1
0
Friday 3 Dec 2021 02:56
1932ء سے 1989ء

محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم

محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اگر ہم پاکستان میں دین کی خدمت اور قومی ادارون کی بنیان گذاری نیز تنظیموں کی سرپرستی اور تعاون کا ایک منفرد نمونہ اور مثال دیکھنا چاہیں تو علامہ سید صفدر حسین نجفی کے کردار کو پڑھنا ہوگا، وہ ایک کردار کا نام ہیں، ان کی زندگی ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔ دستیاب معلومات کی بنیاد پہ آپ 1932ء کو علی پور ضلع مظفرگڑھ میں پیدا ہوئے۔ معروف عالم دین علامہ سید محمد یار شاہ صاحب آپ کے چچا تھے۔ وہ ایسی شخصیت و کردار کے مالک تھے، جنہیں بھلانا اور ان کے کردار کو اگلی نسلوں تک نہ پہنچانا قومی خیانت کہا جا سکتا ہے۔ قبلہ علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم ایک ایسے عالم دین تھے، جنہوں نے انتہائی غربت اور بے سروسامانی میں دین کا رستہ چنا اور دینی علوم کے حصول کیلئے پاکستان سے ہوتے ہوئے نجف جا پہنچے۔ نجف میں جتنی مشکلات انہوں نے جھیلیں، شائد ہی کسی اور نے یہ مشکلات دیکھی ہوں۔ ان کا نجف کیلئے جانے کا سفر بے حد اثر انگیز اور متاثر کن ہے، جسے ایک راوی نے یوں بیان کیا ہے۔

جب آپ سرگودھا میں تھے تو آپ کو خیال آیا کہ مزید تعلیم کے لیے نجف اشرف جانا چاہیئے۔ یہ ارادہ لے کر لاہور تشریف لائے۔ یہاں کسی سے راستہ پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ ریلوے لائن ہے، یہ وہاں تک لے جائے گی۔ کرایہ تھا نہیں، مگر عزم و ہمت کے ساتھ ایک دوست کے ساتھ پیدل ہی چل پڑے۔ جب چیچہ وطنی پہنچے تو حالت خراب ہوگئی تو کسی نے سمجھا بجھا کر واپس بھجوایا۔ پھر کہیں سے وسائل و راہنمائی لے کر کوئیٹہ جا پہنچے۔ جب ایرانی کونصلیٹ گئے اور ویزہ کی درخواست کی تو انہوں نے بغیر پاسپورٹ ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس طرح آپ کراچی آگئے۔ پھر کسی نہ کسی طرح کاغذات مکمل کرکے بحری جہاز کے ذریعے عراق روانہ ہوئے۔ خود بتاتے ہیں کہ پیسے نہیں تھے اور نہ کھانے کی کوئی چیز۔ بھوک سے جب حالت غیر ہونے لگی تو دیکھا ایک مسافر نے مٹھائی کے ڈبے کو کھول کر سونگھا اور اسے سمندر میں پھینکنے لگا تو آپ نے کہا کہ اسے پھینکنے کے بجائے مجھے دے دیں۔ یوں انہوں نے اپنی بھوک مٹائی۔

یہ ان کی دین کے علوم کے حصول کیلئے تڑپ اور پیاس تھی، جسے بجھانے کی راہ میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے جھیلا اور پروردگار نے انہیں اس میں سرفراز کیا۔ نجف پہنچ کر بھی ان کی مالی حالت میں کچھ بہتری نہ آئی تو فرماتے ہیں کہ ان کے پاس رہائشی اقامہ نہیں تھا، لہذا ایک شناسا طالب علم کے ساتھ اس کے کمرے میں رہتے تھے۔ ایک دن مدرسہ کی انتظامیہ جو آگاہ تھی، اس نے اس طالبعلم کو کہا کہ آج شام کے بعد یہ یہاں نظر نہ آئے۔ طالب علم نے اپنی مجبوری کی وجہ سے معذرت کرلی۔ یوں آپ نے وہ رات سردی اور بارش میں نجف اشرف کی کسی گلی میں گزاری، اس دوران اپنے مولا ؑ سے التجا کی، وہ کب تک اس حالت میں رہیں گے۔ اللہ نے ان کی فریاد سن لی اور ان کی شادی مولانا امیر حسین نقوی مرحوم جو پہلے سے نجف میں مقیم تھے، ان کی ہمشیرہ اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی پھوپھو سے ہوگئی۔ یوں کچھ دن آرام سے گزر گئے۔

جب تعلیم مکمل کر لی تو واپسی کا ارادہ کر لیا۔ لاہور میں اس وقت شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس مرحوم جامعۃ المنتظرکی بنیاد رکھ چکے تھے۔ یہ پہلے موچی دروازہ، حسینیہ ہال میں قائم ہوا، پھر وسن پورہ میں ایک دو کمروں کے مکان میں شفٹ ہوگیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 23 برس تھی۔ آپ معلم کی حیثیت سے اس مدرسہ میں تعلیم دینے لگے اور نماز کی جماعت بھی کروانے لگے۔ علامہ اختر نجفی کچھ عرصہ بعد نجف چلے گئے تو قبلہ صفدر نجفی پرنسپل ہوگئے۔ جس دور میں آپ نے کام شروع کیا تو کئی ادارے ملک میں کام کر رہے تھے، جن میں سب سے پرانا ادارہ تحفظ حقوق شیعہ تھا، جو پاکستان بننے سے قبل کا تھا۔ اس کے سربراہ علامہ حافظ کفایت حسین مرحوم تھے، پھر اس ادارے کے سربراہ مولانا اظہر حسن زیدی مرحوم رہے۔ ایک ادارہ امامیہ مشن جس کے نگران اعلیٰ سید العلماء سید علی نقی نقوی عرف نقن صاحب تھے۔ اسی طرح شیعہ مطالبات کمیٹی اور شیعہ کانفرنس بھی تھی۔ عملی طور پر قوم دو فکری گروہوں میں منقسم تھی۔

22 مئی 1972ء کو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تاسیس ہوئی۔ اس کا دوسرا اجلاس ڈاکٹر نوروز عابدی کی رہائش پر 11جون کو منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر نوروز عابدی کے والد صاحب جو کہ عالم دین تھے، ان کے علاوہ علامہ صفدر حسین نجفی، علامہ آغا علی الموسوی، علامہ مرتضیٰ حسین صدر الاافاضل شریک ہوئے۔ اس دن سے لے کر اپنی رحلت تک آئی ایس او کے سرپرست، معاون و مددگار رہے۔ اس کی فکری و نظری تربیت و اٹھان میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔ 1974ء میں امامیہ آرگنائزیشن کی تاسیس میں بھی ساتھ رہے۔ ان دونوں تنظیموں کی مجلس مشاورت کے رکن رہے، جو بعد میں مجلس نظارت میں بدل گئیں۔ دراصل علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم ہی تھے، جنہوں نے علامہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل، علامہ آغا علی الموسوی کی ساتھ مل کے امام خمینی کی تقلید کی اور لوگوں کو بھی اس انقلابی فکر کے حامل مجتھد کی طرف رجوع کیلئے مشوش کیا۔ یہ وہ شخصیات تھیں، جنہوں نے آئی ایس او سمیت دیگر انقلابی فکر کی حامل تنظیموں کی سرپرستی کا بیڑہ اٹھایا اور ان کی فکری و دینی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔

علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم نے تحریک کی بنیاد رکھنے، مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت، ان کے نائب رہ کر تنظیمی امور کی انجام دہی، بعد ازاں علامہ سید عارف حسین الحسینی کی قیادت اور تحریک کے سفر و جدوجہد، قومی معاملات، سیاست و تبلیغات، مجالس و محافل، اجلاس و جلسوں، شہید قائد کے ساتھ کئی ایک مقامات کے تنظیمی دورہ جات میں ان کیساتھ دیکھا گیا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کو قائد بنانے اور پھر ان کی قیادت کو تسلیم کروانے نیز ان کیساتھ عملی تعاون کیلئے قبلہ صفدر حسین نجفی کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل اور یادگار تھا۔ انہی کے خلوص اور قربت کی بدولت شہید قائد نے اپنی تمام تر مشکلات اور روڑے اٹکائے جانے پر جب مستعفی ہونے کی پیشکش کی اور سیٹھ نوازش مرحوم کے گھر ہونے والے اجلاس میں بعض لوگوں کے رویوں پر ایک کارکن کے طور پہ کام کرنے کی پیش کش کی تو قبلہ صفدر نجفی صاحب ہی تھے، جن کی علامہ سید عارف حسین الحسینی بہت زیادہ عزت و تکریم کرتے تھے، انہی کے کہنے پر شہید نے استعفی واپس لیا تھا۔

اس کے گواہ تو ابھی زندہ ہیں، گذشتہ ماہ بھی جب ہم نے شہید قائد کے حوالے سے پاراچنار میں کچھ شخصیات کے ویڈیو انٹرویوز کئے تو یہ بات بھی ذکر کی گئی، جو ریکارڈڈ ہے، میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ نے ہی ان کا نام سپریم کونسل میں پیش کیا۔ اسلام آباد کنونشن کے بعد آپ نے چند نوجوانوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جس میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، امجد کاظمی صاحب اور احمد رضا خان صاحب شامل تھے کہ وہ ملت کی منصوبہ بندی کریں۔ اس کے لیے ضروری وسائل بھی مہیا کئے۔ انہوں نے تین سال کی مدت میں اپنا کام مکمل کرکے دیا۔ اس میں لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبے شامل تھے، شہید کے دور میں جو تحریک کی اٹھان ہوئی، بیشتر اسی دستاویز کا پرتو تھا۔ مولوی صاحب نے اس میں سے اپنے لیے مدارس کا کام ذمہ لیا اور اسی پر لگ گئے۔ انہوں نے ملک اور بیرون ملک مدارس کا ایک جال پھیلا دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر پچاس کلومیٹر پر ایک مدرسہ ہونا چاہیئے۔ یہ بات ریکارڈ پر ر ہنی چاہیئے کہ ان مدارس کی بیشتر کاغذی کارروائی یعنی بنیادی منصوبہ بندی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زیر نگرانی مکمل ہوئی۔

 وہ عملی آدمی تھے اور ان علماء کے ناقد تھے، جو فقط تقاریر کرتے ہیں اور کوئی قلمی کام نہیں کرتے۔ اس کے لیے خود کو مثال بنایا، لہذا آپ نے خود بہت سی کتب کا ترجمہ و تحریر کیں۔ ان کے مزار پر چالیس کے قریب کتب کے نام درج ہیں، جن میں تفسیر نمونہ جو آیۃ اللہ ناصر مکارم شیرازی کی معروف تفسیر ہے، اس کا ترجمہ پہلی بار 27 جلدوں میں شائع ہوا تھا، اب شائد اس کی جلدیں کم ہوچکی ہیں۔ مصباح القرآن ٹرسٹ کے نام سے ادارہ بنایا گیا تھا، جس کی آپ سرپرستی فرماتے تھے اور مال روڈ پر اس کا دفتر تھا۔ اس کے علاوہ امامیہ پبلیکیشنز کا ادارہ تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا، جو امامیہ آرگنائزیشن کے زیراہتمام ہے، اس ادارہ نے بھی آپ کی متعدد کتب شائع کیں۔

مولانا کے داماد راوی ہیں کہ آپ ماہ رمضان قم میں گزارتے تھے۔ نماز فجر حرم میں ادا کرتے۔ جب باہر آتے تو پاکستانی طلاب کی لائن لگی ہوتی۔ آپ ان سے مصافحہ کرتے ہوئے گھر تشریف لے آتے۔ گھر پر طلاب آتے رہتے۔ آپ متواتر ترجمہ کرتے رہتے۔ ایک دن آپ کے داماد مولانا نجم الحسن نقوی (حال مقیم انگلینڈ) آکر پاس بیٹھ گئے مگر آپ ترجمہ کرتے رہے۔ جب کئی گھنٹے گزر گئے تو آپ متوجہ ہوئے۔ قلم کو بند کیا پوچھا کیوں بیٹھے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں آپ کی اولاد کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں اور ایک عرض کرنی ہے، آپ نے کہا بتائیے۔ تو جواب میں کہا قبلہ آپ نے اتنے مدرسے اور اتنے ادارے قوم کے لیے بنا دیئے ہیں، کوئی چیز اپنی اولاد کے لیے بھی بنا دیں، یہ سن کر آپ نے اپنے قلم کی کیپ کھولی اور اسے لگا کر کاغذ پر رکھا اور کہا اگر میری اولاد دین پر چلے گی تو اللہ انہیں بہت دے گا، اگر نہیں چلے گی تو کھسماں نوں کھان۔ یہ کہہ کر پھر لکھنا شروع کر دیا۔

ان کی سادگی اور دین کی لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود تنظیمی پروگراموں میں موٹر سائیکلز پر چلے جاتے تھے بلکہ ایک دفعہ تو برادر علی رضا بھٹی، جو اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں طالبعلم تھے، ان کیساتھ لیکچر دینے گئے اور واپسی پر کچھ پیسے بھی دیئے کہ نئے کپڑے لے لینا۔ شائد رضا بھائی کی ملنگانہ حالت دیکھ کر قبلہ صفدر نجفی صاحب نے یہی سمجھا کہ کسی غریب کا بچہ ہے، جو دینی تحریک میں فعال ہے۔ بہرحال ملت کے روشن اور چمکتے ستارے نے ملک کے گوش و کنار اور بیرون ممالک تک جتنی روشنی بکھیری اور تاریکیوں کو ختم کیا، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد تو سینکڑوں میں ہے، ان کے مدارس کے بچھائے گئے جال کا ریکارڈ بھی کوئی اور نہیں توڑ سکا، حالانکہ اس دور کے وسائل اور نقل و حمل کے ذرائع و اور تبلیغات کیلئے نئی ایجادات کو دیکھا جائے تو آج کے مسئولین کو شرمندگی محسوس کرنا چاہیئے۔

ملت کا یہ عظیم محسن جسے لوگ علامہ سید صفدر حسین نجفی کے نام سے پہچانتی ہے، انہوں نے 3 دسمبر1989ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر میں دفن ہوئے، ان کی خدمات کا دائرہ جس قدر وسیع ہے، ان کے تذکرے کو بھی کئی دفتر درکار ہیں، اللہ کریم ان کے درجات کو عالی فرمائے اور ہم سب کو ان کے راستے پہ چلنے کی توفیقات سے نوازے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
خبر کا کوڈ : 966662
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ما شاء اللہ
میں مصباح القرآن ٹرسٹ کی شائع کردہ کتب اور تفسیر نمونہ ترجمہ اور قرآن شریف کے اردو ترجمہ سے حسن استفادہ کرچکا ہوں۔ امامیہ پبلیکیشنز کی شائع کردہ بعض ترجمہ شدہ کتب سے بھی حسن استفادہ کرچکا ہوں۔ اللہ ان سارے افراد کو اجر عطا فرمائے، جنہوں نے قربت الی اللہ یہ اعمال حسنہ انجام دیئے۔
کراچی میں جامعہ تعلیمات اسلامی نے بھی بہترین ترجمہ شدہ کتب شائع کیں۔ ایک دور میں دارالثقافۃ الاسلامیہ کے تحت بعض اچھی کتب کے ترجمے شائع ہوئے۔ آج کل کسی حد تک دارالثقلین کراچی سے ترجمہ شدہ کتب شائع ہو رہی ہیں۔ مصباح القرآن ٹرسٹ کو ماضی سے زیادہ فعالیت دکھانے کی ضرورت ہے۔
ہماری پیشکش