0
Wednesday 1 Dec 2021 09:30

اسرائیل اور متحدہ امارات تعلقات کے اثرات

اسرائیل اور متحدہ امارات تعلقات کے اثرات
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

متحدہ عرب امارات اور غاصب اسرائیل کے درمیان تعلقات کی استواری کے سیاسی، فوجی اور بالخصوص کلچرل اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، جس کی ایک مثال بعض اسلامی قوانین کو ختم کرنا ہے۔ عربوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل مصر اور صیہونی حکومت کے درمیان پے در پے بے نتیجہ جنگوں کے بعد شروع ہوا۔ اردن دوسرا ملک تھا جس نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں شمولیت اختیار کی۔ 1990ء کی دہائی میں میڈرڈ امن ہتھیاروں اور سکیورٹی ڈپلومیسی کا اجلاس خلیج فارس کے عربوں کے ساتھ صیہونی حکومت کی خفیہ سفارت کاری کے آغاز کے لیے ایک لانچنگ پیڈ ثابت ہوا۔ صیہونی حکومت اور عربوں کے درمیان سفارتی ہم آہنگی کا قیام  بظاہر مشترکہ خطرے کی تشکیل پر مبنی ہے۔ مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمت کے بلاک کا مقابلہ کرنے کے لیے خفیہ انٹیلی جنس، سکیورٹی، اسلحہ اور مشترکہ سیاسی اقدامات برسوں سے جاری ہیں اور اسرائیل نے اس میں مزید آسانیاں پیدا کرنے کے لئے نئے اقدامات کا یہ نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکومت نے لبنان، شام، عراق اور یمن کی حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے دو دہائیوں کی مشترکہ کوششوں کے بعد دوطرفہ تعلقات کو باقاعدہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جنوبی سرحدوں میں صیہونی حکومت کی فوجی انٹیلی جنس موجودگی میں اضافہ متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک نتیجہ ہوگا۔ سیاسی اور سکیورٹی مسائل کے علاوہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے ثقافتی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ حال ہی میں متحدہ امارات نے اپنے بعض قوانین میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل، متحدہ عرب امارات کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہوگئے۔

امریکہ کے دباو میں آکر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی برقراری کے بعد متحدہ عرب امارات میں اسلامی قوانین کی سراسر خلاف ورزیاں شروع ہوگئیں اور متحدہ عرب امارات نے دباو میں آکر چالیس قوانین میں تبدیلیاں کیں، جن میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنے کو بھی جرائم کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات نے شراب نوشی، غیرت کے نام پر قتل جیسے قوانین میں نرمی کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سرکاری میڈیا سے جاری بیان میں ہدایت کی گئی ہے کہ جوڑے باقاعدہ شادی سے قبل پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے فوری طور پر شادی کر لیں۔ بیان میں خبردار بھی کیا گیا ہے کہ اگر والدین بچے کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کی دیکھ بھال نہیں کرتے تو ان پر فوجداری مقدمہ چلایا جائے گا، جس کی سزا دو سال قید ہوسکتی ہے۔

قبل ازیں متحدہ عرب امارات میں شادی سے قبل جنسی تعلق قائم رکھنے نیز بچوں کی پیدائش قابل گرفت جرم تھا، تاہم اب صرف شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کو نہ اپنانا جرم تصور ہوگا۔ متحدہ عرب امارات میں اسلامی تعلیمات کے خلاف نام نہاد اصلاحات کی حالیہ تفصیلات بتدریج سامنے آرہی ہیں۔ ان قوانین کا اطلاق یکم جنوری 2022ء سے ہوگا۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات نے دو ہزار بیس میں غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کئے تھے اور اس کے بعد اس ملک نے صیہونی حکومت کا سفارت خانہ قائم کرکے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی برقرار کئے، جس کے بعد سے اسلامی تعلیمات سے متصادم اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر متحدہ عرب امارات پر کڑی تنقید کی تھی۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے پر اپنے پہلے ردعمل میں اس معاہدے کو "خیانت" قرار دیا تھا۔ رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا  تھا کہ "متحدہ عرب امارات نے عالم اسلام، عرب اقوام، خطے کے ممالک  اور فلسطین کے ساتھ غداری کی ہے۔ یقیناً یہ غداری زیادہ دیر نہیں چلے گی۔"
خبر کا کوڈ : 966320
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش