1
1
Saturday 27 Nov 2021 11:39

چالیس پاروں والے قرآن کی دریافت؟؟؟

چالیس پاروں والے قرآن کی دریافت؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کچھ عرصہ پہلے ہمارے پاس مختلف مسالک کے علمائے کرام کا ایک وفد آیا، جس میں زیادہ تعداد "کے پی کے" کے علمائے کرام کی تھی۔ ہم نے انہیں جامعۃ الکوثر کے نصاب اور نظام تعلیم پر ایک بریفنگ دی، پھر جامعہ کا وزٹ کراتے ہوئے انہیں جامعۃ الکوثر کی عظیم الشان مسجد میں لے آئے۔ یہاں میں نے انہیں امام بارگاہ اور مسجد کے بارے میں وضاحت کی کہ ان میں کیا فرق ہے؟ اور امام بارگاہ کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دوران میں نے مزاحاً کہا کہ آپ نے چالیس پاروں والے شیعہ قرآن کے بارے میں تو سنا ہوگا، سب نے کہا جی سنا ہے۔ میں نے کہا یہ سامنے قرآن پڑے ہوئے ہیں، آپ چالیس پاروں والا قرآن دیکھ سکتے ہیں۔ میری حیرت کی اتنہاء نہ رہی جب کچھ لوگ باقاعدہ دوڑ کر گئے کہ ہم چالیس پاروں والا قرآن دیکھ لیں۔ میں بڑی سنجیدگی سے دیکھتا رہا جب، انہوں نے چند منٹس میں قرآن کو دیکھ لیا تو کہا یہ تو ہمارے والا قرآن ہی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جناب ہمارا قرآن تو یہی ہے، وہ چالیس پاروں والا آپ کو کہیں مل جائے تو ہمیں بھی دکھا دیں۔

کیا آپ نے قرآن مجید میں اللہ کا یہ فرمان پڑھا ہے:إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَٰفِظُونَ "بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔" انہوں نے کہا جی پڑھا ہے، میں عرض کیا کہ جب قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ لے رہا ہے تو کیا دنیا میں کوئی ایسا ہے، جو اس میں تحریف کرسکے؟ وہ کافی حیران ہوئے اور ایک بزرگ کہنے لگے کہ مجھے لوگ کہتے تھے کہ شیعوں کا چالیس پاروں والا قرآن ہے، دل نہیں مانتا تھا مگر جب آپ کی زبان سے سنا تو فوراً تحقیق کے لیے دوڑ پڑا کہ یہ بات تو سچ ہو رہی ہے، مگر اب الحمد للہ ہمارا ذہن صاف ہوگیا ہے۔ علامہ شبیر حسن میثمی صاحب کی ایک ویڈیو کو لے کر بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ دیکھیں وہ کہہ رہے ہیں کہ اماموں کا قرآن دریافت ہوگیا ہے، ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ان کا قرآن الگ ہے۔ ویسے تو اس خطاب میں بھی اعتراض کی کوئی بات نہیں تھی، کیونکہ ائمہ کے ہاتھ کا لکھا قرآن ملنا واقعاً ہماری عقیدتوں میں اضافے اور ایمان کی تازگی کا سبب ہوگا۔ مگر مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ اس سے یہ کہاں سے سمجھ میں آگیا کہ ائمہ کے ہاتھ کا لکھا قرآن موجودہ قرآن سے الگ ہے۔؟

کچھ عرصہ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری سے قرآن کا قدیم ترین نسخہ دریافت ہوا ہے، میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی انسان نے اس سے یہ سمجھا ہو کہ لو جی اب تو تحریف قرآن ثابت ہوگئی بلکہ ہر جگہ اس دریافت پر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ اتنا قدیم نسخہ دریافت ہوا ہے۔ اب تو علامہ صاحب نے وضاحت بھی کر دی کہ ان کی طرف وہ بات جان بوجھ کر منسوب کی گئی، جو انہوں نے کی ہی نہیں تھی اور ائمہ کی طرف منسوب جتنے نسخے دستیاب ہوئے ہیں، وہ سب کے سب ہمارے ہاتھوں میں موجود قرآن کی تائید و نصرت کر رہے ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اب اگر کسی کے ذہن میں کوئی اشکال و اعتراض تھا بھی تو دور ہو جانا چاہیئے کہ یہی موجودہ قرآن ہی مکمل اور اصلی قرآن ہے۔ خدمت قرآن کے عظیم پروجیکٹ کو تحریف قرآن کا الزام لگا کر دوسرے کے ایمان پر حملہ آور ہونا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا اسلام ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے۔؟

ایک بات یاد رکھیں کہ کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر تحریف قرآن کے حوالے سے مسلکی بحث شروع کی گئی تھی اور مقابلہ کی اس فضا میں شیعہ سنی مناظرین نے ایک دوسرے کے خلاف دھڑا دھڑا مواد سوشل میڈیا پر ڈالنا شروع کر دیا تھا، اس وقت ایک درد دل رکھنے والی شخصیت کی تحریر دیکھی تھی، انہوں لکھا تھا کہ اس بحث کو یہیں روک دیں، کیوں اپنے ہاتھوں سے ملحدین اور دشمنان اسلام کو ایسا مواد فراہم کر رہے ہیں، جس سے وہ قرآن کی حقانیت کو چیلنج کریں گے اور ہماری نوجوان نسل کو گمراہ کریں گے۔ مولانا شمس الحق افغانی نے مستشرقین رد کرتے ہوئے تمام مسالک اسلام باالخصوص شیعوں کی طرف منسوب عقیدہ تحریف قرآن کی نفی کی ہے۔ ہمیں مسلکی دائروں سے نکل کر قرآن کی خدمت کرنی چاہیئے اور اس  حوالے سے اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیئے کہ کہیں ہم مخالف فریق کو گرانے کے لیے اللہ کی کتاب کو تو متنازع نہیں بنا رہے۔؟ یقیناً کوئی مسلمان تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اسلامیات کے سابق سربراہ نے موجودہ صورتحال میں علامہ علی الکورانی کی کتاب پر بہت اعلیٰ اور خاصہ تفصیلی تبصرہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: "کتاب کے اگلے حصے میں جو میری دلچسپی کا ہے، انہوں نے اتنی کثرت سے وہ روایات جمع کر دی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا متن قرآن عہد نبوی میں مرتب اور مدون ہو کر بکثرت نقول کی شکل میں موجود تھا. یہ حصہ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ زھری کی جس روایت کی بنا پر بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے اور مستشرقین نے اس روایت کی بنا پر پورے متن قرآن اور اس کی ترتیب کے بارے میں شکوک پیدا کر دیئے، اس کے متبادل مستند کتب احادیث بلکہ بخاری اور مسلم سے ایسی روایات پیش کی گئی ہیں، جن کی طرف بادی النظر میں اس حوالے سے توجہ نہیں ہوتی، قرآنیات کا ذوق رکھنے والوں کے لیے ایک قابل مطالعہ کتاب ہے، بشرطیکہ آپ شیعہ مولفین سے الرجک نہ ہوں۔"

استاد محترم شیخ محسن علی نجفی نے جمع و تدوین قرآن کے نام سے ہی ایک کتاب لکھی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مولانا اسحاق فیصل آبادی کا اس پر بڑا اعلیٰ تبصرہ ہے، جو کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔ اس کتاب میں بھی اور دروس قرآن میں بھی شیخ صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن نبی اکرمﷺ کی زندگی مبارک میں ہی جمع اور تدوین ہو کر کتاب کی شکل میں آچکا تھا اور رائج ہوچکا تھا۔ جب قرآن نبی اکرمﷺ کی زندگی میں ہی جمع و تدوین ہوچکا تھا تو تحریف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں تمام اہل علم دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اگر وہ قرآن کے بارے میں شیعہ نقطہ نظر جاننا چاہتے کہ ہم جمع و تدوین قرآن کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟ تو وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں، تمام سوالات کے جوابات مل جائیں گے، کیونکہ تحریف قرآن کی بحث کی بنیاد ہی جمع و تدوین قرآن کے اس نظریہ پر مترشح ہے، جس میں جمع و تدوین قرآن کو نبی اکرمﷺ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد کا کہا جاتا ہے۔ ہمیں دشمن کو بھی پہچاننا ہوگا، جو بار بار اللہ کی کتاب کو مشکوک بنانے کی سازش کرتا ہے اور ہاں چالیس پاروں والا قرآن دنیا میں کہیں نہیں ہے، اس لیے اس کی تلاش بند کرکے اسی قرآن سے ہدایت و رہنمائی لیتے ہوئے زندگی کو اس کے مطابق گزارنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 965704
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

یوسف علی
Pakistan
ما شاء اللہ، جزاک اللہ
ہماری پیشکش