QR CodeQR Code

عمران خان پاکستان کا خوش قسمت ترین حکمران

24 Nov 2021 06:54

اسلام ٹائمز: عمران خان اس معاملے میں بھی خوش قسمت ترین وزیراعطم ہیں کہ انہیں عوامی اپوزیشن کا بھی سامنا نہیں ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی پریس کانفرنسز اور اجتماعات عمران خان کیخلاف نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کیخلاف ہیں۔ عمران خان اپوزیشن رہنماوں کی سرگرمیاں دیکھ کر یقیناً انجوائے کر رہے ہوتے ہونگے۔ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں، اب کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں عوام کی فلاح کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لیے عمران خان صاحب کو پاکستان کا خوش قسمت ترین وزیراعظم سمجھتا ہوں۔ اب اگر یہ کچھ نہ کرسکے تو پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہی ہوگی، انہوں نے تو اپنی باری لے لی ہے۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان کی سیاسی تحریک بڑے اتار چڑھاو کا شکار رہی ہے، یہاں شروع سے ہی اسٹبلشمنٹ اور سول حکومتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ نہیں بن پائی۔ عوام کو جواب دہ اور کروڑوں لوگوں کا بار کاندھوں پر اٹھائے سیاسی حکومتیں ہمیشہ معتوب رہی ہیں۔ سیاستدان فرشتے نہیں ہیں، مگر کرپشن وغیرہ کے الزامات ہی ستر کے بعد پاکستانی سیاست میں داخل ہونے والوں کی دین ہیں، جسے پروپیگنڈا کے ذریعے مسلمہ حقائق میں تبدیل کر دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین جیسا تحریک پاکستان کا رہنماء قابل قبول نہیں، گورنر جنرل غلام محمد کو پہلے لایا پھر ہٹایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایوب خان کا طویل مارشل لاء ہے، جس سے ذوالفقار علی بھٹو ایک سیاستدان کی صورت میں عوامی آواز بن کر نکلتے ہیں۔ بھٹو چند سال میں ملک کی عزت و عظمت میں اضافہ کرتے ہیں اور پھر عوامی مقبولیت کے جرم کی سزا پاتے ہوئے بقول خود تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے ایک آمر کے ہاتھوں مر جاتے ہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ بھٹو کی صورت میں ایک مقبول عام رہنماء اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پہچان رکھنے والا اگر کچھ اور عرصہ رہتا تو طاقتور حلقوں کے لیے کسی بھی طور پر سازگار نہ تھا۔ یہ بھٹو ہی تھا، جو دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں اتنے سربراہان مملکت کو وطن عزیز میں لے آیا، جو اب تو ایک خواب ہی ہے۔ خیر جنرل ضیاء کی صورت میں مرد مومن مرد حق کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ مارشل لاء کی طویل رات ملک پر چھا جاتی ہے۔ ضیاء الحق کے آمرانہ دور نے وطن عزیز پر دور رس اثرات مرتب کیے، جنہیں ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ان کی افغان پالیسی پر تنقید کی جاتی ہے، حالانکہ وہ پالیسی ذولفقار علی بھٹو نے ترتیب دی تھی۔ اتنا بڑا ڈاکٹرائن درمیانی صلاحیتوں کا حامل شخص بنا ہی نہیں سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ بھٹو کی اس پالیسی کے منفی اثرات کو ضیاء الحق روکنے میں ناکام رہا اور اسے مذہبی رنگ پہنا کر اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر بارڈر کے پار سے ملک کے اندر لے آیا۔ اس مارشل لاء سے نواز شریف کی صورت میں ایک صنعت کار سیاستدان بھی ملا، جو بنیادی طور پر تاجر طبقے سے تعلق رکھتا تھا اور انہی کے مفادات کا امین بھی تھا۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایوب کی کابینہ سے بھٹو اور ضیاء الحق کی کابینہ سے نواز شریف کیوں برآمد ہوئے؟ جو بعد میں سیاست و جمہوریت کے چمپئن بن گئے؟ جب سیاست کے روایتی راستوں پر دہائیوں جرنیل قابض رہیں گے تو سیاستدان اپنے لیے موجود راستے سے ہی آگے بڑھیں گے اور ایوب اور ضیاء ہی تھے۔ پھر اوسطاً دو دو سال کی مدت کے لیے سیاسی حکومتیں بنتی ہیں اور اس کے بعد پھر مشرف کا مارشل لاء آجاتا ہے، یہ بھی طویل عرصہ جاری رہتا ہے، جس کے غلط فیصلوں کی وجہ طالبان فاٹا اور سوات کے علاقوں میں زور پکڑ لیتے ہیں۔ مشرف کے بعد پی پی  اور پھر نواز شریف کی حکومت آتی ہے۔ یہاں ایک بنیادی تبدیلی آئی کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کی صورت میں ایک معاہدہ کیا گیا کہ ہماری باہمی لڑائی کی وجہ سے  ملک میں مارشل لاء نافذ ہو جاتے ہیں، اس لیے ہر منتخب حکومت کو اس کی مدت پوری کرنے دی جائے گی اور ہر ایک کا مینڈیٹ تسلیم کیا جائے گا۔ اس لیے اگرچہ وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکے، مگر ان جماعتوں کی حکومتوں نے مدت پوری کی۔

قیام پاکستان سے لے کر ابھی تک ماشل لاء رہا ہو یا عوامی حکومت ہو، ہر دو صورتوں میں  ایک مضبوط اپوزیشن موجود رہی۔ فوجی حکومتوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اپوزیشن فقط عوامی جماعتوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جب عوامی حکومت آجاتی ہے تو اس کی اپوزیشن دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو مخالف سیاسی جماعتیں اور دوسرا اسٹبلشمنٹ کے طاقتور حلقے ان کے مخالف ہوتے ہیں، اس لیے انہیں اندر باہر دو  طرح سے خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ پی پی کی حکومت کے خلاف جب نواز شریف کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچ گئے تو عدلیہ کے بھی کھل کر سیاست میں کردار کی راہ ہموار ہوئی۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ نواز شریف کے دور حکومت میں سیاسی جماعتیں، اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے چیلنجز رہے، جو آخر میں نواز بذریعہ عدلیہ نااہل ہونے پر ختم ہوئے۔

اب عمران خان صاحب کو حکومت ملے تین سال ہوچکے ہیں، یہ پاکستانی تاریخ کے خوش قسمت ترین حکمران ہیں۔ انہیں کسی قسم کی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے۔  اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ ہی نہیں ان سے آگے کھڑی ہے، ان کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹا رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں نمبر گیم کم ہونے کے باوجود انہیں کسی قانون سازی کی کوئی فکر نہیں ہوتی، نمبر خود سے پورے ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ انہیں صادق و امین کا سرٹیفکیٹ دے چکی ہے اور ہر بات پر سو موٹو کا زمانہ قصہ پارینہ بن چکے اور اب عدلیہ کے معزز جج صاحبان ہسپتالوں کے دورے کرکے پریس کانفرنس بھی نہیں کرتے۔ میڈیا جو کم از کم پچھلی دو حکومتوں کے لیے درد سر بنا رہا، خان صاحب نے اس کی شہ رگ ایسی دبائی ہے کہ دست بستہ سامنے ہے، پانامہ پر ہزاروں پروگرام کرنے والے اب کی لیکس پر ادب و احترام اور اپنی حدود کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

میڈیا کے اینکرز اور سوشل میڈیا کی فوج ہر بات کے دفاع کے لیے موجود ہے۔ عمران خان اس معاملے میں بھی خوش قسمت ترین وزیراعطم ہیں کہ انہیں عوامی اپوزیشن کا بھی سامنا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی پریس کانفرنسز اور اجتماعات عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہیں۔ عمران خان اپوزیشن رہنماوں کی سرگرمیاں دیکھ کر یقیناً انجوائے کر رہے ہوتے ہوں گے۔ عمران خان اور اسٹبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں، اب کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہے، اس لیے وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لیے عمران خان صاحب کو پاکستان کا خوش قسمت ترین وزیراعظم سمجھتا ہوں۔ اب اگر یہ کچھ نہ کرسکے تو پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہی ہوگی، انہوں نے تو اپنی باری لے لی ہے۔


خبر کا کوڈ: 965144

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/965144/عمران-خان-پاکستان-کا-خوش-قسمت-ترین-حکمران

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org