0
Tuesday 23 Nov 2021 11:50
(مئی 1949ء تا ستمبر2021ء)

پرائڈ آف پرفارمنس قاری سید علی عابد نقوی مرحوم، حالات زندگانی(1)

پرائڈ آف پرفارمنس قاری سید علی عابد نقوی مرحوم، حالات زندگانی(1)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

قاری سید علی عابد نقوی 6 ستمبر 2021ء دوپہر تقریباً ایک بجے اسلام آباد کے معروف پولی کلینک اسپتال میں اس دار فانی سے اپنی آخری منزل کو رخصت ہوئے۔ وہ اسلام آباد میں مقیم تھے۔ ان کے تعارف اور ملی و قومی خدمات سے ہماری ملت بالخصوص موجودہ نسل نا بلد ہے۔ وہ قرآن کے ایک خدمت گار تھے، جن کی ساری زندگی قرآنی تعلیمات کی ترویج و اشاعت میں گزری۔ انہوں نے جو گرانبہا خدمات انجام دیں، انہیں تا دیر یاد رکھا جائے گا۔ ہمارا مکتب جو حقیقی معنوں میں وارث قرآن ہے، اس کی بدقسمتی ہے کہ اس میں قرآنیات پر وہ کام نہیں ہوا، جس کا حق تھا۔ ہاں انقلاب اسلامی ایران کی آمد کے بعد جمہوری اسلامی ایران میں قرآنی معاشرہ کی تشکیل کیلئے گراں قدر کام ہوا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ ایران میں قرآنک انسٹی ٹیوٹس قائم ہیں، جہاں قرآن کے متخصص بنائے جاتے ہیں، یہ فقط قراءت تک محدود نہیں ہوتے بلکہ قرآنی تفاسیر و علوم اور جدید طریقہ کار کے مطابق قرآنی تعلیم اور مہارتیں سکھائی جاتی ہیں۔

اس کا اثر دنیا بھر کی طرح پاکستان پر بھی ہوا ہے، جس کے بعد ہم بھی یہاں سر اٹھا کر بات کرسکتے ہیں، وگرنہ تو ہمارے خلاف انتہائی غلیظ پراپیگنڈہ ہوتا تھا۔ کبھی قرآن کے منکرین میں شامل کیا جاتا تو کبھی قرآن میں تحریف کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا۔ الحمد للہ اب ماحول بہتر ہوچکا ہے، ملک کے مختلف شہروں میں قرآن کو حفظ کرنے اور علوم قرآنی کی ترویج و اشاعت کے ادارے بڑی جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔ اسی کی بدولت ہی ہمارے لوگوں کو اس موضوع پر بات کرنے کی ہمت و حوصلہ ملا ہے۔ بلا شبہ قرآن کلام الہیٰ ہے، جس کی نورانیت کو اپنے قلب و روح میں جذب کرنے والے اس دنیا میں بھی سرفراز ہیں اور آخرت میں بھی یہ نورانیت ان کی بخشش کا ساماں کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
اقبال(رہ)

قاری علی عابد نقوی مرحوم ایک نامور قاری قرآن اور اپنے شعبہ کے بہترین استاد تھے، جنہوں نے پاکستان جیسے ملک میں جہاں اہل تشیع کو ایسے الزامات کا سامنا رہتا ہے کہ یہ قرآن کو نہیں مانتے یا ان کا قرآن مختلف ہے اور عملی طور پر بھی ہمارے ہاں قرآنی محافل و مجالس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں تو ایسے ماحول اور پراپیگنڈہ میں اپنا نام منوایا۔ وہ بھی اس قدر بلند کہ صدارتی ایوارڈ حاصل کیا اور پھر پرائڈ آف پرفارمنس کے حق دار بھی ٹھہرائے گئے۔ وہ واحد شیعہ قاری ہیں، جو اس اعزاز سے نوازے گئے۔ ہم ان کے حالات زندگی میں آگے بڑھنے سے قبل ان کی ابتدائی زندگی اور خاندان کے بارے میں معلومات سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔ کسی بڑے دینی خاندان سے ہونا اور گھریلو تربیت کا انسان کی عملی زندگی میں کتنا اہم کردار ہوتا ہے، اس سے صاف طور پہ سمجھا جا سکتا ہے۔

قاری علی عابد نقوی بنیادی طور پر لاہور سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد کا نام سید امتیاز علی نقوی تھا، ان کے دادا کا نام سید ارشاد علی نقوی تھا، ان کا سلسلہ نسب سید احمد شاہ اولاد پاک امام علی نقی ؑ سے جا ملتا ہے، ان کے اجداد تو صدیوں پہلے اوچ شریف میں بستی جہانیاں شاہ میں آکر آباد ہوئے، جہاں سے اس خاندان کے بزرگوں کی چار پانچ نسل قبل لاہور آکر آباد ہوئی۔ اندرون موچی دروازہ میں امام حسن ؑ کا معروف تابوت برآمدگی کے بانیوں میں مرزا احمد علی، صادق علی عرفانی اور قاری علی عابد نقوی کے دادا ارشاد علی نقوی کا نام آتا ہے، جنہوں نے اس سلسلہ کا آغاز فرمایا۔ قاری علی عابد نقوی کے والد سید امتیاز علی نقوی دینی تفکر، علماء دوست اور نیک طینت ایک پرہیزگار شخصیت کے مالک تھے، جو قیام پاکستان سے بھی قبل سیکری ٹیریٹ میں بطور آفس سٹاف کام کرتے آئے تھے، قیام پاکستان کے بعد بھی اپنی ملازمت کے سلسلہ کو جاری رکھا۔

انہیں جیل خانہ جات کے محکمہ میں ٹرانسفر کر دیا گیا، انہیں تین بار جیل اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ کی آفر کی گئی، مگر انہوں نے اسے قبول کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ وہ جس قسم کا مزاج رکھتے تھے، اس میں انہیں بہت مشکلات پیش آتیں، چونکہ لوگوں کو انصاف مہیا کرنا، جبکہ ماحول میں اس کے امکانات نہ ہوں تو اس سے بہتر یہی سمجھا کہ اس ذمہ داری سے معذوری ہی بہتر ہے۔ قاری علی عابد نقوی کے والد اور خاندان کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہی بتانا ہے کہ ان کے والد مرحوم جو ان کے استاد، مربی اور رہنماء تھے، وہ اس مزاج کے بندے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک نامور، اعلیٰ درجہ ک قاری بنانے میں بہت زیادہ محنت کی، بہت توجہ دی اور اپنا بہت ہی زیادہ وقت تعلیم و تربیت کیلئے دیا۔ ان کے تین صاحبزادے تھے، بڑے قاری علی عابد نقوی، اس سے چھوٹے کرنل عارف نقوی صاحب، جو پاکستان ایئر فورس سے بطور گروپ کیپٹن ریٹائرڈ ہیں اور لاہور کے اجتماعی و تنظیمی حلقوں میں بطور ایک درد مند و دانشور اپنی پہچان و شناخت رکھتے ہیں۔

ان کی شادی مولانا امیر حسین نقوی (والد ڈاکٹر سید محمد علی نقوی) کی صاحبزادی سے ہوئی۔ کرنل عارف نقوی صاحب شہید ڈاکتر محمد علی نقوی کے قریب رہے، ڈاکٹر شہید کی زندگی باقی خاندان کی طرح ان کیلئے بھی ایک رہنماء اور کشش کا باعث رہی ہے۔ سب سے چھوٹے سید حسن عاکف نقوی نے بی ایس سی (کیمیکل انجینئرنگ) سال 1980ء میں انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجیز پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کی۔ مولانا صادق علی نجفی ان کے سسر تھے۔ سید حسن عاکف نقوی کے دو بیٹے جامعۃ المصطفیٰ، حوزہ علمیہ قم سے معمم ہوچکے ہیں۔ چھوٹے بیٹے سید محمد حیدر نقوی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں اور بڑے بیٹے سید محمد حمزہ نقوی جنھوں نے حوزہ علمیہ قم جوائن کرنے سے پہلے امریکن یونیورسٹی آف شارجہ سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی، وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول میں کوشاں ہیں۔ دونوں بہوہیں بھی حوزہ علمیہ کی طالبات ہیں۔

اسکے علاوہ ان کی ایک بیٹی اور داماد بھی جامعۃ المصطفٰی قم میں گذشتہ 8 سال سے حوزہ علمیہ کے طلباء ہیں۔ اس خاندانی تعارف سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قاری علی عابد، ان کے والد اور ان کے بھائیوں اور خود ان کے اپنے خانوادے کا گھریلو ماحول کس قدر مثالی ہے۔ اسی دینی ماحول و تربیت کی بدولت علم و عمل سے آراستہ دین شناس، دین آگاہ اور ملت کی تبلیغ و تعارف کا ذریعہ بننے والی شخصیات آج بھی اس خاندان میں موجود ہیں۔ ان کے والد جو قرآن کے بہترین قاری اور صاحب علم و فضل شخصیت کے مالک تھے، اگرچہ حافظ قرآن نہیں تھے، مگر قرآنی علوم اور قراءت کے حوالے سے خاصے ماہر تھے۔ اپنے بیٹے کو 60ء کی دہائی میں سات آٹھ کلو میٹر فاصلہ طے کرکے موچی گیٹ میں جناب قاری محمد علی رضوان مرحوم کے پاس  قراءت کالج لے جاتے تھے اور سبق مکمل پڑھنے کے بعد انہیں واپس لے جاتے تھے۔

یہ مشکلات کا دور تھا، وسائل بھی نہ تھے، مگر قرآن سے گہری محبت اور دلچسپی نیز ذمہ داری کا احساس تھا، جو والدین اپنے بچوں کو اس قدر وقت دیتے تھے، جب محنت کی جائے تو پروردگار عالم نتیجہ بھی دیتا ہے۔ محنت کا پھل یقیناً شیریں و خوش ذائقہ ہوتا ہے، اس دوران ہی قاری علی عابد نقوی مرحوم نے لاہور کے کالجز کی سطح پر مختلف مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور مقابلے جیت کر پوزیشنز حاصل کرتے گئے۔ وہ رفتہ رفتہ لاہور کے خوش الحان قاریوں میں شمار ہونے لگے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے مقابلوں میں شرکت و موجودگی سے دیگر قراء حضرات گھبرانے لگے۔ یہ وہ دور تھا، جب قاری صداقت علی اور قاری علی عابد نقوی اول و دوم پوزیشنز لیتے تھے۔ قاری علی عابد نقوی دیال سنگھ کالج کے طالبعلم تھے، جہاں سے انہوں نے گریجو ایشن مکمل کی تھی۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج سے "رول آف آنر" حاصل کیا تھا۔

قاری علی عابد نقوی نا صرف ایک بہترین قاری تھے بلکہ وہ ایک زبردست قسم کے DEBATER بھی تھے۔ ان کے والد جو اس زمانے کے منشی فاضل تھے، انہوں نے اپنے بیٹے کی ادبی تربیت کی تھی، جس سے وہ ایک اچھے DEBATER بھی  بن گئے تھے، جس کے باعث انہوں نے اس میدان میں بھی کئی کامیابیاں سمیٹیں۔ اس کا فائدہ انہیں اس وقت بھی ہوا، جب انہوں نے مجالس پڑھنے کا آغاز کیا۔ والد مرحوم کی تربیت دینی، رہنمائی اور محنت کی بدولت علم و عمل سے بھرپور زندگی اور قرآنی نورانیت سے مستفید ہونے کے باعث انہیں مجالس پڑھنا کبھی مشکل نہیں لگا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ایک بار باقاعدہ عشرہ محرم مظفر گڑھ میں جا کر پڑھا۔

اقبال نے کہا تھا کہ۔۔۔۔
رمز قرآن از حسین آموختیم
نہ آتش او شعلہ ہا اندوختیم

 اور پھر یہ بھی کہا کہ۔۔۔
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن

اقبال (رہ) کے نزدیک اگر قرآن کے رموز سے آگاہی حاصل کرنا ہے تو در حسین ؑ پر آنا پڑے گا۔ لہذا قرآن و اہلبیتؑ سے تمسک ہی انسانیت کی بقاء و منزل خلقت کو پانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اہلبیت ؑ کے پیروان ہی قرآن کے اصل وارث ہیں۔ قاری علی عابد نقوی اہلبیت ؑ و قرآن کریم سے تمسک کی عملی مثال تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 965128
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش