0
Monday 6 Dec 2021 21:10

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
تحریر: جاوید عباس رضوی

انسان کا وجود اور اس کی بقاء ایک ایسے محور کے اردگرد گھومتی ہے، جس کو وحدت کا نام دیا جاتا ہے، اگر یہ محور اپنے اس نقطے سے ذرا بھی ہٹ جائے تو پوری نوعِ انسانی میں ارتعاش کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، رفتہ رفتہ یہ ارتعاش جھٹکے کی شکل اختیار کرکے پوری انسانیت کو مخمصہ میں ڈال دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر اہم شخصیت نے اتحاد کو اپنا مقصدِ حیات بنا کر پوری زندگی یگانگت و انسیت اور اخوت و محبت کی تسبیح پڑھ کر گزار دی ہے۔ اسلام نے اس کے فوائد اور اس کی جامعیت پر جو بحث کی ہے، اس نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی اور طلوعِ اسلام ہی کے وقت سے چشمِ فلک نے دیکھا کہ مدینہ منورہ میں انصار و مہاجرین کے درمیان اتحاد و اتفاق کا پیغام کس طرح نقطۂ عروج پر پہنچ گیا۔ آج ہمارے اندر اتحاد و اتفاق کی جو حکمتِ عملی ہونی چاہیئے تھی، اس کے برعکس ہے۔ ہم ایک دوسرے سے نفرت کا ماحول بنا رہے ہیں، ہر جگہ ٹولیاں، جماعتیں اور ہم مسلمان تقسیم در تقسیم کی راہ پر گامزن ہیں۔

آج اسلام کی جامعیت اور اہمیت کو ہر شحص محسوس کرتا ہے، اس کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے بڑے بڑے سیمینار کئے جاتے ہیں، دانشورانِ قوم اس پر مقالات لکھتے اور پڑھتے ہیں، مگر شریعتِ محمدی (ص) سے ہم آہنگی میں کوتاہی برتتے ہیں۔ آج اسلام کے تابناک ماضی سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے پاس اتحاد کا وہ کون سا نسخۂ کیمیا ہے، جس نے مدینہ منورہ میں آباد اوس و خزرج نامی دو قبیلوں کی پشت ہا پشت سے چلی آرہی دشمنی کو ختم کر دیا تھا اور جزیرۂ عرب کی وحشی اور جنگجو قوم کو صلبی اولاد کی طرح باہم محبت کرنے والا بنا دیا۔ افسوس کہ آج ہم مسلمان اپنے مسلمان ہونے کا گوشہ و تنہائی، خلوتوں اور جلوتوں، محفلوں میں اور بزم کی تقریبات میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم مسلمان ہیں، ہمارے آباء و اجداد مسلمان تھے، ہمارا پورا خاندان مسلمان تھا، اس ساری تفصیلات گنوانے کے بعد جب سامنے والا ہم پر گفتار و کردار کے حوالے سے نگاہ ڈالتا ہے تو اسے ہمارے مسلمان ہونے میں شک ہونے لگتا ہے۔

جب وہ فرقہ بندیوں کی حد بندیوں پر نگاہ ڈالتا ہے تو ہدایت پانے کی راہ میں وہ ہمیں اپنے لئے رکاوٹ گرداننے لگتا ہے۔ جب وہ ہماری لن ترانیوں کو دیکھتا ہے، عملی طور پر قول و فعل میں فرق پاتا ہے۔ جب وہ معاملات کی دنیا میں ہمیں صفر پاتا ہے تو اس کے ہوش اُڑ جاتے ہیں اور وہ یہ کہتا ہے کہ جس نبی (ص) کی یہ اُمت ہے، اُس کے اخلاق، معاملات، لین دین، کلام و بیان، احسان و سلوک کی پورے عالم میں کوئی مثال نہیں، مگر ان کے ماننے والے مسلمان آخر کیوں زبانی دعوؤں کے صفوں میں جا رہے ہیں اور اخلاقی اعتبار سے بالکل عاری ہیں۔ آج ہم مسلمانوں میں خود ایسی تلخیاں موجود ہیں، جن کے سبب پورا اسلامی معاشرہ بغض و حسد اور عناد و تکبر کی آگ میں جل رہا ہے۔ مسلکی و مشربی تصادم کے گھن نے ہمارے معاشرہ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

اس وقت اُمتِ مسلمہ میں باہمی اتحاد کی جس قدر ضرورت ہے، شاید کسی دور میں رہی ہو، ایسے وقت میں چند جزوی مسائل کو لے کر گھر گھر انتشار و افتراق کا ماحول پیدا کرنا، امتِ مسلمہ کی صفوں میں پھوٹ ڈالنا، ان مسائل کو ایمان و کفر کا معیار قرار دے کر برادرانِ اسلام اور اکابرینِ اُمت کے حق میں تذلیل و تکفیر کا دروازہ کھولنا، یہ وقت کے تقاضے کے بالکل برعکس ہے۔ آج امتِ مسلمہ جس طرح کے خطرات و حالات سے دوچار ہیں اور دشمنانِ اسلام ہمیں لقمہٴ تر بنا لینے، فکری یلغار کے ذریعہ ہمارے تانے بانے بکھیرنے، ہمارے درمیان اختلاف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس نازک موقع پر ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہم اس قسم کے معمولی موضوعات کو بالکل نہ چھیڑتے، چونکہ اس کی وجہ سے اُمت میں اتحاد کے بجائے اختلافات پیدا ہوتے ہیں، فاصلے بڑھتے ہیں اور دل ٹوٹتے ہیں۔

اغیار تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ کسی طرح ہمارا یہ اتحاد ٹوٹے اور وہ اچانک ہمارے آپسی انتشار، تضاد اور بکھراوٴ سے فائدہ اٹھا کر تمسخر اڑائیں بلکہ ہماری غفلت و نادانی اور حالات کی نزاکت و دشواری کے عدمِ احساس نے یہ صورتحال اس وقت پیدا کر دی ہے اور دشمن ہماری صفوں میں نفاق اور شقاق پیدا کرکے کسی حد تک اپنے ناپاک اور خطرناک عزائم میں کامیاب بھی ہوچکا ہے۔ اس وقت ہمارا طریقہٴ کار یہ ہو کہ اُمت کو ان غیر اہم مباحث میں الجھانے کے بجائے امت کی توانائیوں اور وقت کے قیمتی سرمایہ کو ٹھوس اور تعمیری کاموں میں لگائیں۔ آج پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے، جس نے اپنے دین کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے تنازعے کھڑے کرکے بے شمار فرقے بنا ڈالے ہیں۔ ہر فرقہ اپنے آپ میں ایک دین بن گیا اور اس نے صرف خود کو مسلمان اور دوسرے فرقوں کو کافر کہنا اور سمجھنا شروع کر دیا۔ جس قوم کا دین ایک، اللہ ایک، رسول (ص) ایک، قرآن ایک اور قبلہ ایک ہو، تو پھر بھی ہزاروں طرح کے جھگڑے کیوں۔؟

آخر اللہ ان پر اپنی رحمتیں کیسے نازل فرمائے اور مسلمانوں کو کیوں نہ مصیبت میں ڈالے۔ آج جو حالات پوری دنیا میں مسلمانوں کے ہیں، وہ ہماری اپنی غلطیوں اور نادانیوں کا نتیجہ ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور ایک ٹھوس اُمت بن جائیں، متحد ہو جائیں، تعلیم حاصل کریں، ہر شعبے میں اپنی جگہ بنائیں، تعلیم حاصل کرنے میں قوم کے ہر بچے کی مدد كریں، تب ہی ہم اپنی قوم کی فلاح کے لئے کچھ کر پائیں گے۔ باہمی تفرقہ بازی سے باہر نکلیں، جہالت چھوڑیں، خود بھوکے رہ کر بھی اپنے بچوں کو اعلٰی درجے کی تعلیم دیں اور قوم کو متحد اور مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ملتِ اسلامیہ کو جوڑنے کی فکر کریں، مفاد پرستی پر ملی مفاد کو ترجیح دیں۔ جس طرح سے دور نبوی (ص) میں اُمت امتِ واحدہ بن کر رہی، اگر ایسا ہوتا ہے تو عنقریب اس کے مفید نتائج سامنے آئیں گے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
 نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
خبر کا کوڈ : 967019
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش