0
Wednesday 24 Nov 2021 22:28
(مئی 1949ء تا ستمبر2021ء)

پرائڈ آف پرفارمنس قاری سید علی عابد نقوی مرحوم، حالات زندگانی(2)

پرائڈ آف پرفارمنس قاری سید علی عابد نقوی مرحوم، حالات زندگانی(2)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

جیسا کہ ذکر ہوا کہ قاری علی عابد نقوی نے ملکی و عالمی سطح پر اپنا منفرد اسلوب اور خوش الحانی کا لوہا منوایا اور وہ پاکستان کی سطح پر ایک نامور قاری کے طور پہ پہچانے و تسلیم کئے گئے، یہی وجہ تھی کہ قاری علی عابد نقوی مرحوم نے 1979ء میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا، جبکہ 1995ء میں انہیں اس وقت کے صدر پاکستان جناب فاروق لغاری کے ہاتھوں "پرائڈ آف پرفارمنس" حاصل ہوا۔ شاید وہ پہلے اور اس وقت تک اکیلے ہی شیعہ قاری قرآن ہیں، جو اس اعلیٰ اعزاز سے نوازے گئے ہیں، ملک و بیرون ممالک میں قاری علی عابد نقوی نے ان گنت مقابلوں میں حصہ لیا اور پوزیشنز سنبھالیں، اعلیٰ ایوارڈز اور شیلڈز حاصل کیں۔ وہ ایک وقت میں مقابلوں میں حصہ لیتے تھے تو انہیں ایوارڈز سے نوازا جاتا تھا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ انہیں مقابلوں میں بطور جج اور منصف بلایا جاتا تھا، جس کے اعزاز میں ایوارڈز اور شیلڈز و میڈلز بھی انہیں دیئے جاتے، ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنے ایوارڈز، شیلڈز اور میڈلز جمع ہوگئے تھے کہ انہیں سنبھالنا اور الماریوں میں رکھنا ممکن نہیں تھا، با امر مجبوری انہیں بوریوں میں رکھنا پڑتا تھا۔ قاری علی عابد نقوی اپنا منفرد اسلوب اور طرز و انداز رکھنے والے ایک شیعہ قاری قرآن تھے۔

اگر ہم ان کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قاری علی عابد نقوی کی شادی ایک رضوی خاندان میں ہوئی، وہ شادی کے بعد اسلام آباد منتقل ہوگئے اور اپنے آخری ایام تک وہیں مقیم تھے۔ ان کے دو صاحبزادے تھے، بڑے بیٹے علی ساجد جو کہ چارٹرڈ اکاونٹنٹ تھے، تین سال قبل 40 سال کی عمر میں انگلینڈ میں تھے کہ داغ مفارقت دے گئے، ان کے جگر میں سوراخ تھا، چھوٹے صاحبزادے محمد عون ہیں، جو والد کی رحلت کے بعد گھر کے معاملات کو سنبھالے ہوئے ہیں، انہوں نے Mechatronic Engineering کی ہے، جو Hardware Development Engineer ہیں۔ آپکے پسماندگان میں زوجہ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں، ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ قاری صاحب مرحوم ایک اچھے شوہر اور انتہائی شفیق اور مثالی والد تھے۔ جنھوں نے اپنی اولاد کی تربیت میں اور انھیں بہترین مذہبی ماحول مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی اولاد میں سبھی اپنے اپنے انداز میں  ذکر اہلبیت (ع) میں مشغول ہیں اور دینی اور دنیاوی تعلیم کے میدان میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آپ کی چھوٹی بیٹی، فاضلہ قم ہیں اور اندرون و بیرون ملک تدریس و تبلیغ انجام دے رہی ہیں۔

 اہل خانہ کے بقول آپ کی خاص عادت جو یقیناً تعلیمات اسلامی کے عین مطابق ہے، وہ یہ کہ آپ کبھی بھی گھر کے کسی بھی کام میں تعاون کو اپنے لئے باعث ننگ و عار نہیں سمجھتے تھے۔ ہر کسی کے درد و پریشانی پر رنجیدہ ہوتے تھے اور اس کے حل کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ ان کے صاحبزادے محمد عون نے بتایا کہ انھوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو کم سنی میں ہی تجوید و قرات کی جانب مائل کیا۔ لیکن یہ بات میرے لیے قابلِ اعزاز ہے کہ انھوں نے خصوصی طور پر میری سرپرستی کی۔ زمانہ طالبعلمی میں بہت سی محافل اور مقابلہ تجوید و قرات میں شرکت کی اور کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے بعد میں بیرون ملک (برطانیہ) اعلیٰ تعلیم کے لئے مقیم رہا اور وہاں بھی تعلیم کے ساتھ ان کے مشن کو حسب استطاعت جاری رکھا، یقیناً ان جیسی خدمات انجام دینا مجھ جیسے ناچیز کے لئے ناممکن ہے، لیکن خداوند متعال سے یہی دعا ہے کہ میں ان کے نقشِ قدم پر قائم رہوں اور فن حسن قراءت کو اپنی آنے والی نسلوں تک منتقل کرسکوں۔

قاری علی عابد نقوی مرحوم کی کی ہر طرح سے یہ کوشش رہی کہ ملت کے جوانوں کو یہ بتایا جائے کہ تجوید قرآن کو سیکھنا ضروریات دین میں سے ہے۔ اس حوالے سے آپ مختلف پروگرامز بھی منعقد کرتے رہے۔ آپ آخری عمر میں شدید علالت کے باوجود بھی بچوں کی تجوید کے حوالے سے راہنمائی فون اور دوسرے ذرائع سے فرماتے رہے۔ آپ کی قرآن دوستی کا ایک نمونہ ان کے آخری ایام میں یوں مشاہدہ کیا گیا کہ آپ جب اسپتال میں زیر علاج تھے اور آکسیجن سیلنڈر کی مدد سے سانس لے رہے تھے تو جونہی آپ کے شاگردوں کی آواز میں پڑھی گئی تلاوت لگائی جاتی تھی تو آپ کا آکسیجن لیول بہتری کی طرف جانے لگتا تھا اور اس بیماری میں بھی آپ کے چہرے پر خوشی دیکھی جا سکتی تھی۔

قاری علی عابد نقوی کی خواہش و خواب تھا کہ پاکستان میں ایک "انٹرنیشنل قصر قرآن" تعمیر کیا جائے، جس میں وہ ملت اسلامیہ کو قرآن صامت کی تجوید و قرائت، تفسیر اور تحقیق اہلیبیت (ع) کی تعلیمات کی روشنی میں کروانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے آپ نے سرکاری اور نجی سطح پر شب و روز کوشش کی، لیکن خاطر خواہ کوئی نتائج نہ مل سکے۔ قاری علی عابد نقوی ایک خدا ترس انسان تھے، لوگوں کے کام آکر خوشی و مسرت حاصل کرتے تھے، کسی کی مدد کرتے تو خبر نہ ہونے دیتے، ان کے اہل خانہ سے معلوم ہوا کہ ان کی رحلت کے بعد کچھ ایسے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، جن کے والد حیات نہیں تھے اور ان کا یہ کہنا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اب یتیم ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ یتیم پروری کے حوالے سے جہاں تک ان کے بس میں تھا کردار ادا کرتے رہے۔

 ان کے چھوٹے بھائی عاکف نقوی نے بتایا کہ ان کی جاب دبئی میں تھی اور میرے سسر مولانا صادق علی نجفی بھی چونکہ دبئی میں مقیم تھے، انہوں نے بھائی جان عابد کو دبئی مدعو کیا، جہاں بھائی جان عابد نے تمام مومنین اور خصوصاً نوجوان طبقہ کو علم تجوید اور قراءت کے فن کی کچھ عرصہ تربیت دی، جس کو بہت سراہا گیا۔ میں بھی دبئی میں الحمدللہ انکے حقیر شاگردوں میں شامل ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ اس سلسلے میں مولانا سید محمد صادق علی نجفی (رہ) نے بھائی جان عابد کو اسلام آباد میں ایک ریکارڈنگ سٹوڈیو بنانے کا مشورہ دیا، تاکہ ان کی قرآن کی ریکارڈنگ کو دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب کیسٹس ریکارڈ کی جاتی تھیں۔ واضح کر دوں کہ اس زمانے میں ریکارڈنگ سٹوڈیو بنانا ایک بہت بڑے پراجیکٹ کا آغاز تھا، لیکن بھائی جان عابد نے انتھک کوششوں سے نہ صرف ریکارڈنگ روم بلکہ اپنی قراءت کی کیسٹس تیار کرکے پوری دنیا میں قراءت قرآن کو روشن کرکے دکھا دیا اور مولانا سید محمد صادق علی نجفی (رہ) کی مدد سے وہ کام کر دکھایا، جو ممکنات میں سے نہیں لگتا تھا۔

یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ اس زمانے میں دبئی یا لندن میں مومنین کی شائد ہی کوئی گاڑی ہو، جس میں بھائی جان عابد کی قرآن یا دعائے کمیل کی کیسٹس نہ ہوں۔ ہمیں بھی بڑی خوشی ہوتی کہ جب دبئی میں کسی مومن کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھتا تو وہ بڑے فخر سے بھائی جان عابد کی تلاوت سے آغاز سفر کرتا۔
جناب عارف نقوی صاحب نے بتایا کہ قاری عابد صاحب مرحوم کا علامہ سید صفدر علی نجفی سے خاص لگاؤ تھا، وہ بھی قاری صاحب کو بہت اہمیت دیتے تھے، انہی کی دعوت پہ قاری علی عابد نقوی مرحوم نے جامعۃ المنتظر میں بطور طالبعلم داخلہ لیا اور بطور استاد تجوید و قراءت کی تدریس بھی کی۔ موجودہ زمانے میں اگر ہم نے ترقی حاصل کرنا ہے، رشد پانا ہے، عز و شرف حاصل کرنا ہے، اپنی اصلی منزل کو پانا ہے تو قرآن سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا ہوگا، ہمیں قرآنی معاشرہ کی تشکیل کیلئے عملی جدوجہد کرنا ہوگی۔ قاری علی عابد نقوی مرحوم بھی یہی خواہش رکھتے تھے اور اقبال (رہ) نے بھی تو یہی کہا ہے کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
خبر کا کوڈ : 965129
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش