0
Thursday 9 Dec 2021 00:17

متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر کا دورہ ایران

متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر کا دورہ ایران
تحریر: محمد محمدی
 
متحدہ عرب امارات اور ایران کے درمیان گذشتہ طویل عرصے سے اختلافات پائے جاتے ہیں جن کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد ہیں۔ اب کافی عرصے بعد متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زاید نے ایران کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے پیش نظر خلیجی ریاستوں نے بھی اپنی قومی سلامتی پر منڈلاتے خطروں کے سائے محسوس کئے ہیں اور وہ خطے میں نئے نظم کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو رہی ہیں۔ شیخ طحنون بن زاید کے دورہ تہران کو اسرائیل میں بھی بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ گذشتہ کئی سالوں کے دوران یہ متحدہ عرب امارات کے کسی اعلی سطحی حکومتی عہدیدار کا پہلا دورہ ایران ہے۔ اس دورے نے امریکہ پر عدم اعتماد کی فضا پیدا کر دی ہے۔
 
تہران میں اعلی حکومتی سطح پر شیخ طحنون بن زاید کا استقبال کیا گیا۔ ایران کی قومی سلامتی کی اعلی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی نے ان کو خوش آمدید کہا اور اسے کے بعد ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ان سے ملاقات کی۔ کہا جا رہا ہے کہ شیخ طحنون بن زاید کا یہ دورہ تقریباً دو ہفتے پہلے انجام پانا تھا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہو گیا۔ ان کے ایران دورے سے ایک دن پہلے امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید آل نہیان سے ملاقات کی۔ متحدہ عرب امارات کے سربراہ کے سیاسی مشیر انور قرقاش، جو اکثر ایران کے خلاف بہت سخت موقف اپناتے ہیں، نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ شیخ طحنون بن زاید کا دورہ ایران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کیلئے انجام پایا ہے۔
 
انور قرقاش نے اپنے پیغام میں مزید لکھا کہ متحدہ عرب امارات علاقائی سطح پر ایران کے ساتھ باہمی تعاون کو بھی فروغ دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ متحدہ عرب امارات خطے کا استحکام اور ترقی چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے خطے کے ممالک سے مثبت تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے لہذا گفتگو اور مشترکہ اقدامات کو بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انور قرقاش نے تین ہفتے پہلے بھی اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ ابوظہبی ایران سے تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کیلئے اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے۔ اگرچہ اکثر اوقات کہا جاتا ہے کہ خلیجی ریاستوں کے اعلی سطحی حکام کے ایسے دورے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد انجام پاتے ہیں لیکن شیخ طحنون بن زاید کا حالیہ دورہ ایران اس قاعدے کے تحت محسوس نہیں ہوتا۔
 
اس وقت ویانا میں ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور ان مذاکرات میں کوئی مثبت پیشرفت بھی نہیں ہو رہی۔ لہذا امریکہ کی جانب سے اپنے اتحادی ملک کے اعلی سطحی حکومتی عہدیدار کو ایران کا دورہ کرنے کی اجازت دیے جانے کا امکان بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ بعض سیاسی ماہرین متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر کے دورہ ایران کو خلیج فارس میں چین کی سفارتکاری کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں چین ایسی سرگرمیوں کے ذریعے خطے میں امریکہ کی موجودگی کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ اس رائے کی اہمیت اس وقت زیادہ ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے میں چین نے متحدہ عرب امارات سے اپنے تعلقات کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔
 
شیخ طحنون بن زاید کا دورہ ایران امریکہ میں بھی زیر بحث آ چکا ہے۔ ان کے اس دورے کی خبر تقریباً تین ہفتے پہلے ہی ذرائع ابلاغ پر آ چکی تھی۔ مشرق قریب سے متعلق امور میں امریکی وزیر خارجہ کے مشیر ڈینیئل بینائم نے متحدہ عرب امارات اور ایران کے حکام کے درمیان رابطوں کی جانب اشارہ کئے بغیر کہا تھا کہ واشنگٹن خطے میں ایران کی سرگرمیوں کے خلاف خلیجی ریاستوں سے تعاون کی نئی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ انہوں نے الحرہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ عرب ممالک اور خطے کے ممالک کیلئے امریکہ کا پیغام یہ ہے کہ "ہم خطے میں موجود ہیں اور وہاں باقی رہیں گے۔ ہم خطے کے ممالک کے ساتھ مستحکم شراکت داری رکھتے ہیں جو گذشتہ کئی عشروں سے جاری ہے اور ہم اسے آئندہ کئی عشروں تک جاری رکھنا چاہتے ہیں۔"
 
اسرائیلی حکام نے بھی شیخ طحنون بن زاید کے دورے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اخبایر میڈیا لائن نے لکھا کہ خطے میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں نے اسرائیل کو پریشان کر دیا ہے کیونکہ اس کے بعض نئے اتحادی ممالک اس کے اصلی حریف یعنی ایران سے قریب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ عراق کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب میں گذشتہ دو تین ماہ سے جاری مذاکرات اسی بارے میں ہیں۔ اگرچہ اسرائیل متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات پر یقین رکھتا ہے لیکن مشرق وسطی میں تعلقات تزلزل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ خلیجی ممالک کے ماہر ڈاکٹر موران زاگا اس بارے میں کہتے ہیں: اس دورے نے اسرائیل کو بہت زیادہ پریشان کر دیا ہے۔ ایران سے قربت اسرائیل کا اتحادی ہونے سے تضاد رکھتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 967558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش