0
Saturday 27 Nov 2021 11:17

اسلامی متون کی کسوٹی پر جہادِ کشمیر

اسلامی متون کی کسوٹی پر جہادِ کشمیر
تحریر: حافظ منوّر علی

دفاع کی حِس ہر جاندار میں پائی جاتی ہے، یہ ایک فطری اور الِہیٰ جذبہ ہے۔ اس جذبے کے تحت انسان اور حیوان دونوں بھرپور انداز میں اپنا دفاع کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر آئین، مذہب، قانون اور ملک میں انسانوں کے بنیادی حقوق کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ انسانوں کے مسلمہ بنیادی حقوق میں مندرجہ ذیل چیزیں آتی ہیں:
1۔ دین اور عقیدہ،  2۔ جان و حیات،  3۔ فکری آزادی، 4۔ عزت و آبرو، 5۔ مال و دولت۔ دنیا کے باشعور انسان اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور ان کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تو تیار ہو جاتے ہیں، لیکن اپنے حقوق سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر کوئی کسی مرغی یا اسکے بچوں پر حملہ کرتا ہے تو وہ مرغی بھی دفاع کرتی ہے۔ مفسرِ قرآن علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ حیات اور منافع حیات کی بقاء کے لئے استقامت دکھانا ایک فطری عمل ہے۔1 
 
اب بات کرتے ہیں اسلامی نکتہ نگاہ سے جہاد کشمیر کی۔ سب سے پہلے ہم جہاد کشمیر کہ نوعیت کو بیان کریں گے، پھر شریعت کے ہر ایک منبع سے اس جہاد کی مشروعیت پر استدلال قائم کریں گے۔ دینی اسلام میں جہاد کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں:
1۔ جہاد ابتدائی
جہاد ابتدائی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسلامی مجاہدین کافروں کے کسی بھی علاقے  پر حملہ کر دیں اور ان کو اسلام کی دعوت دیں اور اس جہاد سے جو بھی مال غنیمت ملے، اس کو آپس میں تقسیم کر لیں۔
2۔ جہاد دفاعی
جہاد دفاعی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کافر مسلمانوں پر حملہ کر دیں اور مسلمان اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لئے ان کا مقابلہ کریں اور اپنی جان بچائیں۔ اسلام میں جہاد ابتدائی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے لیکن جہاد دفاعی اس وقت مسلمانوں پر واجب ہو جاتا ہے، جب مسلمانوں پر ظلم کیا جائے، ان کی عزت اور مال کو لوٹا جائے، ان کو اپنے وطن سے نکالا جائے۔ دفاعی جہاد قرآن کریم میں مختلف طریقوں سے مختلف آیات میں بیان ہوا ہے اور ان آیات کی روشنی میں جہاد کشمیر ایک دفاعی جہاد ہے۔

جہاد کشمیر پر قرآنی استدلال
خداوند کریم کا ارشاد ہوتا ہے: أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔2 ترجمه: "اجازت دے دی گئی ہے (لڑائی کی) ان لوگوں کو، جن سے لڑائی کی جا رہی ہے اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ وہ جنہیں ناحق طور پر ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، صرف اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ ہٹاتا تو وہ گرجے، عبادت خانے اور مساجد ویران ہو جاتیں، جن میں اللہ کا بہت ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ اُن لوگوں کی ضرور مدد کرے گا، جو اس کے دین کے مدد گار ہیں۔ بے شک اللہ قوت والا اور غالب ہے۔"

پہلا نکتہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن پر ظلم کیا جائے، ان کو دفاع کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مظلوم اگر ظالم کے خلاف کھڑا نہیں ہوگا تو ظالم میں جرات، کبر، دلیری اور غرور میں اضافہ ہوگا، جس کے نتیجے میں وہ پہلے سے زیادہ ظلم کرے گا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے گھر تو کیا، اللہ کا گھر اور عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ "الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ" اس آیت کی تفسیر میں علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ یہ آیت مومنین کی مظلومیت بیان کر رہی ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ مومنین کو ہاتھ سے پکڑ کر شہر سے نکال دیا ہو بلکہ انکو اتنی اذیت دی گئی کہ وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔3 اس آیت میں مظلوم کو دفاع کی اجازت دی گئی ہے، لیکن دوسری آیت میں جہاد  کا حکم دیا گیا ہے۔

خداوند کریم کا ارشاد ہوتا ہے: وَقَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔4 ترجمه: "اور لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔" اور پہر اسی دفاعی جہاد کو بھی مسجد الحرام کے نزدیک ممنوع قرار دیا گیا ہے، لیکن اگر دشمن خود مسجد کی حدود میں داخل ہو کر آپ پر حملہ کرے تو آپ بھی جہاد اور دفاع کا حق رکھتے۔ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِینَ۔5 ترجمه: "اور ان دشمنوں سے مسجد حرام میں نہ لڑو، جب تک وہ تم سے لڑائی نہ کریں، لیکن اگر وہ تم سے وہاں بھی لڑیں تو پھر انہیں قتل کرو۔ کافروں کی یہی سزا ہے۔" اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دشمن آپ پر ظلم و ستم کرے تو آپ کو بھی جہاد اور دفاع کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

کشمیر پر ہندوستان نے انگریزی سامراج کے ساتھ ملی بھگت کرکے 1948ء میں اپنا قبضہ جمایا تھا۔ اس غاصبانہ قبضے کو قائم رکھنے کیلئے بھارت مسلسل کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اہلیانِ کشمیر اپنے صبر اور حوصلے کے ساتھ ان مظالم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر دشمن اپنی قوت اور طاقت کے ذریعے ہمارے وطن کے اوپر قابض ہو جائے تو ہمیں نہ صرف فقط اپنے گھروں، بچوں، مال اور جان کے حفاظت کرنی ہے بلکہ متحد ہو کر دشمن کو اپنی سرزمین سے بھی نکالنا ہے۔ اس حوالے سے خداوند کریم کا ارشاد ہوتا ہے: وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُم مِّنْ حَیْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِینَ۔6 ترجمه: "تم انہیں جہاں بھی پاؤ، قتل کرو اور جہاں سے انہوں نے تمھیں نکالا ہے، تم بھی انہیں وہاں سے نکالو اور دین سے ہٹانا قتل سے زیادہ سخت گناہ ہے اور جب تک وہ تم سے نہ لڑیں، تم بھی مسجد حرام میں ان سے نہ لڑو، لیکن اگر وہ وہاں بھی تم سے لڑیں تو پھر انہیں قتل کرو، کافروں کی یہی سزا ہے۔"

اس آیت میں اپنے سب ایمان والے بندوں کو، خواہ اپنے گھروں میں بس رہے ہوں یا انہیں گھروں سے بے گھر کیا گیا ہو، حکم دیا گیا ہے کہ وہ بہرحال ان شہروں سے کفّار کو نکالنے کے لیے اٹھیں، جن پر انہوں نے مسلمان باشندوں کو نکال کر قبضہ کر لیا ہے، کیونکہ ان علاقوں، شہروں اور وہاں پر موجود مسلمانوں کے تمام مال و متاع کی خدا کی نظر میں وہی حرمت اور تعظیم ہے، جو خود ایک مسلمان کی ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کو کفّار کے تسلط سے آزاد کرانا ایک شرعی حکم ہے، جسے بجا لانا واجب ہے۔

دشمن سے اپنے علاقے واپس لینے کا حکم
اپنے علاقے واپس لینے کے لیے لڑنے والے طالوت کے ساتھیوں نے کہا تھا: وَما لَنا أَلّا نُقـٰتِلَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَقَد أُخرِجنا مِن دِيـٰرِنا وَأَبنائِنا۔۔۔7 ترجمہ: "اور ہم اللہ کے راستے میں کیوں نہ لڑائی کریں اور تحقیق ہم اپنے ملک اور بچوں سے نکال دیئے گئے۔" اب مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہا ہے، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا قتل، عورتوں کی عصمت دری، املاک، کھیتوں، دکانوں کو جلانا اور ہزاروں افراد ہجرت کرنے پر مجبور کر دیئے گئے۔ یہ حالات بھی جہاد دفاعی کو فرض کر دیتے ہیں۔ وَ ما لَكُمْ لا تُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّه وَالمُستَضعَفينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالوِلد‌ٰنِ الَّذينَ يَقولونَ رَبَّنا أَخرِجنا مِن هـٰذِهِ القَريَةِ الظّالِمِ أَهلُها وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ وَلِيًّا وَاجعَل لَنا مِن لَدُنكَ نَصيرًا۔8 ترجمہ: "اور تم اللہ کے راستے میں لڑائی کیوں نہیں کرتے، حالانکہ ضعیف مرد، عورتیں اور بچے کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں اس بستی سے نکال، جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور تو اپنی طرف سے ہمارے لیے کوئی دوست اور مدگار بنا۔"

اس آیت کے ذیل میں مشہور مفسر قرآن فخر رازی لکھتے ہیں کہ وَ ما لَكُمْ لا تُقاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّه. اس جملے سے مراد یہ ہے کہ جہاد واجب ہو جاتا ہے، جب ضعیف مردوں، بچوں اور عورتوں پر ظلم کیا جائے اور ضعیف مردوں، بچوں اور عورتوں سے مراد وہ مسلمان ہیں، جو مکّے میں رہ گئے تھے اور رسول اکرمﷺ کے ساتھ مدینہ ہجرت کرنے پر قادر نہیں تھے اور کفار مکّہ ان کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے ۔9 فخر رازی کی اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی دوسرے شہر یا ملک میں ضعیف لوگوں پر ظلم کیا جائے تو دوسرے شہر یا ممالک میں رہنے والے مسلمانوں پر ان کا دفاع کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ ہندوستان نے ہندوستانی مسلمانوں کی جان و مال اور مساجد کی حفاظت اور کشمیر کی پہچان اور تشخص کے باقی رہنے سمیت کسی بھی معاہدے کی کبھی پاسداری نہیں کی۔ اب جبکہ تمام معاہدے توڑ دیئے گئے ہیں تو ضروری ہے کہ مسلمان اپنے دفاع کیلئے اٹھیں۔

چونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَإِن نَكَثوا أَيمـٰنَهُم مِن بَعدِ عَهدِهِم وَطَعَنوا فى دينِكُم فَقـٰتِلوا أَئِمَّةَ الكُفرِ إِنَّهُم لا أَيمـٰنَ لَهُم لَعَلَّهُم يَنتَهونَ۔۔۔۔11 ترجمہ: "اگر وہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین پر طعن کریں تو پس کفر کے اماموں سے لڑو۔ بے شک ان کا کوئی عہد نہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔" اس آیت میں آئمہ کفر سے لڑنے کا حکم ہے، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی باطل قوت کو ختم کرنے کے لئے ان کے آئمہ اور پیشوائوں سے لڑائی کرنا ضروری ہے، کیونکہ اگر عام افراد سے لڑائی کریں گے تو افراد تو ختم ہوسکتے ہیں، لیکن ان کا مشن ختم نہیں ہوگا، لیکن جب ائمہ کفر سے لڑیں گے تو ان کے ظلم کا مشن ہی ختم ہو جائے گا۔

جہاد کشمیر پر سنت سے استدلال
جب رسول اکرمﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے تمام قبائل و اقوام کو اکٹھا کیا اور ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور اس معاہدے میں ہر قبیلے کے انسانوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا، جس میں مہاجرین اور انصار کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے لئے بھی ایک مسالمت آمیز زندگی کے مقدمات فراہم کیے گئے۔ اس معاہدے میں یہ بھی لکھا گیا کہ اگر یہودیوں نے رسول اکرم (ص) اور ان کے پیروکاروں کے خلاف زبان، ہاتھ، اسلحے اور سواری کے ذریعے آشکار یا مخفی کوئی بھی قدم اٹھایا تو رسول اکرمﷺ کو یہودیوں کے خون بہانے کا حق ہوگا، ان کی عورتوں کو اسیری میں لینے کا حق ہوگا اور ان کے مال کو غنیمت کے طور پر ضبط کرنے کا حق ہوگا۔12 اسی سنت رسول اکرمﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسلامی ملک اور وطن کا دفاع کرنا سب پر فرض ہے اور یہ رسول اکرمﷺ کی سنت ہے۔

جہاد کشمیر پر اجماعِ علماء اسلام سے استدلال
علماء اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب کسی انسان کے مذہب، عقائد، جان، مال، عزت، اولاد اور وطن کو خطرہ لاحق ہو تو اس وقت ان سب چیزوں کے حفاظت کرنا اس پر واجب ہے۔
جہاد کشمیر پر عقلی استدلال
ہر عقل سالم فطرت انسان یہی چاہتا ہے کہ جب اُس کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ اپنی بقاء کے لئے دفاع کرے۔ پس اپنی بقاء کی جنگ لڑنا انسانی فطرت اور عقل  میں خداوند کریم نے رکھ دی ہے۔ لہذا انسان کو اپنے وجود کی بقاء کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ علامہ محمد حسین طباطبائی تفسیر المیزان جلد 14 صفحہ 545
2۔ سورہ حج آیہ 30-39
3۔ علامہ محمد حسین طباطبائی تفسیر المیزان جلد 14 صفحہ 545
4۔ سورہ بقرہ آیہ 190
5۔ سورہ بقرہ آیہ 191
6۔ سورہ بقرہ آیہ 191
7۔ سورہ بقرہ آیہ 246
8۔ سورہ نساء آیہ 75
9۔ التفسیر الکبیر فخر رازی محمد بن عمر جلد 10 صفحہ 140
10۔ آرٹیکل نمبر 370)
11۔ سورہ توبہ آیہ 12
12۔ اعلام الوری فضل بن حسن طبرسی جلد 1 وصفحہ 157
خبر کا کوڈ : 965703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش