0
Monday 29 Nov 2021 14:09

اُمّتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبرؐ ہیں

اُمّتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبرؐ ہیں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے کہ چارسدہ میں مشتعل ہجوم نے جس شخص پر گستاخی کا الزام تھا، اسے جلانے اور قتل کرنے کے لیے تھانے پر حملہ کرکے جو جلاو گھراو کیا، وہ درست ہے یا نادرست  ہے؟ حیران کن طور پر لوگ اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ ایک شخص جس نے انتہائی بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے ہیں، جس کی شکل اور وضع قطع ہی بتا رہی ہے کہ یہ پاگل ہے۔ معاشرہ اس کے عمل پر اتنا ردعمل دے کہ خود ہی مدعی اور خود ہی جج بن کر سزا دینے کے لیے کمر کس لے، باعث تعجب ہے۔ پولیس نے بڑی مشکل سے اس ذہنی معذور شخص کی اور اپنی جانیں بچائیں، جب حملہ آوروں نے دیکھا کہ پولیس ملزم کو ہمارے حوالے نہیں کر رہی تو انہوں نے تھانے کو آگ لگا دی، جس سے گاڑیاں اور سامان سمیت پوری عمارت جل گئی۔ بین الاقوامی میڈیا نے ان لوگوں کو اسلام کے نمائندے بنا کر پیش کیا اور یوں ان فسادیوں نے اسلام کو ایک متشدد مذہب کے طور پر پیش کیا۔

میں سوچتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ بڑا عجیب ہے، یہ مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زندگی نہیں گزارتے مگر مذہب پر مرنے اور مارنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اے اہل اسلام اللہ نے یہ دین عمل کرنے کے لیے نازل کیا ہے اور اس پر عمل کرنے میں نجات ہے۔ سود خور، رشوت خور، بددیانت اور دوسرے کے مال کو ناحق کھانے والے  ایسے مواقع پر محافظ اسلام بن کر لٹھ اٹھا لیتے ہیں اور جلاو گھراو کرکے ریاست پاکستان اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جس طرح ہر بات کو گستاخی قرار دینے اور قانون ہاتھ میں لینے کا سلسلہ چل نکلا ہے اور ہر کسی کو گستاخ قرار دے کر مارا جا رہا ہے، اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ اور بعض مذہبی لوگوں نے اپنے لیے وہی کردار منتخب کر لیا ہے، جو ڈارک ایجز میں اہل کلیسا کا تھا۔ جہاں سوال اٹھانے پر لوگوں کو لٹکا دیا جاتا تھا اور جہاں پادری خدائی اختیارات کا مالک بن چکا تھا۔ پادری کی خواہش خدا فرمان بن جاتی تھی اور پھر اسے نافذ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔ مدتوں یورپ اس ظلم و جبر کو خدائی احکامات کے نعرے کے تحت برداشت کرتا رہا، مگر جب خلق خدا اٹھی تو مسیحیت کو یورپ کے معاشرے سے نکال کر چرچ کے حوالے کر دیا گیا کہ لو اسے سنبھال لو، ہمیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

ہمارا معاشرہ بھی ہندو نظریہ مذہب سے متاثر ہے، وہاں بھی شودر کو مندر میں داخل ہونے، برہمن کے برتن میں پانی پینے، غرض مذہبی کتاب کی تعلیمات کو سننے تک کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ نتیجہ سامنے ہے کہ کروڑوں لوگ برہمن کی اس اجارہ داری کے خلاف الگ مذہب تسلیم کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضیاں دے رہے ہیں۔ معاشرے کی تقسیم کی وجہ سے ہی بڑی تعداد میں لوگوں نے دیگر مذاہب قبول کیے۔ مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ مذہبی لیڈرشپ ان لوگوں کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کرتی؟ کیوں ان سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا جاتا؟ انتہائی ادب سے گزارش کروں گا، مذہبی قیادت کا یہ رویہ معاشرے میں کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے اور نوجوان نسل یہ سوچ رہی ہے کہ کیا یہی اسلام ہے؟ کہ جتھہ اکٹھا کرو اور جلاو گھراو شروع کر دو؟ مذہبی قیادت کو واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔ ان جتھوں کو اسلام بدنام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسلام کسی مجرم کو خود سے سزا کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، بلکہ عدالتی پروسس کو فالو کرنے اور ملزم کو اپنے دفاع کا موقع فراہم کرتا ہے۔

کچھ ردعمل جذباتیت کے عکاس قرار دیئے جا سکتے ہیں، مگر یہ سوچ موجود ہے۔ ماضی قریب کے دھرنوں کے دوران مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کو جب مفتی منیب الرحمن نے شہید کہا اور ان کے بارے میں نرم لب و لہجہ اختیار کیا تو سننے والوں کا ردعمل بتا رہا تھا کہ انہیں یہ بات قبول نہیں۔ ایک سینیئر صحافی کے بقول  اس بات کو بڑی مشکل سے ہضم کیا گیا، جب معاشرے میں یہ صورتحال ہو تو بڑے فکری آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نبی اکرمﷺ کی تمام زندگی رحمت ہی رحمت ہے، امام بخاری نے نقل کیا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا، لوگ اس کی طرف مارنے کو بڑھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے، اس جگہ پر پانی کا ایک ڈول بھرا ہوا بہا دو، کیونکہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔

کاش ہم اپنی قوم کو سیرت خاتم الانبیاءﷺ کا یہ پہلو پڑھائیں اور بتائیں کہ اسلام اور نبی اسلام کے احکام پر چلنے کی کوشش کریں، اپنی خواہشات کو اسلام کا نام نہ دیں، لوگوں کے لیے تنگی کا باعث ہرگز نہ بنیں۔ اسلام اور نبی رحمت کی تعلیمات  میں انسانوں تو کیا جانوروں کے لیے بھی رحمت ہی رحمت ہے۔ قرآن ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے، اسلام فتنے کو قتل سے بڑا جرم کہتا ہے، اسلام میں فساد فی الارض بڑا جرم ہے۔ جس طرح  سپریم کورٹ نے کے پی کے میں ہی مندر کو جلانے والوں سے مندر کی تعمیر کا فیصلہ کیا، میری درخواست ہے کہ چیف جسٹس صاحب اس واقعہ کا بھی نوٹس لیں اور ان لوگوں کو قرار واقعی سزا کے ساتھ ساتھ اس تھانے میں جتنی توڑ پھوڑ ہوئی، اس کا نقصان بھی ان بلوائیوں سے پورا کرائیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
اُمّتی باعثِ رُسوائیِ پیغمبرؐ ہیں
خبر کا کوڈ : 966004
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش