1
Monday 29 Nov 2021 00:36

اسلامی مزاحمت کیخلاف مغربی طاقتوں کے اقدامات میں تیزی

اسلامی مزاحمت کیخلاف مغربی طاقتوں کے اقدامات میں تیزی
تحریر: علی احمدی

حال ہی میں برطانوی حکومت نے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ دوسری طرف یورپی ممالک میں سے برطانیہ ایسا ملک ہے، جہاں فلسطین کے حامیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج اسی ملک میں ہو رہا ہے۔ برطانیہ میں فلسطین کے حامیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہونے کے باوجود اس ملک کی پارلیمنٹ نے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے اور ملک میں اس کی تمام سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دے کر ممنوع اعلان کیا ہے۔ لندن کا یہ اقدام درحقیقت خطے میں اسلامی مزاحمت کے خلاف جاری اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جو علاقائی سطح پر انجام پا رہا ہے۔

دوسری طرف حماس نے برطانیہ کے اس اقدام کے خلاف ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں سے فلسطین کے حق میں متحد ہو کر حمایت کا اعلان کرنے کی درخواست کی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ سے پہلے برطانوی وزیراعظم بوریس جانسن نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ اسی طرح برطانیہ کی وزارت خارجہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ حماس سے تعلق رکھنے والے تمام افراد نیز وہ افراد جو اس تنظیم کی مدد اور حمایت کرنے میں مصروف ہوں گے، مجرم قرار پائیں گے اور انہیں چودہ سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ برطانیہ کے وزیر داخلہ پریٹی پائل نے بھی اعلان کیا ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں حماس کی ہر قسم کی فعالیت ممنوع ہونے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے برطانوی حکومت کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینت اور وزیر خارجہ یائیر لاپیڈ نے اپنے علیحدہ ٹویٹر پیغاموں میں لندن کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر نے اعلان کیا ہے کہ سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے برطانوی حکومت کے اس فیصلے کے تناظر میں چند اہم دستورات جاری کئے ہے۔ ان دستورات میں عالمی اور علاقائی سطح، خاص طور پر عرب ممالک میں مسئلہ فلسطین کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش پر زور دیا گیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے مشیر طار النونو نے اس بارے میں الاقصیٰ نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "برطانوی حکومت کا یہ اقدام اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس پر دباو ڈالنے اور اسے تاوان دینے پر مجبور کرنے کیلئے انجام پایا ہے۔"

اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ترجمان حازم قاسم نے بھی فلسطین اتھارٹی کی جانب سے اسلامی مزاحمتی گروہوں کے خلاف انجام پانے والے حالیہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "فلسطین اتھارٹی کے سکیورٹی ادارے اپنے اقدامات کے ذریعے اسرائیل کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔" حماس کے ترجمان نے مزید کہا: "فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز اسلامی مزاحمتی گروہوں کو غاصب صہیونی رژیم کی قید سے آزاد ہونے والے شہریوں کا استقبال کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ فلسطین اتھارٹی سے وابستہ سکیورٹی اداروں کا یہ اقدام ایک لحاظ سے اخلاقی جرم ہے۔ فلسطین اتھارٹی اپنے ان اقدامات کے ذریعے مسئلہ فلسطین سے مربوط تمام اقدار کو پامال کر رہی ہے۔"
 
اسلامی مزاحمت کے خلاف برطانوی حکومت کے فیصلے کے بعد آسٹریلیا نے بھی گذشتہ ہفتے لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کے خلاف اقدامات انجام دیئے ہیں اور اس تنظیم کے ملٹری اور سیاسی شعبوں دونوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ آسٹریلیا کے علاوہ مراکش نے بھی برطانیہ کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی مزاحمت کے خلاف فیصلے کئے ہیں۔ مراکش نے غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ فوجی معاہدہ بھی انجام دیا ہے۔ فلسطینی گروہوں نے اس اقدام پر مراکش کی مذمت کی ہے اور اسے عرب ممالک کی قومی سلامتی کیلئے خطرناک قرار دیا ہے۔ گذشتہ ہفتے غاصب صہیونی رژیم کے وزیر جنگ نے رباط کا دورہ کیا، جس میں دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ انجام پایا۔ بنی گانتس نے اس معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک باہمی فوجی تعاون میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

المیادین نیوز چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک طے شدہ منصوبے کے تحت خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ نہ صرف لبنان اور فلسطین بلکہ پورے خطے میں اسلامی مزاحمت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہ عرب ممالک میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کا محاصرہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ خطے میں اسلامی مزاحمت کی سربراہی ایران کر رہا ہے، لہذا اس طرح وہ ایران پر بھی دباو ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ المیادین نیوز چینل کے مطابق یہ منصوبہ آگے چل کر اسلامی مزاحمت کے خلاف فوجی اور سکیورٹی اقدامات پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے۔ اسی تناظر میں اسلامی مزاحمت کے رہنماوں نے امت مسلمہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین پر متحد ہو جائیں اور مل کر فلسطین کی بھرپور حمایت کریں۔
خبر کا کوڈ : 965915
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش