1
0
Sunday 5 Dec 2021 20:30

شرطِ شہید شدن شہید بودن است

شرطِ شہید شدن شہید بودن است
تحریر: سویرا بتول

یہ دنیا اپنی تمام تر رعناٸیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ اور اس کے نیک اور اچھے انسانوں کے باوجود ایک گزر جانے کہ جگہ ہے، ٹھہرنے کی نہیں۔ ہم سب کو ایک دن جانا ہے اور راہ یہی ہے۔ دیر یا جلد فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کیا بہتر نہیں کہ اس دنیا سے خوبصورتی کیساتھ جایا جاٸے، یعنی اپنے لیے خود بہترین موت کا انتخاب کیا جاٸے۔؟ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ کچھ شہید تاریخ میں ایسے بھی ملتے ہیں، جنہیں اپنی شہادت کی تاریخ تک کا علم تھا تو بعض احباب یقین نہیں کرتے یا یوں کہتے ہیں کہ آپ مبالغہ آراٸی سے کام لے رہے ہیں، یہ بھلا کیسے ممکن ہے۔؟ اگر انسان فقط مسلسل چالیس دن اپنے نفس کا محاسبہ کرے تو حکمت کے سرچشمے اُس کی زبان پر جاری ہوسکتے ہیں تو شہادت کی تاریخ کا بھی علم ہوسکتا ہے۔ تاریخ میں ایسے بہت سارے شہداء ملتے ہیں، جنہوں نے اپنے لیے نہ صرف بہترین ابدی حیات کا انتخاب کیا بلکہ بعد از شہادت اپنے اہل ِخانہ کی حاجت رواٸی بھی کی۔ یہ شہداء ہم جیسے تھے، مگر خود کو عرفان کی اُس منازل تک پہنچایا کہ جہاں بشر کاٸنات کو تسخیر کر لیتا ہے۔

شہداء شہادت کے بعد بھی زمین پر اثرات دکھا سکتے ہیں۔ خدا کی راہ میں شہادت کے بعد بھی نامہ اعمال کھلا رہتا ہے اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ شہید بعد از شہادت بھی حاجت رواٸی کرتے ہیں، آج بھی بہت ساری شخصيات شہداء سے متوسل ہوتی ہیں اور شہداء انہیں جواب بھی دیتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی ایک شہید ہیں، جنہوں نے اپنی شہادت کے بعد اپنی بیٹی کے رزلٹ کارڈ پر ساٸن کیے، جو آج بھی شہداء کے میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ وہ دستخط بینک سے تصدیق کرواٸے گئے تھے اور بینک نے تاٸید کی تھی کہ انہیں کے دستخط ہیں(شہید زنگی آبادی) ایک شہید کے حوالے سے ملتا ہے کہ وہ زمین سے باتیں کیا کرتے تھے۔ یہ کوٸی تعجب خیز بات نہیں ہے، یہ اس زمانے کے بوذر اور سلیمان ہیں۔ بس انسان ہر لمحے اپنے نفس کی طرف متوجہ رہے تو بآسانی کمالات انسانی کو درک کرسکتا ہے۔ شہادت کا مفہوم ہے کیا اور انسان کیسے اسے حاصل کرسکتا ہے، آیئے اشتر زماں شہید حاج قاسم سلیمانی کی ایک تقریر سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شہید اپنی اس تقریر میں فلسفہ شہادت کو یوں بیان کرتے ہیں:

اگر آپ کسی کو دیکھیں کہ اُس کی گفتار سے، کردار سے، اخلاق سے شہید کی خوشبو آرہی ہے تو جان لیں کہ وہ شہید ہو جاٸے گا۔ ہمارے تمام شہداء ان خصوصيات کے حامل تھے، اِس سے پہلے کہ وہ شہید ہو جاٸیں، وہ شہید رہے تھے۔ کوٸی بھی شخص بغیر علم حاصل کیے عالم نہیں بن سکتا۔ عَالِم ہونے کی شرط علم حاصل کرنا ہے اور شہید (شدن) ہونے کی شرط شہید (بودن)رہنا ہے۔ اگر کوٸی شہید رہا ہے تو ہی شہید ہوگا۔ اگر کسی سے شہید کی خوشبو نہ آٸے، حتی وہ قتل کر دیا جاٸے شہید نہیں ہے۔ شہید وہ ہے کہ جب اُسے دیکھیں، اُس کی بات سنیں، اُس کی محفل میں بیٹھیں، اُس کے ساتھ دوستانہ وقت گزارنے کے دواران اُس سے شہادت کی خوشبو آٸے۔

اگر کوٸی شہید نہیں تھا تو وہ شہادت نہیں پاٸے گا۔ شہداء پہلے سے شہید رہے تھے، اس لیے کہ بعد میں شہید قرار پاٸیں۔ شہید (شدن) ہونے کی شرط شہید (بودن) رہنا ہے۔ یعنی اپنی پوری زندگی کو دینِ اسلام کے لیے وقف رکھنا اور اس راہ میں ہر سطح کے کام کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دینا ہی شہید ہونے کے لیے شہید رہنے کا عملی مصداق ہے۔ شہید کا خون کبھی راٸیگاں نہیں جاتا، شہید کا خون زمین پر نہیں بہتا بلکہ خونِ شہید کا ہر قطرہ سینکڑوں اور ہزاروں قطروں بلکہ خون کے سمندر میں تبدیل ہو کر معاشرے کے پیکر میں جاری ہو جاتا ہے۔ گلے کو ذبح کیا جا سکتا ہے، لیکن حلق سے نکلنے والی فریاد کو نہیں اور بالخصوص وہ فریاد جو کٹے ہوٸے گلے سے نکلتی ہے، ہمیشہ کے لیے جاودانہ ہو جاتی ہے۔
افسوس کہ سب ساتھی چلے گئے بس میں باقی رہ گیا
حسرت کہ جو دربدر پھرتا رہا وہ میں باقی رہ گیا
وہ راستے کا رہنماء آیا اور راستے پر چلنا سیکھا گیا
لیکن پھر بھی جو نہ جا سکا اور یہاں رہ گیا وہ میں ہوں
خبر کا کوڈ : 967031
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے مکار اور دوغلے خواص خود شہید ہونا نہیں چاہتے، دوسروں کی شہادت کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ جب یہ مکاری چھوڑ کر خود شہید بودن و شہید شدن کے مرحلے سے گذر جائیں گے تو ملک و ملت کی بہت سی مشکلات و مسائل ختم ہو جائیں گے، کیونکہ وہ مشکلات و مسائل یا تو ان کی مکاری اور دوغلے پن کا نتیجہ ہیں یا پھر ان کی مکاری اور دوغلاپن مشکلات و مسائل کے عادلانہ و منصفانہ حل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
ہماری پیشکش