجہ سیف القدس معرکے کا چند محاذوں تک پھیل جانے کا خوف تھا اور آج اس خوف نے ہر وقت سے زیادہ صہیونی حکمرانوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔
 
صہیونی دشمن خطے میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کی فوجی طاقت میں اضافے سے شدید وحشت کا شکار ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک علاقائی جنگ شروع ہونے کی صورت میں مقبوضہ فلسطین کی فضا ہزاروں میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے بھر جائے گی جو شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک ہر نقطے کو نشانہ بنائیں گے۔ اسرائیل اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ ممکنہ علاقائی جنگ کی صورت میں وہ اندرونی سطح پر شدید نقصان سے روبرو ہو گا اور اس کی بنیادی تنصیبات جیسے الیکٹرک پاور پلانٹس اور پانی اور گیس کے ذخائر حملے کا نشانہ بنیں گے۔ اس وقت بھی اسرائیل زیادہ خطرناک محاذوں کی شناخت میں مصروف ہے تاکہ جہاں تک ہو سکے ممکنہ نقصان سے بچ سکے۔ غاصب صہیونی رژیم تناو اور جنگ کے ممکنہ ایسے اسباب کی روک تھام میں مصروف ہے جو علاقائی جنگ کا باعث بن سکتے ہیں۔
 
اسی سلسلے میں صہیونی رژیم نے بیت المقدس سے ملحقہ محلے شیخ الجراح سے مقامی فلسطینیوں کو نکال باہر کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور یہودی آبادکاروں کو تلمودی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے بھی روک دیا ہے۔ اس وقت اسرائیل غزہ کے ساتھ حالات پرسکون رکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ لبنان اور شام میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کے ساتھ الجھ رہا ہے۔ صہیونی رژیم نے اسلامی مزاحمتی بلاک کے ساتھ ٹکراو میں عرب حکمرانوں سے انٹیلی جنس اور سکیورٹی تعاون کی امید لگا رکھی ہے۔ شام میں بھی غاصب صہیونی رژیم اپنے جارحانہ اقدامات بڑھا کر اسلامی مزاحمت کو دھمکی آمیز پیغام دینا چاہتا ہے لیکن التنف میں امریکی فوجی اڈے پر اسلامی مزاحمت کی جوابی کاروائی نے اس کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔


خبر کا کوڈ: 964600

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/964600/اسرائیل-اسلامی-مزاحمتی-بلاک-سے-ٹکرانے-خوفزدہ-کیوں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org